'کالعدم' تحریک فری میسن پاکستان - 2

اپ ڈیٹ 15 مئ 2015
فوٹو -- اختر بلوچ
فوٹو -- اختر بلوچ
فوٹو -- اختر بلوچ
فوٹو -- اختر بلوچ
فوٹو -- اختر بلوچ
فوٹو -- اختر بلوچ
فوٹو -- اختر بلوچ
فوٹو -- اختر بلوچ
فوٹو -- اختر بلوچ
فوٹو -- اختر بلوچ
فوٹو -- اختر بلوچ
فوٹو -- اختر بلوچ

پہ اس بلاگ کا دوسرا حصّہ ہے، پہلے حصّے کے لیے کلک کریں


محقق ناول نویس ڈین براؤن کے مطابق واشنگٹن شہر میں کانگریس لائبریری سے لے کر وائٹ ہاوس تک تمام اہم سرکاری عمارتوں میں جا بجا Star of David اور فری میسن کی دیگر علامات موجود ہیں۔ اور تو اور ڈالر کے کرنسی نوٹ پر بھی آپ انھیں دیکھ سکتے ہیں ۔ ڈین براون اور دیگر محققین کے مطابق جارج واشنگٹن فری میسن سوسائٹی کی Secreat Brotherhood کا ممبر تھا۔ یہی نہیں لیونارڈو ڈاونچی بھی اخوان کے ممبر تھے۔

سب سے اہم بات پاپا ئیت کے دور میں جب مصور اور مجسمہ ساز banini کو روم شہر اور ملحقہ وٹیکن سٹی میں مقدس مجسمے بنانے کے لئے ٹھیکہ دیا گیا تو انھوں نے اپنے بنائے ہوئے مجسموں میں خفیہ طریقے سے ایسی علامات رکھیں جو یہودی مذہب سے متعلق تھیں۔ بلکہ کچھ صورتوں میں پاپائیت کے عقیدے کا مذاق بھی اُڑاتی تھیں۔ Banini کے یہ مجسمے آج بھی روم اور وٹیکن میں دیکھے جا سکتے ہیں ۔

اب بات کرتے ہیں جیون کی۔ جیون کی عمر 75 برس ہے، ان کی پیدائش فری میسن ہال کے احاطے میں بنے ہوئے ایک گھر میں ہوئی۔ ان کے خاندان میں ان کے والد فری میسن ہال کے پہلے ملازم تھے۔ والد کے انتقال کے بعد ان کے بڑے بھائی ملازم ہوئے۔ جو جلد ہی وفات پاگئے۔ اس کے بعد جیون فری میسن کے ملازم ہوئے۔

جیون سے جب ہم نے بات چیت کا آغاز کیا تو وہ جزبز کا شکار تھے۔ آہستہ آہستہ بولنا شروع ہوئے، ان کی گفتگو میں دکھ بھی تھا، مسرت بھی، ماضی بھی، حال بھی، لیکن پوری گفتگو کے دوران وہ ہال میں ہونے والی سرگرمیوں کے بارے میں بہت محتاط تھے۔ ہم نے کوشش کی ہے کہ ان سے جو بات ہوئی اسے جو ہے جہاں ہے کی بنیاد پر لکھا جائے۔ اس میں ہم کس قدر کامیاب ہوئے اس کا فیصلہ آپ کو کرنا ہے؛

س: جیون، ہمیں فری میسن ہال کے بارے میں بتائیں؟

ج: پہلے جو آرہا تھا نہ ہمارا انٹرویو۔ ابھی وکیل نے ہم کو منع کیا ہے۔ نہیں نہیں میں آپ کو بتاؤں نا وہ کہتے تھے بہت ہوگیا۔

س: آپ کی عمر کیا ہے؟

ج: 74

س: اسی گھر میں پیدا ہوئے تھے؟

ج: جی

س: آپ کے والد کا کیا نام تھا؟

ج: ویسے تو اس کو پربھو، پربھو بولتے تھے یہ ہی نام تھا۔

س: جیون آپ نے اپنی عمر کے 75 سال یہاں گذار دئیے۔ ذرا بتائیے کے پاک انڈیا تقسیم سے قبل اور اس کے بعد یہاں کیا ہوتا تھا۔

ج: اس وکت(وقت) جیسے آج ہے ایسا نہیں تھا، یہاں ٹریفک نہیں تھی۔ گھوڑا گاڑی چلتی تھی۔ زیادہ تر ٹانگے چلتے تھے۔ اب آپ اور کیا معلوم کررہے ہیں؟

