جہادی خنّاس

اپ ڈیٹ 09 فروری 2014
السٹریشن -- خدا بخش ابڑو
السٹریشن -- خدا بخش ابڑو

ہمارا قومی بیانیہ (National Narrative) ایک سازش کے گرد گھومتا ہے اور وہ سازش ہے پاکستان کو توڑنے کی.

بنیادی طور پر یہ بیانیہ پہلے مسلم لیگ کی حمایت میں ایجاد کیا گیا۔ تقسیم ہند سے پہلے نعرہ تھا مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ۔ تقسیم کے بعد مسلم لیگ ریاست کی قومی جماعت قرار پائی جس نے مذہبی قوتوں کے سہارے اپنی سیاست کا آغاز کیا اور کسی بھی دوسری سیاسی جماعت کو ریاستی جبر کا سامنا کرپڑا۔

مسلم لیگ مخالف جماعتوں پر اسلام دشمن، غداری اور سیکورٹی رسک کے لیبل لگے۔ امن و جمہوریت کی بات کرنے والے غدار ٹھہرے۔ ویسے بھی مسلمان اور جمہوری مزاج دو متضاد چیزیں ہیں۔ آج قوم اسی مسلم لیگی سیاست کا خمیازہ بھگت رہی ہے۔

قیام پاکستان سے ہی ملک میں مذہبی منافقت کا آغاز ہوگیا تھا۔ ہندؤوں اور سکھوں کو قتل کرنے کے بعد اپنے تئیں ایک پاک ملک حاصل تو کرلیا گیا لیکن پاک ملک میں جلد ہی ہر فرقے کو اپنے علاوہ دوسرا کافر نظر آنا شروع ہوگیا۔ مسلم لیگ نے اقتدار پر قابض رہنے کے لئے ایک مخصوص مکتبہ فکر کی سرپرستی شروع کردی جو اپنے علاوہ تمام فرقوں کو کافر سمجھتا ہے۔

ویسے تو ہر اسلامی فرقہ اپنے علاوہ دوسرے کو کافر سمجھتا ہے لیکن جب کسی فرقے کو ریاستی سرپرستی حاصل ہوجائے تو اس کے نتائج انتہائی خوفناک ہوتے ہیں اور پاکستانی عوام اسی سرپرستی کے نتائج بھگت رہے ہیں۔

آنے والے سالوں میں کافر گری کے کاروبار میں کمی کی بجائے شدت سے اضافہ ہوا۔ 1947ء میں کشمیر کے جہاد سے لے کر2013ء تک ہمسایہ ممالک میں جارحیت کی نہ ختم ہونے والی داستانیں ہیں۔ لیکن ریاست کوئی سبق حاصل کرنے کی بجائے آج بھی اپنے ہمسائیوں کو فتح کرنے کے خواب دیکھ رہی ہے۔ باقاعدہ فوج کے ساتھ ساتھ ہم نے اس کے متوازی جہادی لشکر بھی تیار کر لیے ہیں۔ لشکر جھنگوی ہو یا لشکر طیبہ یہ آج کے البدر اور الشمس ہیں۔

پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہو گا جو اپنے قیام سے ہی 'نام نہاد خطرے' کا شکار ہوگیا۔ لہٰذا اسے بچانے کے لئے ریاست نے جہادی بیانیہ کو فروغ دیا۔ جنگجو ہیرو پروموٹ کئے۔ اس کی ابتداء نصاب سے ہوئی اور پھر نسیم جحازی اینڈ کمپنی نے اس بیانیے کو مضبو ط کیا۔

اس بیانیے کو مضبوط کرنے میں پہلے مسلم لیگ اور پھر ڈکٹیٹر شپ کا بھی اہم کردار ہے۔ جنرل ضیاء کے دور میں اسلام پسندوں کو میڈیا میں نہ صرف کھپایا گیا بلکہ ان کا جہادی بیانیہ عوا م پر مسلط کیا گیا۔

پاکستانیوں کے ساتھ دہرا ظلم ہوا ہے، ایک طرف نصاب میں جنگجو ہمارے ہیرو قرار پائے تو دوسری طرف اخبارات اور ٹی وی میں افغانستان کی پراکسی وار لڑنے والوں کو ہیرو بنایا گیا۔ سوات میں جب ملا فضل اللہ اپنے پیر جما رہا تھا، سی ڈیز کی دکانوں کو دھماکے سے اڑایا جارہا تھا تو ہمارے اینکر پرسن اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے گن گارہے تھے۔

