ہاؤ ٹو گیٹ فلدی رچھ ان رائزنگ ایشیا -- محسن حامد:

اپنی مدد آپ کے اصول، کسی دوسرے شخص کی داستان اور ایک بے نام مرکزی کردار پر مبنی محسن حامد کی 'ہاؤ ٹو گیٹ فلدی رچھ ان رائزنگ ایشیا' (How To Get Filthy Rich In Rising Asia ) ایک دلچسپ کتاب ہے، یہ کہانی ہے ایک دور افتادہ گاؤں کے باورچی کی جو شہر پہنچتا ہے اور وہاں ایک لڑکی کی محبت میں گرفتار ہو جاتا ہے اور ساتھ ساتھ ایک انڈسٹری کھڑی کر لیتا ہے- اور اس طرح وہ ابھرتے ہوۓ ایشیا کا امیر ترین شخص بن جاتا ہے-

حالانکہ کئی مقامات پر اس کہانی کا پلاٹ غیر یقینی ہے لیکن پھر بھی کتاب پڑھنے کے دوران آپ کو بوریت کا احساس نہیں ہوگا- تاہم، کہانی کی رفتار تھوڑی آہستہ ہونی چاہیے تھی، کیونکہ مرکزی کردار کی پوری زندگی اور اس کے اہم واقعات محض چند صفحوں پر مشتمل تھے، جس سے پڑھنے والے کے دل میں تشنگی سی رہ جاتی ہے-

تحریر سے مصنف کی مشاقی ظاہر ہے، حامد نے ہیرو کی پوری زندگی بیان کرنے کے دوران کہیں بھی تسلسل کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا-

مذکورہ کتاب، سنہ دو ہزار تیرا میں پاکستان کی سب سے زیادہ پسند کی جانے والی کتابوں میں سے ایک ہے، اور اس نے اپنے قارئین کو مایوس نہیں کیا-


دی بلائنڈ مینز گارڈن - ندیم اسلم:

9/11 کے پس منظر میں لکھی گئی ندیم اسلم کی حالیہ پیشکش 'دی بلائنڈ مینس گارڈن' (The Blind Man 's Garden )، دو پاکستانیوں کی کہانی ہے جو چھپ کر افغانستان میں داخل ہو جاتے ہیں- جیو، اپنے منہہ بولے بھائی میکال (جو ایک ہتھیار کی دکان پر ملازم ہے) کے ساتھ 'دہشتگردی کے خلاف' جنگ میں ہونے والے جانی نقصانات کے لئے اپنی خدمات کی پیشکش کرتا ہے- انہیں دھوکہ دے کر طالبان کے ہاتھوں فروخت کر دیا جاتا ہے-

خطرناک صورتحال کے بیچ میں کچھ درست کرنے کی جدوجہد ہی ندیم اسلم کی اس کہانی کا مرکزی پلاٹ ہے- اور اگر کہیں پر کہانی تھوڑا ڈگمگا بھی جاتی ہے تو اسلم کی تحریری مہارت اسے بچا لیتی ہے- حقیقت تو یہ ہے کہ کسی حد تک ان کی تحریری مہارت نے کتاب میں موجود کسی قسم کی کمی کو پورا کر دیا ہے- جیسا کہ طالبان کے ہاتھوں عام لوگوں کو جس طرح کے سنگین اور خوفناک مظالم کا سامنا رہا اسکی تفصیلات- یہ ایک ایسے مصنف ہیں جو اپنے کام سے بخوبی واقف ہیں- یہ بات ناقابل یقین ہے کہ انہوں نے پاکستان سے برطانیہ ہجرت کے بعد خود انگلش لکھنی سیکھی- انکی تحریر کی طاقت دیرپا اور نہ بھولنے والی ہے-