س: میں یہ جاننا چاہتا ہوں؟ کہ یہاں ہوتا کیا تھا؟ میٹنگز ہوتی تھیں؟ پارٹیاں ہوتی تھیں؟ اورکیا ہوتا تھا؟

ج: یہاں کوئی پارٹی وارٹی نہیں ہوتی تھی۔ یہ جو نیچے اوپر کمرے ہیں یہ ان کا آفس تھا۔ اس کے اوپر ان کا ڈرائنگ روم تھا، اسٹور روم تھا، کچن تھا، آگے کو لیڈیز روم تھا۔ ان لوک(لوگ) کا شام کو جو آتے تھے کھانے پینے کا پیچھے کی طرف تھا۔ تو اس وقت اتنا زیادہ کچھ نہیں تھا۔ اپنے والے جو تھے بہت کم تھے۔ گورے تھے۔ وہ آہستے آہستے چلے گئے۔ آخر میں 6 یا 7 رہ گئے۔ یہ 1973 کی بات ہے جب۔ اصل میں کیا تھا کہ یہاں جو کوئی بھی آتا تھا پرمننٹ نہیں رہتا تھا۔ اب بڑی بڑی کمپنیوں میں کام کرتے تھے۔ وہ آتے رہتے تھے۔ اس کو چلاتے رہتے تھے۔ کوئی سیکریٹری تھا۔ کوئی ٹریزرر تھا جو کوئی بھی تھا۔

س: بورڈ پر جام ایوب کا نام، شیرازی کا نام بھی ہے کیا یہ سب لوگ آتے تھے؟

ج: یہ آتا ہوئے گا۔ ہمارے والد صاحب کے ٹیم (ٹائم) پر۔ یہ ایسا ادارہ تھا کہ کوئی لوگ اس کو چلاتا ہی رہتا تھا۔ ہمارے جو والد صاحب تھے وہ گجر(گذر) گیا۔ تو ہمارے بڑے بھائی کو لگادیا۔ ابھی وہ گجر(گذر) گئے تو اس کی جگہ ہم کو دیا۔ تو یہ چل رہا تھا۔ یہ مکان بھی چل رہا تھا۔ ابھی اسی مکان کے اندر ہی ہماری پیدائش ہے۔ ابھی میرے 4 بیٹے اور 3 بیٹی ہے، سب یہاں رہتے ہیں۔ یہ تو ابھی ہیرٹیج والوں نے اس کی ری ہیبلیٹیشن کے لیے کوئی سروعات (شروعات) کی تھی۔ یہ 1842 کی بلڈنگ تھی۔ اس وکت (وقت) کو ان کے جو یہ سیکریٹری وغیرہ تھے۔ یہ اتنی صفائی کا خیال رکھتے تھے۔ اس لیے ابھی یہ دیکھو یہ بلڈنگ ایسے کے ایسے ہی کھڑی ہے۔ 1842 بھی کتنا ٹیم (ٹائم) ہوگیا۔ اس کو ان لوگ بہت دیکھ بھال کرتے تھے۔ جو چیز ٹوٹ پھوٹ گیا۔ تو اسی وکت (وقت) اس کو ٹھیک کرالیتے تھے۔ ابھی اس کے بعد آپ دیکھ سکتے ہیں اس کی حالت کیا ہے۔

س: یہاں جو درخت ہیں کیا یہ وہی پرانے درخت ہیں؟

ج: ایک درخت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) یہ والا ابھی بہت پرانا ہے۔ سامنے ہے نا یہ جامن کا جھاڑ (درخت) اس جھاڑ کی بات میں بتاؤں آپ کو، ہمارے جو ماموں تھے نا وہ انجینئر تھے۔ ابھی ہم بمبئی گیا تھا 84 میں تو وہ ہم سے کہہ رہے تھے کہہم کو یہ لگ رہا ہے کہ یہ جو پرانا جھاڑ ہے 100 سال سے اوپر کا ہے۔ 74 سے تو ہم دیکھ رہا ہے تو وہ لوک (لوگ) نے جامن کھایا ہوگا تو ان کو یاد ہے۔ بولا جھاڑ لگا ہوا ہے۔ میں بولا ہاں لگا ہوا ہے بولا اچھا!

س: فری میسن والے آپ کو کیا Salary دیتے تھے؟

ج : ہماری جو Salary تھی وہ جسے کہ ہجاروں (ہزاروں) میں ہی تھا۔ تو اس کے بعد میں وہ ہم کو ہر ایک چیز کے پیسے دیتے تھے۔ میڈیکل بولو تو فیملی میڈیکل بھی ملتا تھا۔

س: یہاں آنے والوں میں کون لوگ تھے؟

ج: پہلے بہت تھے، آخری میں کم رہ گئے۔ ایک سب سے پرانا تھا، ایک کمپنی میں تھا۔ جس کا جیب النساء اسٹریٹ (زیب النساء اسٹریٹ) پر مکان تھا۔ وہی گورے لوگ کو بتاتا تھا کہ یہ آدمی بہت پرانا ہے۔ اس وکت (وقت) ہم لوگوں کو کوئی تکلیف نہیں تھا۔ کوئی بھی کسی قسم کی تکلیف نہیں تھی کیوں؟ ذمے داری ہم لوگ کی تھی۔ یہ تو سارا جو میدان تھا یہ کھلا ہوا تھا۔ یہاں سے فوارہ چوک تک کا۔

س: کیا لوگ یہاں عبادت کرتے تھے؟

ج: نہیں کوئی نہیں۔ شام کو آتے تھے۔ پھر چلے جاتے تھے۔ ساڑھے 6 بجے آتے تھے۔ کھانا وانا سارا یہاں ہوتا تھا۔

س: پینے پلانے کا بندوبست بھی ہوتا تھا؟

ج: وہ سب انہی کا ہوتا تھا۔ او (وہ) لوگ شام کو آتے تھے پھر 8 سے 9 بجے تک کھانا کھایا پھر چلے جاتے تھے۔

س: کیا یہاں فنکشن وغیرہ بھی ہوتے تھے؟

ج: وہ لیڈیز نائٹ ہوتی تھی۔ شروع میں تو چھوٹے بچہ لوک (لوگ) کی اسکول بھی تھی یہاں۔

س: لیڈیز نائٹ میں کیا ہوتا تھا؟

ج: کچھ نہیں۔ اس میں عورتیں ہوتی تھیں۔ کھانا وغیرہ سب ہوتا تھا۔

س: کیا آپ اندر جاسکتے تھے؟

ج: ہم تو جاسکتا تھا۔ لیکن ہم اوپر نہیں جاتا تھا۔ ہمارا کام ہی نہیں تھا واں (وہاں)۔ وہ لوگ خود ہی جاتے تھے اور آتے تھے۔ اس کے بعد ان لوک (لوگ) کا جو خرچہ وغیرہ ہوتا تھا۔ ہفتے میں ایک دفعہ ان کا میٹنگ ہوتا تھا۔ کہ بھئی وہ فلاں تاریخ کو یہ ہوا تھا اتنا خرچہ ہوا تھا۔ اس کا سب حساب کتاب ہوتا تھا۔

س: اس بلڈنگ کو بھوت بنگلہ، جادو نگری بھی کہتے تھے۔ کیوں؟

ج: نہیں نہیں۔ اسے پرانے لوگ بت خانہ کہتے ہیں۔ یہاں ہمارے جو بھی رشتے دار ہیں، دوست ہیں وہ سب ہم کو 'بت خانے والے' کے نام سے جانتے ہیں۔ آپ جاکے بولو گے جیون کو ملنا ہے تو سوچیں گے۔ بعد میں بولو گے 'جیون بت خانے والا' تو بولے گا چلو یہ اس کا گھر ہے۔ پورا یہاں سے لے کے کہیں بھی جاؤ۔ آپ کراچی جاؤ، لندن جاؤ، امریکا جاؤ، وہ جو ہمارے جو جاننے والے ہیں وہ بت خانے والے کہتے ہیں۔

س: فری میسن پر پابندی لگنے کے بعد کیا کسی نے آپ سے رابطہ کیا؟

ج: ہاں 19 جولائی 1972 کی بات ہے جب پابندی لگی۔ اُس کے بعد ہم بے کار ہو گئے۔ اُس کے بعد میں فری میسن کا ایک گورا آیا تھا، "جے اے نمو". وہ سیکریٹری تھے یہاں۔ وہ بیچارہ آیا ہمارے پاس۔ یہ 1973 اور 1974 کے بیچ کا بات ہے۔ وہ کہنے لگا ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں۔ ہمارے سب اکاؤنٹ انھوں نے بند کر دیا ہے۔ ابھی ہم کچھ نہیں کر سکتا۔ انھوں نے ہمیں لیٹر دیا۔ جس میں لکھا تھا As per labor law آپ کچھ پیسے دیو تو میں ان کا حساب کلیر کر دوں۔ پھر اس کا کوئی جواب تو آیا نہیں۔ ابھی لیٹر ہمارے پاس ہے۔

س: کیا لوگ اب بھی آتے ہیں اور آپ سے ملتے ہیں؟

ج: ہاں ابھی دہلی سے لوگ آئے تھے۔ عورت تھی، بچی کے سنگ آیا تھا۔ پتا نہیں ان کو کیسے معلوم تھا کہ یہ پرانا آدمی ہے اس آپ ملو۔ یہ ابھی تین سے چار سال ہو گیا ہے۔ یہاں روزانہ کوئی نہ کوئی آتے رہتے ہیں۔ ابھی پرانا بلڈنگ ہے۔

س: کیایہ فری میسن تھے؟

ج: نہیں نہیں! ایسے ہی آتے ہیں۔ یہاں شوٹنگ بھی ہوتی ہے بہت ساری۔ یہ تو کرتے رہتے ہیں۔ ابھی آپ بولو یہ جو روڈ ہے۔ یہ آر، اے، لائن تھا سمجھا۔ رائل ایئر فورس لائن Royal Air Force Line اس کو پرانا لوگ آریا لائن بولتا تھا۔ پورا نہیں بولتا تھا۔

س: اُس وقت فری میسن کے علاوہ یہاں کیا تھا؟

ج: وائی ایم سی اے تھا۔ بہت چلتا تھا۔ اور کچھ نہیں تھا۔

س: فری میسن تحریک پر پابندی لگنے کے بعد آپ کے ساتھ کیا مسائل پیش آئے؟

ج: یہ ابھی وائلڈ لائف والوں نے 93 میں نوٹس دیا کہ گھر خالی کرو۔ ان کو معلوم تو تھا کہ پُرانا ہے۔ لیکن میرے کو لیٹر دیا۔ اس وکت (وقت) ہم نے 73 کے اندر کمشنر صاحب کو لکھا تھا، منسٹر کو لکھا تھا۔ مولانا کوثر نیازی ایسا ہی کوئی نام تھا۔ منارٹی منسٹر کو لکھا تھا کہ ہمارے سنگ یہ ہوا ہے۔

س: آپ ہندوستان میں کہاں کے ہیں؟

ج: نہیں میں اِدھر کا ہی ہے۔ میرا باپ سورت کا تھا۔ یہ لوک (لوگ) 1904 میں آئے تھے۔ میرا ماں اُدھری ٹاٹا مل میں کام کرتا تھا۔ وہ پھر چلے آئے۔ بہت تکلیف اُٹھا کر آئے۔ کبھی کبھی ماں بات کرتا تھا۔

پھر یہ لوگ ادھر کراچی میں آیا۔ پھر سندھ کلب میں آیا۔ ہمارے ماں باپ کا کوئی رشتے دار تھا اُدھر۔ پھر اُس کے پاس چلے گئے۔ اُدھری رہتے تھے۔ پھران کو کسی نے بولا بھئی کام ہے فری میسن ہال میں۔ باپو تو گجراتی پڑھے ہوئے تھے۔ ابھی گورے لوک (لوگ) انگریزی بولتا ہوئیں گا۔

ہم ابھی بھی سوچتا ہے۔ میرے والد نے ان لوگوں کے سنگ کیسے گذارا ہوگا۔ کیوں کہ یہ لوگ کوئی اردو بولتا تھا نہ گجراتی بولتا تھا۔ یہ تو سارے ہی گورے تھے۔ میں ابھی تک سوچتا ہوں کہ انھوں نے کیسے ان کے سنگ دن نکالا ہوگا۔ انھوں نے 45 سال یہاں کام کیا پھر وہ پیرالائز ہو گئے۔ سارا علاج او (وہ) لوک ( لوگ) کرتے تھے۔ یہ پیچھے ان کو مکان کے علاوہ کمرہ بھی دیا ہوا تھا۔