اخبارات اور ٹی وی میں مجاہدین کو ہیرو بنایا گیا، جنہوں نے مخالفت کی انہیں جہادی پریس نے 'غدار' قرار دیا۔ آج ہم نیلسن منڈیلا کو تو یاد کر سکتے ہیں مگر جہادی پریس باچاخان، ابوالکلام آزاد اور مہاتما گاندھی کا نام نہیں لے سکتا۔ امن و جمہوریت کی بات کرنے والی ان شخصیات کی جدوجہد کی ہمارے جہادی بیانیے میں کوئی اہمیت نہیں۔ جو سیاسی جماعتیں جہادی بیانیہ کے خلاف جاتی ہیں ان کو بھی مسلسل طعن و تشنیع کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

جہادی بیانیہ جمہوریت کے بھی خلاف ہے۔ این آر او، میثاق جمہوریت کا ہی تسلسل تھا جو فروری 2006 میں بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے درمیان طے پایا تھا جس کے تحت ملک میں جمہوری عمل کو بحال کرنا اور ایک دوسرے پر سیاسی انتقام لینے کے لیے مختلف ادوار میں بنائے گئے مقدمات کا خاتمہ تھا۔

افسوس کہ مسلم لیگ نے بھی اس معاہدے سے روگردانی کرتے ہوئے این آر او کی مذمت کرکے ایک طرف جہادی قوتوں کی ہمددریاں حاصل کیں تو دوسری طرف سپریم کورٹ کے ذریعے حکومت کو گرانے میں اپنی بلا واسطہ کوششیں جاری رکھیں۔

این آر او واحد قانون تھا جس کے ذریعے نہ صرف پاکستان میں پہلی دفعہ پرامن انتقال اقتدار ممکن ہوا بلکہ ملک کو واپس جمہوریت کی پٹڑی پر ڈالا جا سکا۔ یہ این آر او ہی تھا جس کے تحت نوازشریف ملک واپس آئے اور سیاسی عمل میں حصہ لیا وگرنہ اس سے پہلے تو نام نہاد آزاد عدلیہ کے ہوتے ہوئے انہیں واپس سعودی عرب دھکیل دیا گیا تھا۔

یہ جہادی بیانیہ ہی ہے جس نے پچھلے پانچ سال تک این آر او کے خلاف ڈرامہ رچایا۔ چوروں اور ڈاکوؤں کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے کے مطالبے کیے اور گڈ گورننس کی بڑھکیں ماریں مگر آج مسلم لیگ نے اقتدار سنبھالنے کے بعد اپنے حواریوں کی لوٹ مار (کالا دھن) کو جائز قرار دے دیا تو کوئی احتجاج نہ ہوا جبکہ جہادی اسٹیبشلمنٹ اور اس کی پروردہ عدلیہ ابھی بھی جہادی بیانیے کی مخالف جماعتوں کو کرپشن کے شواہد نہ ہونے کے باوجود ان پر سے مقدمات ختم کرنے کو تیار نہیں۔

الیکٹرانک میڈیا میں دہشت گردوں کو اپنا نقطہ نظر بتانے کے نام پر ان کے خیالات باربار عوام کے کانوں میں انڈیلے جاتے ہیں۔ آج بھی لال ٹوپی اور کالی و سفید پگڑی والے ہمارے چینلز کی ریٹنگز بڑھاتے ہیں۔

شاید پاکستان واحد ملک ہو گا جہاں آزادی اظہار رائے کے نام پر دہشت گردوں کا نقطہ نظر باربار سنوایا جاتا ہے اور پھر ان کا سوفٹ امیج پروموٹ کیا جاتا ہے۔ ابھی کوئی ایک دو ماہ قبل جیو ٹی وی نے ایک دن جیو کے ساتھ لشکر طیبہ کا (حافظ سعید جسے پوری دنیا دہشت گرد قرار دے چکی ہے کا) سوفٹ امیج پرموٹ کیا اور اس پروگرام کے میزبان بھی آزادی صحافت پر لیکچر دیتے ہیں۔

