قانون کی حکمرانی وہ خواب ہے جسے لبرل دانشوروں نے 18 ویں صدی کے آخری عشروں سے اپنے ایمان کا جزو بنایا ہوا ہے۔

مقابلے میں ترقی پسندوں کا یہ استدلال ہے کہ جس معاشرے میں حد سے زیادہ طبقاتی تفریق ہوگی وہاں قانون کی حکمرانی کا خواب ہمیشہ ادھورا ہی رہے گا۔ اپنے انتونیوگرامچی کا باکمال تجزیہ اگر آپ نے پڑھا ہو تو شاید آپ بھی ترقی پسندوں کی دلیلوں کے قائل ہو جائیں۔

جزائر انڈیمان (رنگون) یعنی کالا پانی اور "گوانتا نامو" حراستی مرکز تو مشہور ہیں مگر 18 ویں سے 21 ویں صدی تک جانے کتنے ہی مراکز انڈونیشیا، ملائیشیا سے لے کر درجنوں جزیروں پر مختلف طاقتیں بناتی رہی ہیں جن کی موجودگی انگریز، فرانسیسی اور امریکی لبرل حکمرانوں کے من پسند نعرے "قانون کی حکمرانی" کی تکریم کو گھٹاتے رہے ہیں۔

ان حراستی مراکز کی موجودگی اس حقیقت کی طرف اشارے کرتی ہے کہ تادم تحریر بڑے بڑے ممالک میں بھی ایجنسیاں پارلیمان یا منتخب اداروں کی سو فی صد طابع نہیں ہیں۔

جزائر انڈیمان سے گوانتا نامو تک بنائے گئے ان مراکز کے خلاف برطانوی و امریکی منتخب اداروں میں آوازیں اٹھتی رہیں مگر ان کو یکسر داخل دفتر کرنا تاحال کسی کے بس کی بات نہیں۔

البتہ ان کے مکمل خاتمے کے لیے سیاسی و انسانی حقوق کی تنظیمیں و پارٹیاں سرگرداں ہیں۔ اس صورتحال سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ان غیرقانونی حراستی مراکز کا تضاد براہ راست پارلیمان کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی سے ہے۔

یہ ہے وہ منظر نامہ جس کو روبرو رکھتے ہوے ہمیں پاکستان میں لاپتہ ہونے والے لوگوں کے حوالے سے چلنے والے مقدمے کو سمجھنا ہوگا۔

چیف جسٹس چودھری افتخار نے یقینا "جرأت رندانہ" سے کام لیتے ہوئے بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالا۔ تاہم اس مقدمہ کی تاحال جو کارروائی اور جج صاحبان کے ریمارکس بذریعہ میڈیا سامنے آئے ہیں ان سے بہت سی غلط فہمیاں بھی پھیل رہی ہیں جو کچھ یوں ہیں؛

پاکستان میں ٩/١١ کے بعد لوگ "لاپتہ" ہونا شروع ہوئے۔

لاپتہ افراد کی اکثریت کا تعلق کیونکہ "پرانے مددگاروں" سے ہے اس لیے عدالتیں اس حوالے سے آج زیادہ متحرک نظر آتی ہیں

دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی لاپتہ ہونے والے افراد کے سلسلہ میں اصل ذمہ داری ریاست کی ہے کہ ایسے معاملات کو تو پارلیمان میں لایا ہی نہیں جاتا۔ ایسے میں اس مقدمہ کے نتیجے میں پارلیمان کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کو بڑھاوا ملنا چاہیے۔ مگر اس وقت تاثر یہ ہے کہ کہیں اس مقدمہ کا 'ملبہ' جمہوری تسلسل میں بننے والی پہلی پاکستانی منتخب حکومت پر نہ ڈال دیا جائے۔

لاپتہ کیس کے اخلاقی، انسانی اور قانونی پہلو بھی اہم ہیں اور سیاسی پہلوﺅں سے بھی فرار حاصل نہیں۔ جب یہ سب پہلو مدنظر ہوں گے تو اس بارے ایسے فیصلے کیے جا سکتے ہیں جس کے ملک پاکستان پر دور رس نتائج پیدا ہوں۔ بصورت دیگر "لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ" والا معاملہ ہوگا۔ مگر اس وقت اسے محض انسانی، اخلاقی یا قانونی مسئلہ بنا کر پیش کیا جارہا ہے۔

لوگوں کو بغیر وارنٹ اٹھا لینا، بغیر مقدمہ کے گرفتار رکھنا یا حراستی مراکز کی زینت بنانا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ جعلی پولیس مقابلوں کے بارے میں بھی ہم سب جانتے ہی ہیں۔

سوال محض یہ نہیں ہے کہ اس طریقہ واردات میں بے گناہ لوگ بھی مارے جاتے ہیں۔ بلکہ اصل بات یہ ہے کہ اس طریقہ کار کے تحت جب آپ کسی گناہگار کو بھی اٹھاتے ہیں یا مار دیتے ہیں تو وہ بھی قانون کی حکمرانی کی نفی ہی ہے۔ یہ وہ پہلو ہیں جن کا تاحال مقدمے میں کوئی ذکر نہیں مگر کیا ان پر بات کیے بغیر "لاپتہ مقدمہ" کا فیصلہ لکھا جا سکتا ہے؟

