بت ہیں 'جماعت' کی آستینوں میں

اپ ڈیٹ 30 دسمبر 2013
السٹریشن -- وکی میڈیا کامنز
السٹریشن -- وکی میڈیا کامنز

(روایت ہے کہ ’سیاست کے خیمے میں مذہب کا اونٹ داخل ہوتا ہے تو انسانیت منہ لپیٹ کر باہر نکل آتی ہے‘۔ پاکستان کی تاریخ میں مذہب اور سیاست کے امتزاج کا بہترین نمونہ جماعت اسلامی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں مذہبی جماعتوں کے کردار کو سمجھنے کے لیے جماعت کی تاریخ پر نظر ڈالنا وقت کا تقاضا ہے۔ موجودہ حالات یہ ہیں کہ ارض پاک مذہبی تنازعات میں گھری ہوئی ہے اور مذہبی جماعتیں، جنہیں عوام نے کبھی ووٹ ڈالنا مناسب نہیں سمجھا، اس ملک کی نظریاتی ٹھیکے دار بنی بیٹھی ہیں۔

پاکستان کی تاریخ میں مذہبی سیاست کے داغدار کردار کو قارئین تک پہنچانے کے لیے ہم نے اس سلسلہ مضامین کا آغاز کیا ہے، اور ہم جماعت اسلامی کو بطور مثال پیش کر کے یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ مذہب اور سیاست کو اکٹھا کرنا ایک سنگین غلطی ہے اور ہم آج اس غلطی کی سزا بھگت رہے ہیں۔)


سید ابوالاعلی مودودی ستمبر 1903ء میں اورنگ آباد، دکن کے ایک صوفی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سید احمد حسن مودودی نے کچھ وقت علی گڑھ کالج میں بسر کیا اور پھر الہ آباد سے قانون کی تعلیم حاصل کی۔

1910ء میں سید احمد حسن نے مولوی محی الدین کے ہاتھ پر بیعت کر لی اور خاندان سمیت دہلی منتقل ہو گئے۔ ابوالاعلی کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی جہاں انہوں نے فارسی، اردو، منطق، فقہ اور حدیث کی تعلیم حاصل کی۔

گیارہ سال کی عمر میں انہیں مدرسہ فوقانیہ اورنگ آباد میں داخل کروایا گیا۔ عربی زبان پر عبور کے باعث انہوں نے گیارہ سال کی عمر میں مصری عالم قاسم امین کی کتاب کا اردو ترجمہ کیا۔

اس کے بعد کچھ وقت حیدرآباد کے دارالعلوم میں بسر کیا۔ مدرسے سے فارغ ہونے کے بعد ابوالاعلی نے کوچہء صحافت کا رخ کیا۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے اپنے بڑے بھائی ابوالاخیر مودودی سمیت دہلی میں رہائش اختیار کی اور مختلف رسائل میں مضامین بھیجتے رہے۔

ان دنوں رولٹ ایکٹ اور تحریک خلافت کے زیر اثر مودودی صاحب نے پنڈت مدن موہن اور موہن داس کرم چند گاندھی کے حالات زندگی تحریر کیے۔ سنہ 1919 ء میں انہوں نے ’تاج‘ نامی کانگرسی رسالے کی ادارت سنبھالی۔ بعد ازاں دو سال جمیعت علمائے ہند کے اخبار ’مسلم‘ کی ادارت کا کام انجام دیا۔

سنہ 1925 ء میں انہوں نے جمیعت کے نئے اخبار ’الجمیعت‘ کی ادارت شروع کی اور ساتھ ساتھ درس نظامی میں بھی داخلہ لیا۔

سن 1924ء میں تحریک خلافت کی ناکامی نے مودودی کو قائل کر دیا کہ قوم پرستی اور جمہوریت ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے موزوں نہیں۔ انہوں نے سن 1925ء میں ’اسلام کا چشمہء قدرت‘ نامی سلسلہ مضامین شروع کیا جس میں انہوں نے ماضی کے واقعات کی روشنی میں حال کے مسائل کے حل تجویز کیے۔

1932ء میں ترجمان القرآن نامی رسالے کا آغاز کیا اور 1939ء میں ’متحدہ قومیت اور اسلام‘ اور ’مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش‘ کے نام سے پمفلٹ اور کتابچے تحریر کیے۔ (سن 1963ء میں خورشید احمد نے ان کو یکجا کر کے دو جلدوں میں ’تحریک آزادیء ہند اور مسلمان‘ کے نام سے چھاپا۔ ان کتابوں میں کافی ردوبدل کی گئی اور بہت سی ’متنازعہ‘ باتیں مٹا دی گئیں، البتہ تاریخ کو مسخ کرنا اتنا آسان نہیں اور ہم اس علمی بد دیانتی کو بے نقاب کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔)

1937ء میں علامہ اقبال نے پٹھان کوٹ میں ایک دارالعلوم قائم کرنے کا فیصلہ کیا جہاں جدید تعلیم کے ذریعے مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کے لیے کام کیا جا سکے۔ اس ادارے کے سربراہ کی تلاش کا کام اقبال نے اپنے رفیق چوہدری نیاز علی کے ذمے لگایا۔

نیاز علی نے پہلے اشرف علی تھانوی سے بات کی مگر انکار کا سامنا کرنا پڑا، پھر مودودی صاحب سے رابطہ کیا۔ اسی سلسلے میں مودودی اور اقبال کی ملاقات بھی ہوئی اور بالآخر مودودی صاحب کو دارالاسلام کے وقف کا سربراہ مقرر کیا گیا۔

1939ء میں نیاز علی سے شدید اختلافات کے بعد مودودی نے وقف سے استعفیٰ دے دیا (نیاز علی مسلم لیگ کے حامی تھے اور وہ مودودی صاحب کو سیاست میں دخل اندازی سے باز رکھنے میں ناکام ہونے پر دلبرداشتہ ہو گئے تھے)۔

اگست 1941ء میں مودودی صاحب نے جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی۔ 1941ء سے 1947ء تک جماعت اور امیر جماعت کے سیاسی نظریات سمجھنے کے لیے ان کی تصنیفات پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔

’تحریک آزادیء ہند‘ کا مقدمہ خورشید احمد (1953ء میں اسلامی جمیعت طلبہ کے ناظم اعلی) نے لکھا ہے اور سیاست کے متعلق فرقہ مودودیہ کا موقف انہوں نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے، ’مسلمان اور غلامی، یہ دونوں چیزیں ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتیں۔ مسلمان کے لیے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ غلامی کی فضا میں اپنے دین کے تقاضوں کو پورا کر سکے۔ اسلام غلبے اور حکمرانی کے لیے آیا ہے، دوسروں کی چاکری اور باطل نظاموں کے تحت جزوی اصلاحات کے لیے نہیں آیا۔‘

اس قسم کی خیالی باتیں وہی لوگ کر سکتے ہیں جنہیں تاریخ اور سیاست سے ذرہ برابر بھی آشنائی نہیں۔ ان نظریات کی روشنی میں جماعت یا اس کے لے پالک بچوں کو کسی بھی سامراج کے خلاف بات ہی نہیں کرنی چاہئے کیونکہ یہ نظریات بذات خود Imperialist
سوچ کا ایک نمونہ ہیں۔ یہی خورشید احمد صاحب بعد میں پاکستان کی سینیٹ کے رکن رہے اور جمہوری نظام کا حصہ بنے۔

'مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش' کے حصہ اول میں صاحب کتاب نے کانگرس اور ہندوستانی قوم پرستوں پر چاند ماری کی۔ ابتدائی مضامین میں ہندوستان میں مسلمانوں کی مختصر تاریخ بیان کرنے کے بعد آبادی کے ایک بڑے حصے کو اسلامی اعتبار سے جاہل قرار دیا۔

اس کتاب کی دوسری جلد (جو بعد میں ’تحریک آزادی اور مسلمان‘ حصہ دوم کے نام سے چھاپی گئی) میں صاف صاف لکھ دیا کہ وہ جمہوریت اور کمیونزم کے مقابلے میں ’اسلامی نظام‘ (جو آجکل 'اسلام ازم' یا 'سیاسی اسلام' کہلاتا ہے) کو افضل سمجھتے ہیں۔ انہوں نے اس نظام کے متعلق لکھا؛

’میں صرف غیر مسلموں کو ہی نہیں بلکہ خود مسلمانوں کو بھی اسلام کی طرف دعوت دیتا ہوں اور اس دعوت سے میرا مقصد اس نام نہاد مسلم سوسائٹی کو باقی رکھنا اور بڑھانا نہیں ہے جو خود اسلام کی راہ سے بہت دور ہٹ گئی ہے۔‘

موصوف نے اسلام کو مذہب کی بجائے ’عالمگیر تحریک‘ بنانے کی کوشش کی اور اسی کوشش میں ایسے نکات بلند کیے جو ان سے پہلے کسی نے نہیں کیے تھے۔ دسمبر 1939ء میں لکھا؛

