سپریم کورٹ.— فائل فوٹو اے ایف پی

کوئٹہ: سپریم کورٹ نے توہین عدالت  کے نئے منظور کردہ قانون کے خلاف دائر درخواست پر اٹارنی جرنل اور وفاق کو ۲۳ جولائی کے لیے نوٹس جاری کردیےہیں۔  

جمعہ کے روز سپریم کورٹ کوئٹہ رجسٹری میں توہین عدالت قانون کے خلاف درخواست کی سماعت ہوئی۔ جس میں درخواست گزار باز محمد کاکڑ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہ قانون آئین کی بنیادی شقوں سے متصادم ہے۔ آرٹیکل دو اے عدلیہ کی آزادی کی ضمانت دیتا ہے جبکہ آرٹیکل پچیس کے تحت تمام شہریوں کے حقوق برابر ہیں۔

چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ دلائل سن کر محسوس ہوتا ہے کہ عدالت صبح فیصلہ کرے گی اور شام کو اسے رد کر دیا  جائے گا۔ جو لوگ ملک چلاتے ہیں انھیں آئین کی توہین نہیں بلکہ پاسداری کرنی چاہئے۔

معروف قانون دان اطہر من اللہ نے اپنے دلائل میں کہا کہ آئین کے آرٹیکل ایک سو نوے کے مطابق تمام ایگزیکٹیو بھی آئین پر عمل درآمد کرنے کے پابند ہیں۔

سپریم کورٹ نے اس نوعیت کے تمام مقدمات کو یکجا کرتے ہوئے حکم دیا کہ ان تمام درخواستوں کی سماعت ۲۳جولائی کو اسلام آباد میں ہوگی۔

ادھر سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں بھی مقامی وکیل نے توہین عدالت کے قانون کو چیلنج کردیا۔ درخواست گزار نے موقف اختیار کیا ہے کہ نیا قانون توہین عدالت قانون دوہزار بارہ، صدر آصف علی زرداری کی مبینہ کرپشن کیخلاف سوئس حکام کو خط نہ لکھنے پر وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کو ممکنہ توہین عدالت کی کاروائی سے بچانے کےلیے بنایا گیا ہے۔ یہ قانون عدلیہ پر حملہ اور آئین توڑنے کے مترادف ہے۔

صرف دو روز پہلے بل کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں پیش کرکے منظوری حاصل کی گئی تھی۔ حزبِ اختلاف کی اکثریت اور خود کئی حکومتی ارکان کی مخالفت کے باوجود اسے منظور کرالیا گیا تھا۔

منظور کردہ بل پر جمعرات کو صدرِ آصف علی زرداری نے دستخط کیےتھے۔ صدر کی توثیق کے بعد، پارلیمنٹ کے منظور کردہ توہینِ عدالت بل کو قانون کا درجہ حاصل ہوگیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں