فرقہ پرست کون؟

اپ ڈیٹ 09 دسمبر 2015

پچھلے کچھ سالوں سے فرقہ واریت کے موضوع پر معتبر چینلوں پر جو بحثیں ہوئیں انہوں نے مجبور کر دیا کہ آج ہمیں ان حساس اور انتہای اہم معاملات پر بحثیں کرنے سے قبل کچھ بنیادی باتوں پر اتفاق کرنا ضروری ہے۔

جیسے سیاست میں بنیادی اصول یہ ہے کہ آپ پارلیمان کی بالادستی کو تسلیم کرتے ہیں یا نہیں ایسے ہی مذاہب کے بارے میں بات کرتے ہوئے بنیادی اصول یہی ہے کہ آپ رواداری، بردباری اور اعتدال پسندی کو عملاً تسلیم کرتے ہیں یا نہیں۔

اگر آپ اس اصول کو مدنظر نہیں رکھتے تو پھر آپ فرقہ واریت کی مخالفت کرتے ہوے فرقہ وارانہ استعارے ہی استعمال کرتے ہیں۔ یوں فرقہ وارانہ ماحول بدستور برقرار رہتا ہے۔

اس تحریر کے ذریعہ یہ کوشش کی گئی ہے کہ 21ویں صدی میں ہم فرقہ پرستی کے جنجال سے کیسے نکل سکتے ہیں۔ حیرت تو ان میڈیا دانشوروں پر ہے جو اکثر فرقہ واریت کی مخالفت بھی فرقہ وارانہ استعاروں سے کرتے ہیں۔

دنیا میں کوئی ایک بھی ایسا نظریہ یا مذہب نہیں جس کے ماننے والوں میں سو فی صد ہم آہنگی ہو کہ ہر مذہب یا نظریے میں چھوٹے بڑے اختلافات موجود ہوتے ہیں۔

تنوع، رنگا رنگی یعنی diversity تو انسانی زندگی کا سب سے خوبصورت پہلو ہے جبکہ یکسانیت یعنی uniformity کسی بھی لحاظ سے مثبت نہیں۔ اختلافات کی موجودگی بذات خود منفی نہیں اور اختلاف رکھنے والے اپنا اپنا الگ مکتبہ فکر یعنی School of Thought بنا لیتے ہیں۔

یہودیت، مسیحیت، اسلام، بدھ مت، ہندومت، سکھ مت ہی نہیں بلکہ سوشلسٹوں، قوم پرستوں اور لبرلوں میں بھی لاتعداد مکتبہ فکر ہیں۔ اختلافات کے عمل کو "چھری" سے تشبیہ دی جا سکتی ہے کہ آپ اختلافی نقطہ نظر کی بدولت نئی راہیں بھی ڈھونڈھ سکتے ہیں اور انہی اختلافات کو منفی رنگ دے کر دنگے فساد کو بھی بڑھاوا دے سکتے ہیں۔

ہر مکتبہ فکر خود کو "حق" اور دوسروں کو "باطل" قرار دیتا ہے۔ اسی طرح ہر مکتبہ فکر میں اعتدال پسند اور انتہا پسند پیروکار ہوتے ہیں۔

اعتدال پسند وہ لوگ ہوتے ہیں جو ہر دم رواداری اور بردباری کو اولیت دیتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ وہ اختلافات کو گلدستے میں لگے مختلف پھولوں سے تشبیہ دیتے ہیں۔ ان کا استدلال یہ ہوتا ہے کہ جیسے گلدستہ میں مختلف پھول باہم مل کر اک ملی جلی خوشبو سے فضا معطر کرتے ہیں، ویسے ہی کسی بھی فکر، لہر یا مذہب میں موجود مختلف خیالات اس فکر ہی کو جلا بخشتے ہیں۔ اسی لیے اعتدال پسند تو معاشرے کو گلدستہ کی خوشبو ہی سے معطر کرنے پر یقین کامل رکھتے ہیں۔ وہ اختلافی امور پر عام بحث نہیں کرتے کہ یہی صوفیا کا راستہ تھا۔

اس کے برعکس انتہاپسند ہر وقت اختلاف کو سامنے رکھتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہر کوئی انہی کے مکتبہ فکر کو معتبر سمجھے۔ یہی نہیں بلکہ انتہاپسند اپنے نقطہ نظر کو دوسروں پر مسلط کرنا بھی جائز سمجھتے ہیں۔ وہ اگر اقلیت میں ہوں یا ان کے پاس نسبتاً کم طاقت ہو تو وہ اپنی مظلومیت کی رام کہانی سناتے ہیں اور اگر وہ اکثریت میں ہوں یا ان کے پاس اقتدار کی طاقت آ جائےتو وہ ہر مرد و عورت پر اپنی فقہہ تھوپنے کو ضروری گردانتے ہیں۔

یہ انتہا پسند ہی ہوتے ہیں جو کسی بھی مکتبہ فکر کو "فرقہ" میں ڈھال دیتے ہیں۔ یوں جس نقطہ نظر پر پہرہ دینے کے لیے وہ مکتبہ فکر بنایا گیا ہوتا ہے اس کا اصل مقصد تو کہیں کھو جاتا ہے اور فرقہ پرستی ہی کو عروج حاصل ہوتا ہے۔