’اسلام کی رو سے مسلمانوں کی جمیعت صرف وہ ہو سکتی ہے جو غیر الہی حکومت کو مٹا کر الہی حکومت قائم کرنے اور قانون خداوندی کو حکمراں کرنے کے لیے جدوجہد کرتی ہے۔ جو جماعت ایسا نہیں کرتی وہ نہ تو اسلامی جماعت ہے نہ اسے مسلمانوں کی جماعت کہنا درست ہے‘ (یہاں اسلام سے مراد ’مودودی صاحب کی مرضی کا اسلام‘ ہے۔ جولائی 1940ء میں انہوں نے ’اصلی مسلمانوں کے لیے ایک ہی راہ عمل‘ نامی مضمون تحریر کر کے اختلاف کا راستہ ہی بند کر دیا)۔

اسلام کے مکمل ضابطہ حیات ہونے کا دعوی پہلی بار مودودی صاحب نے نہیں کیا لیکن اس دعوے کی بنیاد پر ایک نظریاتی عمارت کی تعمیر میں انکا حصہ ضرور ہے۔ اسلامی فکر و عمل کے استاد ڈاکٹر خالد ظہیر کے مطابق یہ دعوی پہلی دفعہ بیسویں صدی میں کمیونزم اور سرمایہ دارانہ جمہوریت کا مقابلہ کرنے کے لیے کیا گیا اور اس کی کوئی تاریخی مثال موجود نہیں۔ اسی طرح اسلام کو مذہب کی بجائے دین قرار دینے کا کام بھی انہوں نے اپنے مضمون ’مذہب کا اسلامی تصور‘ میں انجام دیا۔

مودودی صاحب نے مذہب کی جو تعبیر کی، اس پر ہم کم علمی کے باعث تنقید کرنے کے اہل نہیں لیکن اس ضمن میں مولانا وحیدالدین کی تصنیف ’تعبیر کی غلطی‘ ایک اہم کاوش ہے۔ وحیدالدین صاحب جماعت کے ابتدائی کارکنان میں شامل تھے اور انکی تنقید کا تسلی بخش جواب مودودی صاحب یا ان کے قریبی ساتھی کبھی نہ دے سکے۔ البتہ تاریخ اور سیاست پر مولانا مودودی کی مشق ستم ہماری ناقص رائے میں ناقابل معافی ہے اور اس پر ہم چند اقتباس پیش کریں گے؛

لفظ سیکولر کو ’لادینی‘ کہنے کا عمل بھی مولانا مودودی نے شروع کیا (اور اب یہ غلط العام ہو چکا ہے)، حالانکہ انگریزی زبان کے اس لفظ کا ترجمہ ’مذہب اور سیاست کی علیحد گی کا نظریہ‘ زیادہ مستند ہے۔ سیدھے لفظوں میں "روادار حکومت" بھی کہا جا سکتا تھا۔ جمہوریت کے بارے میں انکی رائے مندرجہ ذیل ہے؛

"یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ ہم اس نظام کے اندر داخل ہو کر اس کو اسلام کی طرف پھیر لیں گے۔ اس کے اندر داخل ہونا بغیر اس کے ممکن نہیں کہ پہلے اس کے بنیادی نظریے (سلطانیء جمہور) کو تسلیم کیا جائے اور اس کے بنیادی نظریے کو تسلیم کرنا اسلام کے بنیادی نظریے سے انکار کا ہم معنی ہے۔ لہذا مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارے لیے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ باہر سے اس کے خلاف لڑیں اور اپنی تمام تر کوشش پہلے یہ اصول منوانے میں صرف کریں کہ قانون سازی کتاب الہی کی سند پر مبنی ہونی چاہئے۔‘ انہوں نے دین و دنیا کی علیحدگی کے تصور کو ’جاہلی تصور‘ قرار دیا۔

سن 1941 میں جماعت میں داخلے کی شرائط میں ایک شرط یہ بھی شامل تھی: ’اگر آپ کسی مجلس قانون ساز کے رکن ہیں تو اس سے مستعفی ہو جائیں کیونکہ جو مجلس قرآن اور سنت رسول کو اساس اور منبع قانون تسلیم نہ کرے، اسلام کی رو سے اس کو انسانی زندگی کے لیے قوانین بنانے کا کوئی حق نہیں پہنچتا اور اس کی رکنیت قبول کرنا کسی مسلمان کا کام نہیں۔‘

ہر احیا پرست کی طرح جناب کو بھی اپنے نقطہ نظر اور طریقہ عمل کے بارے میں صد فیصد درست ہونے کا یقین تھا اور انکے مطابق جو راستہ انہوں نے چنا، وہی حقیقی اور سچا راستہ تھا (اسی رویے کو مولانا وحیدالدین نے ’مولانا مودودی کی مریضانہ ذہنیت‘ قرار دیا)۔