1950 کی دہائی کے آخری سالوں میں مشہور ترقی پسند حسن ناصر کی موت بھی اک حراستی مرکز میں ہی ہوئی تھی جسے فوجی حکمران جنرل ایوب کی ایماء پر بنایا گیا تھا۔ راولپنڈی سازش کیس کے ڈسے ہوئے بیچارے میجر اسحاق محمد تو حسن ناصر کا مقدمہ لڑتے رہے مگر عدالتوں سے بھی انہیں کوئی شنوائی نہ ہوئی۔

فوجی حکمرانوں کے ادوار میں کتنے ہی بنگالی، پنجابی، پختون، بلوچ اور نئے پرانے سندھی لاپتہ کر دیے گئے اس بارے تو سب کو معلوم ہی ہے۔ جنھیں ذاتی دشمنی کی وجہ سے لاپتہ کیا گیا یا جو بالکل بے گناہ تھے، ان کی فہرست تو خاصی طویل ہے۔

یہ سب ہمارے ہاں سے عرصہ دراز سے ہوتا چلا آ رہا ہے۔ جس ملک میں فرانزک رپورٹوں اور پوسٹ مارٹم سے متعلقہ دستاویزات کو بھی بدل دیا جاتا ہو وہاں قانون کی حکمرانی کی بات بے معنی ہی لگنے لگتی ہے۔

کسی نے صحیح کہا تھا کہ لاپتہ افراد کا مقدمہ "ام المقدمات" یعنی مقدموں کی ماں ہے۔ اب یہ بات بھی سمجھ لیں کہ جس ملک میں شناختی کارڈ، ڈرائیونگ لائسنس اور پاسپورٹ جیسی بنیادی اہمیت کی دستاویزات سفارش، رشوت اور دباﺅ پر با آسانی بنوائی جا سکیں وہاں تفتیش کار خجل نہیں ہوں گے تو کیا ہوگا۔

دلچسپ تضاد تو یہ ہے کہ "لاپتہ مقدمہ" میں قانون کی حکمرانی کی آڑ میں وہ بااثر سول و فوجی افسر بھی ریاست پر الزام لگا رہے ہیں جو خود علی اعلان یہ بات کہہ چکے ہیں کہ انھوں نے اک منتخب حکومت کے خلاف آئی جے آئی بنائی تھی۔

تنقید کا گرز وہ بھی چلا رہے ہیں جنھوں نے جونیجو حکومت کو بحال کرنے سے عدالتوں کو روکا تھا۔ عاصمہ جیلانی کیس، نصرت بھٹو کیس اور ظفر علی شاہ کیس میں فوجی آمروں کو تحفظ دینے والے اور ان آمروں کی حکومتوں میں شامل رہنے والے بھی ریاست پر جانبداری کا الزام لگائیں تو سمجھ آتی ہے کہ یہ الٹی گنگا کیوں بہنے لگی ہے۔

آج ایسے لوگ انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کے طرفدار کیوں ہو چکے ہیں؟ کیا انھوں نے کبھی اپنے پرانے جرائم پر قوم سے معافی مانگی؟

یہ بات سب جانتے ہیں کہ انھیں قانون کی حکمرانی کی تکریم سے زیادہ "اپنے بندوں" کی رہائی کی فکر ہے۔ چیف جسٹس اور ان کے رفقاء اس مقدمہ کو جس سطح تک لے آئیں ہیں وہ اک غیر معمولی کام ہے۔ تاہم اس مقدمہ کا فیصلہ ہمیں یہ بات سمجھائے گا کہ یہ مقدمہ اس موقع پر کیوں اٹھایا گیا تھا۔

پاکستان کی غیرمنتخب اشرافیہ اس مقدمہ کو اپنے انداز میں دیکھ رہی ہے۔ ٩/١١ کے بعد لاپتہ ہونے والوں کو اس مقدمہ سے کچھ اور امیدیں ہیں۔ فوجی آمروں کے پٹھو اس مقدمہ میں اپنی پرانی نوکریوں کی بحالی کی کرنیں دیکھ رہے ہیں۔ جمہوری سیاسی جماعتیں اور میڈیا تذبذب کا شکار ہے کہ یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟ عام آدمی کی تو بات ہی نہ کریں کہ وہ تو جانے کتنی صدیوں سے ظلم و جبر کے خلاف انصاف و خیر پر مبنی بندوبست کا منتظر ہے۔

غرض یہ کہ لڑائی تو ایک ہے مگر اس میں اپنے اپنے مفادات و نظریات کی تلواریں اٹھائے بہت سے کردار موجود ہیں۔ کچھ نے قانون کے نقاب اوڑھ رکھے ہیں تو کچھ انسانی حقوق کے خول چڑھائے ہیں جبکہ کچھ کے نقابوں پر میڈیا کی پٹی چسپاں ہے۔

جو کل بھی قانون کی حکمرانی، جمہوریت کے تسلسل اور پارلیمان کی بالادستی کو پاکستان کے لیے لازم قرار دیتے تھے اور آج بھی یہی کلمہ پڑھتے ہیں ان کو کسی نقاب کی ضرورت نہیں۔ ہر کوئی منتظر ہے کہ اس لڑائی کے نتیجے میں پاکستان قانون کی حکمرانی، پارلیمان کی بالادستی اور جمہوری تسلسل کی طرف بڑھے گا یا نہیں؟ بقول مادھو لعل حسین "بازی کون جتے کون ہارے"

تبصرے (0) بند ہیں