جہادی بیانیے کو ختم کرنے میں جمہوریت کا کردار بہت اہم ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں الیکٹرانک میڈیا اور اس کے پروردہ دانشوروں کو بھی یہ بات سمجھانی ہوگی کہ پاکستان میں امن اس وقت تک قائم نہیں ہوسکتا جب تک سرکاری طور پر مذہب کو سیاست سے الگ نہیں کیا جاتا۔ ویسے ان لوگوں سے یہ توقع کرنا بھی بھینس کے آگے بین بجانے والا معاملہ ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (9) بند ہیں

umar Feb 09, 2014 05:36pm
intahai stupid article ha na to writer ko pak hiistry ka pata ha or na e ground realitiz?kisi chanal nay aj tak hafiz saeed , masood azhar ko hero ne bnaya or in k jaisay log har riasat ma hoty hn idia ma shev sina, amrica ma b black water , free mesn, n many more is tara ki tanzeemain kam kr rhi hn... 2ndly inho nay kha democracy muslim mazaj se mutasadam ha totally rubish ap ya kah skty hain kah sub continent ma litracy rate intahai low hont ki waja se democracy puri tara work ne kr rhi q k turkey, iran , ki examplz hmaray samnay hn.. democracy aik slow process ha is ma tim lagta ha jaisay jaisay awareness barhti jy g shafaiat ati jaay g,,,,
umar Feb 09, 2014 05:37pm
intahai stupid article ha na to writer ko pak hiistry ka pata ha or na e ground realitiz?kisi chanal nay aj tak hafiz saeed , masood azhar ko hero ne bnaya or in k jaisay log har riasat ma hoty hn idia ma shev sina, amrica ma b black water , free mesn, n many more is tara ki tanzeemain kam kr rhi hn... 2ndly inho nay kha democracy muslim mazaj se mutasadam ha totally rubish ap ya kah skty hain kah sub continent ma litracy rate intahai low hont ki waja se democracy puri tara work ne kr rhi q k turkey, iran , ki examplz hmaray samnay hn.. democracy aik slow process ha is ma tim lagta ha js
hafiz ur rehman rounyal Feb 09, 2014 10:06pm
اتنی جراتمندانہ اظہار رائے کا احترام کرتے ہیں. اور پھر کچھ کہنے کو کیا ره جاتا ہے. ...واہ
عبدالمنان Feb 09, 2014 10:35pm
چلو مان لیا جائے کہ پاکستان دو قومی نظریہ کی بنیاد پر نہیں بنا لیکن بعد میں 73 کے آئین میں ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان چنا گیا جب آئین کے تحت اسلامی جمہوریہ ہے تو پھر سیاست اور مذہب علیحدہ کیوں؟؟ اگر آپ یہ نہیں مانتے تو آپ آئین سے انحراف کر رہے ہیں طالبان بھی آئین سے انحراف کرتے آپ بھی کرتے تو فرق کیا وہ مذہبی انتہا پسند آپ لبرل انتہا پسند دوسری بات آزادی رائے کا ہر ایک شخص کو حق حاصل وہ کیسا میڈیا جس میں مذہبی لوگوں کی مخالفت کرنے والو کو تو کھلی چھٹی ہو لیکن اس کو جواب دینے کیلیئے بولے تو مذہبی لوگوں کو بین کیا جائے...ہمارے لبرل شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ہیں امریکہ جرمنی برطانیہ میں تو کبھی مذہبی لوگوں کو بین کرنے کی باتیں نہیں ہوتی لیکن پاکستان میں زور شور سے ایک ہی بین بجائی جاتی ہے انڈیا ایک سیکولر ملک ہے وہاں شیوسینا کو کھلی چھٹی پر کو لبرل نہیں بولتا کیا وہ مذہبی جماعت نہیں