مسلم لیگ کے متعلق ارشاد فرمایا: ’مسلم لیگ کے بنیادی تصورات، اس کا نظام ترکیبی، اس کا مزاج، اس کا طریق کار اور اس کے مقاصد سب کچھ وہی ہیں جو قومی اور قوم پرستانہ تحریکوں کے ہوا کرتے ہیں۔ یہ اور بات کہ یہ مسلمانوں کی قومی تحریک ہے اس لیے خوامخواہ اسے بھی اسلامی تحریک سمجھ لیا گیا ہے۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ اسلامی تحریک اپنی نوعیت کے اعتبار سے بالکل ایک دوسری چیز ہوا کرتی ہے جس کا کوئی شائبہ بھی مسلم لیگ کی قومی تحریک میں نہیں پایا جاتا، اور یہ کسی طرح ممکن نہیں کہ اسلام اپنے مخصوص طریقہ کار سے جس منزل تک پہنچنا چاہتا ہے، اس تک آپ ایک قوم پرستانہ تحریک کے ڈھنگ اختیار کر کے پہنچ جائیں۔‘

اسی مضمون میں ایک اور مقام پر لکھا: ’مسلم لیگ کی ساری قوت محرکہ اس وقت مسلمان قوم کے ایسے طبقے کے ہاتھ میں ہے جو زندگی کے جملہ مسائل میں دینی کی بجائے دنیوی نقطہ نظر سے سوچنے اور کام کرنے والا ہے، اسلام کی بجائے مغربی اصول حیات کا معتقد اور مقلد ہے، دینی تعلق کی بجائے قومیت کے تعلق کی بنا پر مسلمانوں کی حمایت و وکالت کر رہا ہے۔

صرف اتنا ہی نہیں کہ یہ گروہ خود علانیہ اسلام کے اصول و احکام کی خلاف ورزی کرنے میں بیباک ہے، بلکہ اس کی راہنمائی و سربراہ کاری کی وجہ سے مسلمانوں میں بالعموم اسلام کے احکام کی خلاف ورزی اور اس خلاف ورزی میں بے باکی بڑھتی جا رہی ہے، انکی دینی حس مردہ ہو رہی ہے اور ان پر دنیا پرستانہ ذہنیت چھا رہی ہے۔‘

ایک اور مقام پر لکھا:
’مسلم لیگ کے کسی ریزولوشن اور لیگ کے ذمہ دار لیڈروں میں سے کسی کی تقریر میں یہ بات واضح نہیں کی گئی کہ انکا آخری مطمح نظر پاکستان میں اسلامی نظام حکومت کرنا تھا۔ برعکس اس کے ان کی طر ف سے بصراحت اور بتکرار جس چیز کا اظہار کیا گیا تھا وہ یہ تھا کہ ان کے پیش نظر ایک ایسی جمہوری حکومت تھی جس میں دوسری غیر مسلم قوموں کو بھی حصہ دار بنایا جائے گا مگر اکثریت کے حق کی بنا پر مسلمانوں کا حصہ غالب ہو گا۔'

اس کے علاوہ اگر کوئی مودودی صاحب کے پاکستان اور جناح صاحب کے متعلق افکار پڑھنا چاہے تو اس کے لیے سن 1969ء میں لکھی گئی ’قائد اعظم، نظریہ پاکستان اور اسلامی نظام: ابوالاعلی مودودی کی نظر میں‘ ملاحظہ کریں۔

قیام پاکستان کے بعد جماعت اسلامی اور مودودی صاحب کے ’کارنامے‘ اگلی قسط میں تفصیل سے، ’کھول کھول کر‘ بیان کیے جائیں گے۔

(جاری ہے)


ریفرنس:

Mawdudi and Making of Islamic Revivalism by Vali Nasr

تعبیر کی غلطی، مولانا وحیدالدین خان

http://www.scribd.com/doc/100798620/tabeer-ki-ghalti-maulana-wahiduddin-khan

تحریک آزادیء ہند اور مسلمان

(حصہ اول: http://www.quranurdu.com/books/urdu_books/Tahreek-e-Azadi%20hind%20aur%20Muslman%201.pdf

حصہ دوم: http://www.quranurdu.com/books/urdu_books/Tahreek-e-Azadi%20hind%20aur%20Muslman%202.pdf )

مولانا مودودی اور میں، اسرار احمد

http://www.scribd.com/doc/39933698/Maududi-and-I-Dr-Israr-Ahmad-Bio

’قائد اعظم، نظریہ پاکستان اور اسلامی نظام: ابوالاعلی مودودی کی نظر میں‘، مولانا محمد اشفاق

http://www.scribd.com/doc/183195594/Jinnah-Pakistan-Ideology-Islamic-System-and-Mawdudi-by-Sheikh-Muhammad-Ashfaque