شیڈو آف دی کریسنٹ مون -- فاطمہ بھٹو

آپ کو پاکستان کے سب سے غیر مستحکم علاقے وزیرستان پر ایک فکشنل تحریر روز روز پڑھنے کو نہیں ملتی، وہ علاقہ جہاں ڈرون حملوں اور عسکریت پسندوں کی وجہ سے رسائی ناممکن ہے- جیسا کے وزیرستان اپنے پرمصائب حالات کے با عث بد نام ہے، یہی وجہ ہے کہ قاری فاطمہ بھٹو کی یہ تازہ ترین تصنیف لینے پر مجبور ہو جاتا ہے-

اس کہانی کا دورانیہ تین گھنٹوں پر مشتمل ہے جس میں تین بھائی اور انکی ایک قریبی رشتہ دار عورت، سیکورٹی کی خاطر مختلف مسجدوں میں جانے کا فیصلہ کرتے ہیں-

کہانی جیسے جیسے آگے بڑھتی ہے، اس کے کرداروں کو دہشتگردی اور فرقہ واریت کی صورتحال کے دوران درپیش آنے والے مسائل سے نمٹنا پڑتا ہے- یہ ایک دلچسپ کتاب ہے لیکن بعض جگہوں پر یہ توازن قائم رکھنے میں ناکام رہی ہے کیونکہ اس میں انتہائی کم وقت میں بہت سی چیزیں بتانے کی کوشش کی گئی ہے-


ہاؤ اٹ ہپپنڈ -- شزف فاطمہ حیدر

شزف فاطمہ حیدر کا پہلا ناول 'ہاؤ اٹ ہپپنڈ '(How It Happened ) محبت، ارینج میرج، خاندانی جھگڑوں اور رقابتوں کی بہترین کہانی ہے- اس کہانی کی داستان گو پندرہ سالہ صالحہ بندیان ہے جو قارئین کو اپنے بڑے بھائی ہارون اور بہن زیبا کی شادی کا احوال بیان کر رہی ہے- مسئلہ یہ ہے کہ بندیان خاندان شیعہ ہیں اور ان کے یہاں شادیاں صرف سید شیعہ خاندان میں ہی ہو سکتی ہے-

بہت سے نقادوں نے حیدر کے ناول کو جین اوسٹن کی 'پرائڈ اینڈ پریجوڈس ' سے مماثل قرار دیا ہے، اس کے کرداروں سے لے کر دلچسپ تحریر تک، جیسے 'دادی' کا کردار آسٹن کی مسز بینٹ سے ملتا جلتا ہے- تاہم، کہانی ہمارے کلچر سے مطابقت رکھتی ہے، اور اسی لئے پڑھنے والوں کو پسند آۓ گی-


آئی ایم ملالئے - دی گرل ہو سٹود اپ فار ایجوکیشن اینڈ واز شاٹ بائی طالبان -- ملالئے یوسفزئی اور کرسٹینا لیمب:

سنہ دو ہزار تیرہ کی سب سے زیادہ متوقع کتابوں میں سے ایک ملالئے یوسفزئی کی سوانح 'آئی ایم ملالئے' جو انہوں نے برٹش صحافی کرسٹینا لیمب کے ساتھ مل کر لکھی ہے- کتاب کا آغاز بارہ اکتوبر سنہ دو ہزار بارہ کے اس منحوس واقعہ سے ہوا جب ملالئے کو لڑکیوں کی تعلیم کے لئے آواز اٹھانے پر سر میں گولی مار دی گئی تھی- پھر اس کے بعد کہانی ماضی کی طرف مڑ جاتی ہے جہاں ہم اس نوعمر لڑکی کے بارے میں جان پاتے ہیں جس نے تعلیم کی حمایت کے لئے آواز اٹھائی اور پاکستان اور بیرون ملک لوگوں کے دل جیت لئے-

تاہم، یہ بھی یاد رکھیں کہ ملک میں بہت سوں نے اس پر تنقید بھی کی ہے- جس کی وجہ سے اس کتاب پر پاکستان کے پرائیویٹ اسکولوں میں پابندی عائد کر دی گئی-

تبصرے (0) بند ہیں