انتہا پسند درحقیقت، مخالف یا متحارب نقطہ نظر کو برداشت نہیں کر سکتے، اسی لیے وہ اسے نیست و نابود کرنا اپنا فرض گردانتے ہیں۔ یوں یاد رکھیں، ہر انتہا پسند فرقہ پرست ہوتا ہے اور ہر فرقہ پرست انتہا پسند۔ یہ لوگ رنگارنگی یعنی diversity کے خلاف ہوتے ہیں اور اختلافات کو برداشت کرنے کی بجائے طاقت سے مٹانا چاہتے ہیں۔

اب ذرا ان باتوں کی روشنی میں اپنے خطے، اپنے مکتبہ فکر اور اپنے پنڈ، محلہ، خاندان، تعلیمی ادارے یا دفتر کے ماحول کا جائزہ لیں تو حقیقت حال آپ پر خود بخود واضح ہو جائے گی۔ آپ کو خود بخود معلوم ہوتا جائے گا کہ کہاں کہاں اعتدال پسند ہیں اور وہ کون ہیں جو انتہا پسندیوں اور فرقہ پرستیوں کے پرستار ہیں۔

1970 کی دہائی سے ہمارے ہاں ہر مکتبہ فکر میں انتہاپسندوں اور فرقہ پرستوں کا زور بڑھ چکا ہے جبکہ اعتدال پسند پیچھے کی صفوں میں دھکیل دیے گئے ہیں۔

ان انتہاپسندوں اور فرقہ پرستوں کو استعمال کرنے والے گروہ و طاقتیں بھی بہت سی ہیں۔ کیونکہ ان میں غصہ اور تعصب حد سے زیادہ ہوتا ہے اس لیے انہیں استعمال کرنا بھی قدرے آسان ہوتا ہے۔ 19ویں صدی سے استوار کیے گئے جدید ریاستی بندوبست یعنی وطنی ریاستوں کی دنیا میں تو انہیں استعمال کرنا اور بھی آسان ہو چکا ہے کہ اقتدار یا طاقت کی لڑائی میں اولیت نہ ہی فقہا کو حاصل ہوتی ہے نہ ہی نظریے کو بلکہ اصل مدعا یا مقصد اقتدار پر قبضے یا طاقت کا حصول ہی ہوتا ہے۔

جہاں فرقہ پرست و انتہا پسند خیالات ہوں گے وہیں ان کو اپنے مقاصدکے تحت استعمال کرنے والوں کو بھی کامیابی ملے گی۔ جہاں نصاب اور میڈیا میں فرقہ وارانہ استعارے استعمال کرنے کی آزادی ہو وہاں باہر والوں کی تو موجیں ہو جاتی ہیں۔

یاد رکھیں کہ جب سے دنیا بنی ہے اس میں اختلافات بدرجہ اتم موجود رہے ہیں۔ کون سا گھر یا خاندان ہے جس میں اختلاف نہ ہو؟ اصل مسئلہ اختلاف نہیں بلکہ "اختلافات کے ساتھ جینا" ہے۔

جنھیں اختلافات کے ساتھ جینے کا ہنر آتا ہے وہی اعتدال، رواداری اور بردباری کا رستہ اپناتے ہیں۔ کسی بھی معاشرے میں اختلافات کو یکسر ختم کرنا نہ تو ممکن ہے اور نہ ہی کوئی مثبت عمل البتہ یہ ممکن ہے کہ ہم سب اختلافات کے ساتھ جینا سیکھ جائیں۔ جو اختلافات کے ساتھ جینا نہیں جانتا وہی فرقہ پرست بھی ہے اور انتہا پسندیوں کا مبلغ بھی۔

جب 1920 میں عدم تعاون کی تحریک کو بڑھاوا دینے کے لیے تحریک خلافت کے رہنماؤں نے نومولود علیگڑھ یونیورسٹی میں چند طلباء کو ساتھ لے کر "جامعہ ملیہ" بنائی تھی تو مہاتما گاندھی نے اس مجوزہ یونیورسٹی کے لیے علامہ اقبال کو خط لکھ کر پہلا وائس چانسلر بننے کی دعوت دی تھی۔ زیرک اقبال نے مہاتما گاندھی کو جو جواب میں لکھا تھا اسے کراچی کے خرم علی شفیق نے علامہ پرلکھی جارہی 6 جلدوں پر مشتمل ضحیم سوانح کی تیسری جلد میں نقل کیا ہے۔ یہ کتابیں لاہور کی اقبال اکیڈیمی مسلسل چھاپ رہی ہے۔

جامعہ ملیہ بظاہر تو مسلمانوں کی قومی تعلیم کے لیے بنائی جارہی تھی مگر اقبال کا استدلال تھا کہ مسلمانوں کی تعلیم سے قبل تمام مسلم مکاتب فکر کے درمیان ہم آہنگی ہونا لازم ہے وگرنہ ایسی تعلیم سے فرقہ واریت پھوٹے گی۔

اقبال نے جس اندیشے کا اظہار کیا تھا وہ آج حقیقت بن چکا ہے۔ یہی استدلال انہوں نے خطبہ الہٰ آباد میں بھی دہرایا اور 11۔اگست 1947 کی تقریر میں بھی قائداعظم نے اسی سوچ کو اولیت دی تھی کہ اس میں رنگارنگی کو تسلیم کرنے اور رواداری کو اپنانے کا درس بدرجہ اتم موجود تھا۔

اب آپ سوچیں کہ ہم نے آج اس ملک میں فرقہ واریت اور انتہا پسندیوں کا خاتمہ کرنا ہے تو ہمیں اعتدال، رواداری اور معقولاتی (Rational) سلسلوں کو ہی آگے بڑھانا ہوگا۔

تبصرے (0) بند ہیں