تبصرے (29) بند ہیں

rabnawaz Dec 19, 2013 12:21pm
اسلام علیکم جناب آپ کا مضمون میں نے پڑھا اچھا لکھا ھے ۔ آپ نے تو صرف جماعت اسلامی کے ماضی کی تصویر کشی کی ھے۔ اور کی اس بات سے ہر کوي اتفاق کرتاھے صرف بات کرنے کی حد تک ۔ ورنہ ان ان اسلام کے ٹھیکہداروں کا مقابلہ کرنا ھم جیسے کمزور انسانوں کا کام نہیں ۔ کیوں ان کے خلاف کوي بات کرتاھے ۔ اسپر کفر کا فتوی جو پہلے سے تیار ھوتا ھے ۔ صرف نام لکھنا باقی ھوتا ھے۔ یاپھر ان کا حال گور نر پنجاب سلمان تاثیر کا ھوا ۔ جناب ابھی بھی وقت ھے اگر ان کو لگام نہ ڈالی گي تو اللہ ھی بہتر جانتا ھے کہ پاکستان کا کیا حال ھو گا۔ علماء کے کردار کے متعلق تو رسول کریم نے آج سے 1500 سال پہلے بتا دیا ۔ کہ میری امت پر ایک وقت آۓ گا۔ اس وقت علماء آسمان کے نیچے بد ترین مخلوق ھوگی۔ اور فتنے ان سے نکلیں گے۔ اور انھیں میں جا کر ختم ھوں گے ۔ اور مسجدیں بظاہرآباد ھونے کے ھدایت سے خالی ھوں گیں ۔ کیا یہ وھی وقت نہیں۔ اس میں کوي شق نہیں ۔ سبحان اللہ ۔ اللہ کے رسول کی پیش گوي کس شان سے پوری ھو ي ۔ اور اللہ تعالی ان علماء کو کس طرح پکڑ رہا ھے ۔اللہ اکبر،،،،،،،،،ھے ازل سے یہ تقدیر نمرودیت آپ ھی آگ میں اپنی جل جاۓ گی،،،،،،،،،
Ihtisham KHaliq Dec 19, 2013 07:59pm
@rabnawaz: to bhai phr apko chahye ky masjid main ap namaaz ki amaamat khud karaya kary. kisi imam ky pechy na parha kary. jazak Allah
عمران زاہد Dec 19, 2013 08:51pm
محترم، آپ اسلام، اسلامی نظام، جماعت اسلامی ، اور مولانا مودودی پر مضمون کی بجائے برکاتِ سیکولرزم پر کوئی مضمون لکھتے تو شاید زیادہ مناسب ہوتا۔۔ چلیں آپ کے مضمون سے ایک چیز تو واضح ہو رہی ہے کہ نظریاتی حوالے سے جماعت ابھی تک لبرلز اور سیکولرز کو چبھ رہی ہے۔ سیکولرزم کی تشریح آپ نے روادار حکومت فرمائی ہے جو نہ صرف غلط ہے بلکہ خلافِ واقعہ ہے۔ مصر اور بنگلہ دیش کی سیکولر حکومتوں سے سے بڑھ کے انصاف اور انسانیت کا قتلِ عام کرنے والی کون سی حکومتیں ہوں گی؟ اس پر تو سیکولرمغربی حلقے بھی چیخ اٹھے ہیں۔ مشرف کی سیکولر حکومت کتنی روادار تھی؟ ڈالر لے کر اپنی قوم کو فروخت کرنا اگر سیکولرزم ہے تو پھر ماننا پڑے گا۔ مغربی سیکولر حکومتیں تو سیکولرزم اور جمہوریت کی اپنی تشریحوں کو بزورِ قوت نافذ کرتی ہیں ، لاکھوں انسانوں کا قتلِ عام کرنے میں انہیں کوئی باک نہیں۔۔کہاں کی رواداری اور کہاں کا سیکولرزم؟ خواتین کا اپنی مرضی سے حجاب لینے سے ان کا سیکولرزم خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ ہولوکاسٹ پر بات کرنے سے ان کا سیکولرزم مکمل ذبح ہو جاتا ہے۔ حضور اب تو تسلیم کر لیجیے۔۔ اقبال نے کہا تھا کہ جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی۔۔۔۔ سیکولرزم اور چنگیزی ہم معنی الفاظ ہیں۔ آپ کسی لحاظ سے پرکھ کے دیکھ لیں۔ سیکولرزم کے خوشنما ریپر کے نیچے بدنما چنگیزیت خوخیاتی ہوئی ملے گی۔ مولانا مودودی نے جو مسلم قومیت، اسلامی امت، جاہلیت، جدید جاہلیت ، اسلام دین۔۔ جن جن اصطلاحات پر بات کی ہے قران و حدیث کی روشنی میں کی ہے۔ علمی حوالے سے اس پر تبصرے اور تنقید کرنا علماء کا کام ہے ۔ سیکولرز اور فرقہ پرستوں میں ایک
Ehtesham Dec 19, 2013 09:57pm
نہایت بھونڈے اور بودے انداز میں لکھا گیا، مصنف تعصّب میں اندھے بہرے ہی نہیں لولے لنگڑے بھی ہو گئے.
Ehtesham Dec 19, 2013 09:58pm
@عمران زاہد: buhat khoob liberals kay makrooh khayalat aor islami dusmani aap nay khoob wazih ki. JazakALLAH
shakeel Dec 19, 2013 10:30pm
