یہ 26۔ اکتوبر 2013 کا دن تھا جب اک مدت بعد اس سے رابطہ ہوا۔ یہ میری سالگرہ کا دن تھا اور مصدق سانول سے اک عرصہ بعد ہونے والا رابطہ بڑا بھلا لگا۔ یہ جان کر بھی خوشی ہوئی کہ وہ "ڈان ڈاٹ کام" کا ایڈیٹر ہے۔

واشنگٹن ڈی سی سے چلائے جانے والے پنجابی بلاگ "وچار ڈاٹ کام" پر میرے مضمون اس نے دیکھ رکھے تھے۔ ہچکچاتے ہوئے لکھا کہ اُردو میں لکھنے کے بارے کیا خیال ہے؟ اصل میں ہم ان دنوں کے یار تھے جب ہمارا اوڑھنا بچھونا پنجابی ہی تھا۔ پھر خود ہی اس نے میرا بلاگ پنجاب پنچ (Punjab Punch) پڑھ کر اندازہ لگا لیا کہ میں پنجابی کے ساتھ ساتھ اُردو اور انگریزی میں بھی لکھ رہا ہوں۔ بس پھر اس کے وسیلہ سے "ڈان ڈاٹ کام" کے "قلندر" سے رابطہ ہوا۔ یوں مجھے معلوم نہ تھا وہ جاتے جاتے بہت سے کام جلدی جلدی نمٹا رہا تھا۔

مصدق سانول، محی الدین، پرویز، امتیاز بلوچ، مہہ رخ، وسیم، ہما صدر، ندیم، رخسانہ، عدنان قادر یہ سب مشہور پنجابی ڈرامہ گروپ "پنجاب لوک رہس" کے قافلہ کے وہ شہباز تھے جن کا گرو "لخت پاشا" (پاشی) تھا۔

یہ سب کسی زمانے میں گرو سے حد سے زیادہ متاثر تھے۔ کوئی ملتان سے آیا تھا تو کوئی ڈیرہ غازی خان سے، کسی کا تعلق لائل پور (فیصل آباد) سے تھا تو کوئی لاہور سے۔ کچھ انجینئرنگ یونیورسٹی میں پڑھ رہے تھے تو کوئی این سی اے کا طالب علم تھا۔ یہ 1980 کی دہائی کا زمانہ تھا کہ ہم سب کو ضیاالحق دور ہی میں "جاگ" لگی تھی۔

ہم دوست "پنجاب لوک لہر" چلاتے تھے تو سانول وغیرہ پنجاب لوک رہس کہ پنجاب، پنجابی اور ترقی پسندی سب میں قدر مشترک تھی۔ غالباً 1990 کی دہائی کے پہلے سالوں میں ہم نے مشہور انقلابی بھگت سنگھ کا دن منانے کا فیصلہ کیا۔

فیصل آباد سے مشہور و باکمال پنجابی لکھاری افضل احسن رندھاوا کو صدارت کے لیے بلایا تو کاشف بخاری نے سٹیج سنبھالا۔ مقام تھا شیزان ہوٹل لاہور جو مال روڈ پر واقع دیال سنگھ مینشن میں ہوتا تھا۔ آج سے چند برس قبل اس ہوٹل کو جلادیا گیا تھا مگر اس دور میں یہ سیاسی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔

بس یہیں مصدق سانول نے 9 ویں سکھ گرو "تیغ بہادر" کے کلام سے تقریب کا آغاز کیا۔ اس کی آواز کے جادو نے جو سحر کیا وہ آج بھی تر و تازہ ہے۔ وہ یوں تو دھیمے لہجے میں بات کرتا تھا مگر بھگت سنگھ کی برسی کے موقعہ پر وہ گرو تیغ بہادر کا کلام ایسی بلند آواز میں گا رہا تھا کہ اس کی آواز کے جادو کو عالم لوہار بھی سنتا تو جھوم اٹھتا۔ موسیقی اس کے انگ انگ میں یوں بسی تھی کہ اس کی نحیف چال میں بھی سرتال کا سحر جھلکتا تھا۔ آج جب سانول کے مرنے کی خبر پڑھی تو اس دشت تنہائی میں اس کی آواز کا سایہ کچھ اور بڑھ گیا۔

مجھے یاد ہے جب عدنان قادر (حالیہ مقیم برطانیہ، لندن سکول آف اکنامکس) مقابلہ کے امتحان میں اول آنے کے بعد کراچی میں بطور ڈی ایم جی افسر تعینات تھا تو سانول سے دوبارہ ملاقات ہوئی۔

میں اپنے چھوٹے سے اشاعتی ادارے "گوتم پبلشرز" کی طرف سے کتابوں کی ترسیل کے لیے براستہ سکھر و حیدرآباد، کراچی آیا تھا۔ غالباً کلفٹن کے پاس بلند و بانگ فلیٹوں میں جہاں عدنان قادر رہتا تھا وہیں سانول کا فلیٹ بھی تھا۔ بس جو ملے تو یہ احساس بھی نہ ہوا کہ ہم اتنی دیر بعد ملے ہیں۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ دیوانگی اور قلندری تو زمان و مکاں یعنی ٹائم اینڈ سپیس سے ماوراء ہوتی ہے۔

اب وہ بہت سے دریا اور ندیاں عبور کر چکا تھا۔ کیونکہ وہ حلیم تھا اس لیے ہر طرح کے پانیوں میں تیرنا اسے آتا تھا۔ بیماری کا ذکر تو وہ کرتا ہی کہاں تھا کہ قلندر سختیوں کو مواقع میں بدلنے کا گُر سیکھ کر پیدا ہوتے ہیں۔ البتہ عدنان سے پتہ چلتا رہا کہ وہ مسلسل بیمار ہے۔ گاہے بگاہے خبریں ملتیں رہیں مگر ملاقات میں پھر گیپ آگیا۔

ابھی پچھلے دنوں غالباً نومبر میں وہ کسی مسودے کی بات بھی کر رہا تھا۔ وہ اسے چھپوانے کے حوالے سے استفسار کرتا رہا مگر مسودہ بھیجنے کا اسے وقت نہیں ملا۔ فیکا (کارٹونسٹ ڈان) تو اس کے شہر (ملتان) کا ہے اور آزاد قلمدار اس کا یار، شاید وہ اس مسودے کے حوالہ سے معلومات حاصل کر سکیں۔

مصدق سانول بظاہر ہم سے جدا ہو گیا ہے مگر اس کے پھیلے ہوے کام کی گونج جرس کی مانند برابر آتی رہے گی کہ بقول بابا بلھے شاہ؛

بلھے شاہ، اساں مرنا نا ہیں

گور پیا کوئی ہور

تبصرے (0) بند ہیں