Ashiq Hussain Feb 10, 2014 03:10pm
شعیب عادل نے انتہا ئی خوب صورتی سے ہماری ریاست کی سوچ کو بیان کردیا ہے۔ اسے کہتے ہیں دریا کو کوزے میں بند کرنا۔
Naeem Feb 10, 2014 05:46pm
کالم میں بس بھڑاس نکالنے کی کوشش کی گئی ہے۔ قیام پاکستان کے وقت کتنے مسلمان تہہ تیغ کیے گئے اس کا کوئی تذکرہ نہیں دیگر ممالک کی پاکستان کے خلاف جارحیت کو بیان کیوں نہیں کیاگیا جس کے ردعمل میں جہادیوں کوموقع ملا ہے۔ ہندومت، عیسائیت اور دیگر مذاہب کے فرقوں میں بھی عدم برداشت اور دوسروں کی نفی پائی جاتی ہے۔ صرف اسلام کا خاص طور پر تذکرہ کیوں کیا جا رہا ہے، باقی مذاہب کا کیوں نہیں۔ پاکستان کا قوم مذہب اسلام ہے یہاں اسلام کی تعلیمات اور شخصیات کا پرچار نہیں ہو گا تو اور کیا ہو گا۔ دیگر ممالک میں بھی اپنے قومی مذہب کا ہی پرچار کیا جاتا ہے۔ اس کے متعلق تو کوئی تنقید نہیںہوتی۔ آخر اسلام ہی سے تکلیف کیوں ہے۔ پاکستان میں تمام مذاہب کو جتنی آزادی اور تحفظ حاصل ہے اتنا کسی اور ملک میں ہے تو شعیب عادل صاحب بیان کر دیں۔ کالم نگار سے گزارش ہے کہ پہلے وہ پاکستان کی متحارب تنظیموں، جہاد اور جہاد کے مقاصد، جہاد اور فساد میں فرق کا اچھی طرح مطالعہ کریں۔پھر لکھیں۔ دوسری صورت میں ان کی تحریر صرف چوں چوں کا مربہ ہی لگی گی اور کچھ نہیں
Ahmad Hasnin Feb 11, 2014 12:31pm
شعیب عادل صاحب برائے مہربانی پہلے جہاد اور فساد میں فرق سمجھیں پھر اس پر قلم آزمائی کریں۔ دوسری بات یہ کہ آپ نے جولکھی ہے کہ مسلمانوں نے سکھوں اور ہندؤں کا قتل عام کر کے یہ ملک حاصل ہے ۔ آپکو شرم آنی چاہیے یہ بات کہتے ہوئے۔ اس ملک کا کھاتے ہو اور اس ملک کو بھونکتے ہو۔ بندہ جس پلیٹ میں چھید کرے پھر اس میں کھائے ۔ کتنی شرم کی بات ہے؟ یہ ملک پیارا پاکستان ماؤں کی گود اجڑنے سے بنا ہے ، دلہنوں کے ساگ اجڑا، بچے یتیم ہوئے ، ہماری مسلمان عورتوں کی عصمت دری ہوئی ، نہ جانے کیا کیا ہمارے بزرگوں نے اس ملک کی خاطر لٹایا ، پھر جاکر یہ ملک ہمیں ملا اور آپ کہہ رہےہیں کہ مسلمان قاتل ہیں۔ کچھ شرم کرو، اپنے نام کے آخری لاحقے کا کچھ خیال کرو۔
Humera Feb 12, 2014 04:24pm
شعیب صآحب کی بیوقوفی دیکھو مسلم لیگ کے رہنما نے جس اخبار کا افتتاح کیا اسی کے پلیٹ فارم سے زہر اگل رہے ہیں .ان جیسوں کی سوچ ہی ہمیں دنیا اور اآخرت میں رسوا کرے گی.
Azeem hassan Feb 14, 2014 01:15am
@عبدالمنان برادر کس نے کہا تھاجزیہ دو یا جنگ کےلیے تیار ہو جاو جنگ جمل یا صفین کس نے لڑی تھی آپ صلعم کی وفات پاک پر خلیفہ بننے کے لیے کن کے درمیان تلواریں ںکلی تھیں واقعہ کربلا کن کے درمیان ہوا تھا حضرت فاطمہ کیسے شیہد ہوئی تھیں برادر یہ وہ تاریخ ہے جو میں نے پڑھی ہے جو ہماری آپ کی سب سے مستند کتاب تا ریخ طبری اور تاریخ ابن کثیر میں لکھا ہے جسے تاریخ کا ہرطا لب علم پڑھ سکتا ہے آپ اس پر کیوں چیں بچیں ہو رہے ہیں جناب