I totally disagree with what you have written, it is totally biased,you cant exclude religion from the poltics of muslims word,since western culture has abondon the religious beliefs,they can adopt any asm,the muslim word can only compete the modern word only if they refer back to the true spirit of islam,it is true that the role of current religous parties is not that much ideal,but as a reaction , secularism is not the solution of the problem, actually secularisn has failed even in the mast modern and developed muslims sociaties like turkey,now what can you expect from the conservative sociaty of pakistan?.in enmity of JI you cant disperse muslims from the islamic behaviours.if you believe in democracy than you should expect the role of muslim masses in politics, we have seen the true face of secularism in many countries like your most favorite india,if Modi becomes PM of india,i will expect such an article from youu
Fahd Dec 19, 2013 11:13pm
Ma JI ka supporter nhin par khnay pa majbur ho gya hu k baisness ki tumam hadood ko paar kar diya gya ha. Kabhi ma b shayad essa hi sochta tha oar es ki waja public perception thi oar aisi he cuttings parhh k nai gae opinion thi jesi cuttings ko writer na code kiya ha. So Mr. Abid = Bilawal 2 i would suggest you to go and read the literature directly and thoroughly so that you can understand the things in actual way. DAWN sa essi incomplete research wali post oar woh social media pa share ki umeed toh na thi par content toh create kiya ha banday na.. :P Ma 1 foreign student honay k bawjud agar har sawal ya tanz ka jawab da sakta hu toh Pakistani ya JI members toh writer ki been baja den.
Bilal Dec 19, 2013 11:14pm
wahh kia tasubana mazmoon likha ha .. mazmoon kam or dehaati oraat ky ilzamaaat ziada lag rahy han :-)
محسن عباس Dec 20, 2013 03:01am
دل جلے ایک سچے مضمون کو ہضم نہیں کر پا رہے۔ یہ ہے پاکستان۔
fayaz Dec 20, 2013 03:11am
مضمون نگار کی علمیت کا اندازہ اس بات ہو جات اہے کے موصوف اسلامی جمعیت طلبا کو جمیعت طلبا اسلام لکھتے رہے جو کے ایک الگ تنظیم ہے اور وہ جمیعت علم ااسلام کی طلبہ تنظیم ہے، جماعت اسلامی کی تاریخی لکھتے لکھتے ساتھ اس کی اصلاح کا بیٹرا بھی اٹھا لیا،
Faisal Dec 20, 2013 06:31am
firqa-e-modoodia............ i did not know that I belonged tho this "firqa" as I think Maudoodi and Dr. Khursheed great scholors. Their thoughts may have evolved but overall, their thinking is pretty consistante.
Abdullah Dec 20, 2013 09:27am
اگرچہ قرآنی احکامات اور سنت رسول کے مطابق دین میں زور اور زبردستی کا ہرگز ہرگز دخل نہیں ہے ۔لیکن ڈنڈے کے زور پر اسلام رائج کرنے کا رجحان مولانا مودودی سے ہی نہیں بلکہ یہ کام صدیوں سے ہورہا ہے ، جب نام نہاد مسلم بادشاہ اپنی حوس اقتدار کی تسکین کے لئے اسلام کا پرچم بلند کئے نکلتے اور کلمہ تکبیر کی آڑ میں خلق خدا کا خون بہاتے رہے ہیں اور ان کی تاریخ کو آج بھی اسلامی تاریخ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ یہی وہ سوچ ہے جس نے اسلام کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ ان لوگوں نے حصول سلطنت اور دنیا اور انسانوں پر حکمرانی کو ہی دین قرار دیا۔ اسلام جو آدمی کو انسان بنانے آیا تھا ان لوگوں کی حوس نے اس کو درندگی میں تبدیل کردیا، اور یہی وجہ ہے کہ آج تمام عالم میں مسلم دہشتگردی کا چرچہ عام ہے۔
Khalid Rana Dec 20, 2013 12:49pm