تو ایسے چلا، پھر بڑے بھائی لگ گئے۔ ہمارا شادی کے بعد وہ بھی گجر (گذر) گئے۔ چلو بھائی اس کے بعد انھوں نے ہم کو بولا اِدھر کام کرو۔ ابھی ہم تو کلیئرنگ فارورڈنگ میں کام کرتا تھا۔ آٹھ دس سال کا سروس تھا، چھوڑ کر اِدھر آنا پڑا۔ پگھار (تنخواہ) کی وجہ سے نہیں، مکان کی وجہ سے۔


یہ تھی جیون کی کتھا۔ جیون سے مکان خالی کروانے کی کوششیں اب بھی جاری ہیں۔ معاملہ عدالت میں ہے۔ وکیلوں کی بھاری فیس جیون پر ایک بوجھ ہے۔ ان کے مطابق وقتاً فوقتاً لوگ بیرون ملک سے آتے ہیں، عمارت کا دورہ کرتے ہیں، ان سے ملتے بھی ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ یہ لوگ فری میسن کے نہیں۔

میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ یہ عمارت گو کہ ایک قدیم عمارت ہے۔ لیکن بیرون ملک سے آنے والوں کو اس میں کیا دل چسپی ہے؟ کراچی کے رہائشیوں کو ہی اس عمارت کے بارے میں کچھ نہیں معلوم تو جو لوگ دیار غیر سے آتے ہیں انھیں کیسے پتہ ہے کہ اس عمارت میں جانا ہے۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں۔ ارے ہاں! میں نے مائیک بروس کا ذکر تو کیا تھا۔ وہ این جی او کے آدمی تھے لیکن دورہ فری میسن ہال کا کرنا چاہتے تھے۔

فری میسن ہال کا نیا نام اب وائلڈ لائف میوزیم ہوگا۔ میرے لیے یہ حیرت کی بات ہے کہ گاندھی گارڈن کا نام چڑیا گھر رکھ دیا اور فری میسن ہال کا نام وائلڈ لائف میوزیم۔ یہ تو خیر کوئی خاص بات نہیں جب 'رام باغ' آرام باغ ہوسکتا ہے تو اور کیا کچھ نہیں ہوسکتا۔ مسئلہ یہ ہے کہ جیون کب تک ہوپ لاج کے احاطے میں موجود اپنے گھر کو بچا پائے گا۔ اس بارے میں میں کوئی پیشین گوئی نہیں کرسکتا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (6) بند ہیں

Roohan Ahmed Mar 20, 2014 06:16pm
بہت خوب، نوجوان نسل کو اس ملک اور شہر کی تاریخ کا علم ہونا بہت ضروری ہے۔مجھے خوشی ہےکہ اس کام کابیڑہ آپ نےاٹھایا ہے
shakeel baloch Mar 20, 2014 08:49pm
sir ap ki tahriree bahut malomati ohti hai.jn ko pahd kr karachi k asl thareek ko samjne ma madad milta hai.
Farrukh Azim Mar 21, 2014 05:03am
Excellent research and very inetersting, unfortunately this type of information are rareley available. Thanks
میر کمال خان Mar 21, 2014 06:58pm
بہت ہی عمدہ ریسرچ کالم ہے،بلوچ صاحب
wahab hassan Mar 21, 2014 08:55pm
outstanding research based column Balouch Sb as usual, its old name should be restore by hope lodge
علی شہباز Mar 21, 2014 10:25pm
فری میسن ہال کا جو پتہ آپ نے سمجھایا ہے وہ بہت آسان ہے لیکن تاریخی طور پر یہاں پہنچنا بہت مشکل ہے. فری میسن تو کالعدم ہوگئی اور اب تک کالعدم ہے لیکن اور بھی بہت کالعدم تنظیمیں ہیں جو اب تک کام کر رہی ہیں. میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ یہ نزلہ ہندو عیسائیوں اور یہودیوں پر ہی کیوں گرتا ہے. ایسا لگتا ہے کہ اختر بلوچ بھی یہ چاہتے ہیں کہ یہودیوں عیسائیوں اور ہندوئوں کی تمام یاد گاروں کو مسمار کر دیا جائے لیکن ایک یہ بات اچھی ہے کہ کم از کم یہ تو پتہ چل ہر ہے کہ کراچی میں کون سی تاریخی عمارتیں موجود ہیں. بلوچ صاحب کی یہ کوشش اچھی ہے لیکن ایسا نہ ہو کہ یہ ساری نشانیاں مٹا دی جائیں.