ذرا حساب کیجیے

05 مارچ 2014
مذاکراتی عمل میں حملے رک نہ سکے، بعد از معاہدہ  ٹی ٹی پی حملے بند کراسکے گی؟ فائل فوٹو۔۔۔
مذاکراتی عمل میں حملے رک نہ سکے، بعد از معاہدہ ٹی ٹی پی حملے بند کراسکے گی؟ فائل فوٹو۔۔۔

مذاکراتی عمل کے دوران اگر وہ پُرتشدد کارروائیاں نہ ہونے کی ضمانت نہیں دے سکے تو پھر کسی معاہدے پر پہنچ جانے کے بعد، وہ کس طرح پُرتشدد کارروائیاں نہ کیے جانے کی ضمانت دینے کے قابل ہوسکتے ہیں؟ ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کے خیال پر یہ سوال شروع سے موجود ہے اور ہر بار، جب بھی مذاکرات کی کوشش ہوتی ہے، یہ پلٹ کر سامنے آجاتا ہے۔

حالانکہ یہ حقائق پہلے ہی ثابت ہوچکے اور جیسا کہ گذشتہ روز اسلام آباد کی عدالت پر حملہ ہونے کے بعد بھی ہوا، طالبان کے طرف داروں کا یہ طریقہ واردات ہے کہ چاہے بے نام تیسری قوت ہو یا باریک پردے کے پیچھے پوشیدہ طاقت، وہ ہر تازہ حملے کے بعد مبینہ طور پر انہی کو تشدد میں ملوث گردانتے ہیں۔

یہ منطق ہی غیر منطقی ہے: ٹی ٹی پی ایک ایسا شرپسند گروہ ہے جس کا ایجنڈا تشدد اور ریاست کو اٹھا کر باہر پھینکا ہے لیکن وہ امن و استحکام کے حق میں ہے جبکہ یہاں ایسے بے نام عناصر ہیں جو پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنا چاہتے ہیں۔

ایسا تجویز کرنا ہی سنگدلی ہے لیکن اس کے بعد اٹھنے والا سوال یقینی ہے: اب جبکہ وہ عناصر واقعی پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کررہے ہیں تو پھر امن پسند ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کیوں کیے جائیں؟

یقنیاً، مذاکرات کی وکالت کرنے والے عوام کے سامنے ہرگز یہ اعتراف نہیں کریں گے کہ تنہائی میں وہ کیا کچھ تسلیم کرچکے ہیں: ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات ایک ایسی پالیسی ہے جس کی جڑیں خوف و دہشت میں پیوست ہیں۔

اس شرمناک مفاہمانہ منطق کے مطابق اگر ٹی ٹی پی کو مصروف نہیں کیا جاتا تو پھر وہ مزید قتل وغارت گری کریں گے جیسا کہ یہ ملک اب تک دیکھتا چلا آرہا ہے۔ ٹی ٹی پی کے مضبوط ٹھکانوں پر اگر لڑائی مسلط کی جاتی ہے تو اس کے سنگین نتائج مرتب ہوں گے، لہٰذا اس سے بچنے کے لیے بہتر یہی ہے کہ طالبان سے مذاکرات کرلیے جائیں۔

حکومت نے معاہدے کی جستجو میں پہلے اپنی اصل کمزور پوزیشن دکھائی ہے لیکن اب ریاست کم از کم دوباتوں کا واضح اظہار کرسکتی ہے کہ اگر مذاکرات ہوئے تو ٹی ٹی پی کی شرائط پر ہرگز نہیں ہوں گے۔

اول، اب حکومت اور اس کی مذاکراتی ٹیم کو ٹی ٹی پی سے صاف صاف مطالبہ کردینا چاہیے: اگر ٹی ٹی پی کسی حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کرتی تو پھر اس کی قیادت کو واضح کردینا چاہیے کہ اس کے مجموعے میں شامل کون کون سی تنظیمیں اور گروہ اس کے زیرِ اثر ہیں اور کون کون سے گروہ یا تنظیمیں اس کے قابو سے باہر ہیں۔

رسمی طور پر کھلے بندوں اس اظہارکے بغیر، کسی بھی پُرتشدد کاروائی سے ٹی ٹی پی کا اظہارِ لاتعلقی وسیع پیمانے پر ناقابلِ قبول ہوگا۔

دوئم، فوجی قیادت کے ساتھ مل کر حکومت کو ٹی ٹی پی کے باقیماندہ مضبوط ٹھکانوں پر دستک دینے کے منصوبے پر کام جاری رکھنا چاہیے، جبکہ ٹی ٹی پی کے متوقع ردِ عمل سے نمٹنے کے لیے شہروں اور قصبوں میں سیکیورٹی انتظامات سخت کیے جانے چاہئیں۔

اس سے ٹی ٹی پی کو ممکنہ طور پر واضح پیغام جائے گا کہ صرف مذاکرات واحد حل نہیں، سلامتی کے ادارے اپنے شہریوں اور خود ریاست کے تحفظ کی اہلیت رکھتے ہیں۔

اگر یہ عزم ظاہر کردیا جاتا ہے اور اس پر قائم بھی رہتے ہیں تو پھر ٹی ٹی پی کے واسطے پینترہ بازی اور حیلے بہانوں کی گنجائش بہت کم پڑجائے گی۔

انگریزی میں پڑھیں

ضرور پڑھیں

تبصرے (3) بند ہیں

Kamran Mar 05, 2014 08:23am
government is just telling them "don't kill us and we are permitting you to kill everybody else". can you think of any other reason why they would be "negotiating" with the criminals?
Syed Mar 05, 2014 02:03pm
طالبان سے مذاکرات پر سنی، شیعہ، ملک کے تمام اعتدال پسند عوامی حلقے، پی پی پی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری سمیت اکثریت کی تمام تر مخالفت کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ نواز کی پارلیمانی پارٹی کی اکثریت کی جانب سے بھی مخالفت آن دی ریکارڑ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نواز حکومت اقلیتی رائے کے ساتھ مذاکرات کا ڈرامہ کیوں رچا رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
Syed Mar 05, 2014 03:39pm
کالعدم دہشتگرد طالبان کی جانب سے جنگ بندی کا اعلان قومی اتفاق رائے منتشر کرنے کی سازش ہے۔ دہشتگردوں کی طرف سے وقتی جنگ بندی قابلِ قبول نہیں۔ تمام لشکر، سپاہ اور طالبانِ خون کو فوری طور پر اور غیر مشروط ہتھیار ڈالنا پڑے گا۔ پاکستان کی بقاء کیلئے اِن دہشتگردوں کی طرف سے وقتی جنگ بندی مسئلے کا حل نہیں، ریاستی ادارے اپنا آپریشن شروع کریں اور اِن خوارج و تکفیری طالبان کے مزید ٹائم لینے کے دھوکے میں نہ آئیں- یاد رکھیں، پاکستان اور طالبان ایک ساتھ نہیں چل سکتے، لہذا آپریشن شروع کیا جائے اور تمام دہشت گردوں کے مکمل خاتمے یا سرنڈر کرنے تک جاری رکھا جائے۔ طالبان کی سرپرستی اور حمایت کو ریاست کے خلاف ایک سنگین جرم قرار دیا جائے،اور پھر جو بھی لوگ اس جرم کے مرتکب ہوں اُن کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے۔ ملک سے انتہاپسندی، نام نہاد فرقہ واریت اور دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے سخت ترین سزا کا دیا جانا بھی وقت کی اولیں ضرورت ہے۔