criticizing Maulana Maudodi? be specific to your topic. I would suggest you to read and learn about your religion first, and then criticize those who gave their interpretations. I may have many objections the way Maulana Madodi explained and advanced the agenda of Islamic philosophy of governance. but there is no second opinion on the fact that Islam is not merely a religion of rituals. Its a code of conduct of life for individual, for social, for economic and for everything ....... Islam is the name of "dominance". the word which is far from comparing with "imperialism or something like it". next time when you set to criticize a person be to that person. do not confuse enlightened concepts of Islam for merely strengthen your arguments against an individual.
عبدالمجید Dec 20, 2013 01:41pm
@fayaz: صرف ایک مقام پر لکھائی کی غلطی نکلنے پر آپ نے پورے مضمون کو مسترد کر دیا؟ کیا خوب معیار ہے دیانت داری کا۔
عبدالمجید Dec 20, 2013 01:42pm
@Bilal: مودودی صاحب کے اپنے الفاظ میں ہی لکھا ہے مضمون، اب آپ انکو دیہاتی عورت کا درجہ تو مت دیں۔
عبدالمجید Dec 20, 2013 01:43pm
@Fahd: I have quoted DIRECTLY from the very books that you want me to read. I have even given links to the original books that are present on JI supporters' website.
عبدالمجید Dec 20, 2013 01:46pm
@Ehtesham: اگر مودودی صاحب کی تحاریر سے اقتباس لے کر لکھنے اور تاریخی طور پر درست باتوں کو آپ بھونڈا اور بودا سمجھتے ہیں تو آپ کو یہ حق حاصل ہے۔ براہ کرم آپ جس چیز کو بھونڈا اور بودا نہیں سمجھتے، اسکا بھی کچھ ذکر کر دیں۔
Shahzad Dec 20, 2013 02:32pm
@محسن عباس: Shia bhaai hate right wing parties in PAkistan but they whole heartedly support extreme right wing parties of Khoemini in Iran...REASON NO. 1 Because right wing politics will not result in a Shia Govt in Pak but it gives a Shia rule in Iran.. Hahahaha
Numair Dec 20, 2013 08:25pm
Totally ignorant. Criticism for criticism. Doesn't even know about history. Example of JUHALA
Dr Shoaib Dec 20, 2013 08:55pm
Assalam-u-alaikum! I think the author of this article is himself not only ignorant of Islam but also has personal issues with JI. The essay is full of prejudice and is only meant to pacify the emotions of the author himself.
habib Dec 21, 2013 01:10am
Bhai tera ilaaj mumkin nahi... kehna kia chahta hai samjh se bahar hai ... tasub ki aenaq laga k mutala kia hai logo se darkuast hai isko parh kar aur comment kar k waqt zaya na karien
Muhammad Salamat Ullah Dec 21, 2013 01:35am
Totally misunderstood concept. Only criticism extracting lines out of their context. Only those people might be satisfied who are totally ignorant of ISALM and it's universality. Islam is a complete code of life.... it can never be confined to Masjids only. It encompasses every walk of life- from politics to religion, economy to society. The writer was supposed to address people without hinting towards religion at all, in that way some meaning could have been perceived- by looking at it through the prism of so called Enlightened,Moderation- devoid of Islam.
Xanzay Dec 22, 2013 12:15am
@Muhammad Salamat Ullah: and that's why our life is a living hell now.
Xanzay Dec 22, 2013 12:25am
please correct, this is not jamat e islami but jamat e fasadi.
یمین الاسلام زبیری Dec 22, 2013 02:12am
عابد صاحب، بہت اچھا مضمون ہے۔ جماعت اسلامی والے اسے اسلام کے خلاف سمجھ رہے ہیں، کیونکہ ان کے نزدیک مودودی کا اسلام ہی اسلام ہے۔ بات یہ ہے کہ اگر صرف کسی ایک طبقے کے لیے جماعت بنائی جائے گی تو وہ اسی طبقے والوں کا خیال کرے گی، مثلا اگر کھلونے والے اپنی ایک جماعت بنائیں گے تو وہ صرف ان کے مفادات کا خیال کرے گی۔ یہی حال مذہبی جماعتوں کا ہے، یہ صرف اپنے مسلک والوں کے لیے مراعات کا خیال کرتی ہیں۔ مچھے اس میں کوئی قباحت نظر نہیں آتی سوائے اس کے کہ یہ جھوٹ بولتی ہیں کہ یہ پورے ملک کے عوام کی خادم ہیں۔ حقیقت میں پورے پاکستان کے مسلمانوں کی نمائندہ جماعت کے نام میں اسلام کا نام ائے گا ہی نہیں، اور اس کے کرتا دھرتا مسلمان ہوں گے۔ یہ کرتا دھرتا سڑک کے قوانین، عمارات کے لیے قوانین اور کھانے پینے کی اشیا کے بنانے کی جگہون کے قوانین پر غور کریں گے، ساتھ ساتھ احترام رمضان جہسے قونیں پر بھی۔ یہ ہر مسلک والے کے لیے کھلے دل سے کام کریں گے، مسلک کیا غیر مذہب والوں کے کام بھی دل سے کریں گے۔ ان کا منشا مسلمانوں کی خدمت ہوگا نہ کہ کسی مسلک والوں کی۔ پس اگر لوگ مذہبی جماعتوں کو منتخب نہیں کرتے تو کچھ غلط نہیں کرتے۔
گل خان Dec 22, 2013 03:11am
سیکولر حکمرانی نے ہمارا سکون چھین لیا ہے اور لبرل جمہوریت نے مغربی اقوام کا سکون غارت کیا ہے اور میرے مطالعے کے مطابق ان کی حکمرانی کا دور گذر گيا ہے جبکہ آپ سیکولرزم کے زوال کے عین وقت پر سیکولرزم کے دفاع اور مذہب کی مخالفت کے لئے قلم کی شمشیر لے میدان میں آئے ہیں۔ جس مذہب کے خلاف سیکولرزم آیا تھا وہ اسلام نہیں تھا بلکہ وہ عیسائیت کا مذہب تھا جس کو یورپیوں اور پھر امریکیوں نے گرجاگھروں میں قید کرلیا گوکہ حال ہی میں اسی مذہب کی طرف مراجعت بھی اسی مغرب میں نظر آرہا ہے۔ بہرحال مغرب نواز ذہنوں نے مذہب ک مغربی مخالفت کو مذہب اسلام تک عمومیت دے دی جو کہ سراسر ظلم اور مغالطہ پروری ہے؛ تاہم وہ زمانہ گذر گیا ہے اور آپ بڑے دیر سے قلم اٹھا چکے ہیں یقینی امر ہے کہ کہ مذہب اور دین کو اگر کسی خاص فرد یا جماعت کی آنکھ سے دیکھا جائے تو اس میں خامیاں ضرور نظر آئیں گی کیونکہ وہ قرآنی اور نبوی اسلام نہیں ہے بلکہ وہ جماعتی یا فردی اسلام ہے مثال کے طور پر مودودی کا اسلام، یا اسلام سے مودودی کا تصور۔ رسول اللہ نے مدینہ میں حکومت تشکیل دی اور سیاست کی اور آپ کے بعد اصحاب نے بھی حکومت کی اور جب علمانی لوگ آئے تو انھوں نے حکومت کو سیاسی اور غیر دینی بنا دیا اور آپ بھی آج ان ہی کی بات کررہے ہیں اور مدنی حکومت کو بھول رہے ہیں۔ اسلام کا کوئی قصور نہیں ہے اگر ایک شخص کم سی بضاعت علی کے ساتھ میدان سیاست میں آئے۔ اگر کوئی پورا
گل خان Dec 22, 2013 03:19am
@rabnawaz: جو علماء کہلوا کر فتوے دے کر انسانیت کو قتل کروا رہے ہیں وہ بھی سیکولر کے پرچارک مغربی نظامات کے ایجنٹ ہیں ورنہ علماء بحث و مناظرہ تو کرتے ہیں قتل نہ کرتے ہیں نہ کرواتے ہیں۔ اور جو کرتے ہیں وہ جہلاء اور مغرب کے چیلے ہیں۔
گل خان Dec 22, 2013 03:26am
کیا آپ چاہتے کہ مسلمان عیسائیوں کا نظام اپنائیں؟ سیکولرزم یا لبرل جمہوریت عیسائیوں اور یہودیوں کا دین ہے آپ مسلمانوں سے کیا توقع رکھتے ہیں کہ وہ بھی اسی دین کو قبول کریں؟ میرے خیال میں اگر آپ کچھ مزید تیز زبان استعمال کریں تو ایک فائدہ آپ کو ضرور ملے گا "امریکہ" یا پھر کم از کم "شینگن ممالک" کا ویزا! am I wrong?
Ahmed Dec 22, 2013 10:59am
I do not know his biography, but the first King Faisal International Prize was awarded to him in the year 1979 for his service to Islam, that's all I know. What is this prize and how he got that, please do not go into this discussion. Thanks and with all due respect, I am interested in reading your understanding about him in your remaining future columns.