ریاست کی ذمہ داری

24 مارچ 2014
خیبر پختون خواہ کا انوکھا مجوزہ قانون، لگتا ہے شہریوں کی حفاظت ریاستی ذمہ داری نہیں۔    فائل فوٹو۔۔۔
خیبر پختون خواہ کا انوکھا مجوزہ قانون، لگتا ہے شہریوں کی حفاظت ریاستی ذمہ داری نہیں۔ فائل فوٹو۔۔۔

پاکستان میں دہشت گردی کا مقابلہ اور اس معاملے پر کافی گہرائی میں ملوث ہونے کے سبب، بڑے عرصے سے سینسر کے واسطے طوفانی قانون سازی کا عمل جاری ہے تاہم خود پر شہریوں کی سلامتی کی عائد ذمہ داری نبھانے کے لیے خیبر پختون خواہ کی حکومت، بعض معاملات میں الگ ہی راستہ اختیار کرتی نطرآرہی ہے۔

صوبائی گورنر نے فروری کے دوران 'خیبر پختون خواہ سینسیٹیو اینڈ ولنر ایبل اسٹیبلشمنٹ اینڈ پلیسز، دو ہزار چودہ' آرڈیننس نافذ کیا تھا، جسے اب صوبائی اسمبلی کی سلیکٹ کمیٹی کے سپرد کردیا گیا ہے۔

مذکورہ آرڈیننس کے تحت دکانیں، بازار، پیٹرول پمپس، کمرشل اسٹریٹس اور شاپنگ پلازوں سمیت تقریباً تمام اقسام کے عوامی مقامات کو خطرات سے دوچار کا درجہ دیتے ہوئے، شہریوں پر یہ ذمہ داری عائد کی گئی کہ وہ ان مقامات پر اپنی سلامتی یقینی بنانے کے لیے خود حفاظتی کریں۔

ان میں سی سی ٹی وی کیمرا، بائیومیٹرک سسٹم، واک تھرو گیٹ، سیکیورٹی الارم سمیت تمام تر جدید تکنیکی آلات کی تنصیب کے ساتھ ساتھ، جسمانی نوعیت کے حفاظتی اقدامات بھی بیان کیے گئے تھے۔ اچھی وجوہات کے ساتھ، آرڈیننس کو حال ہی میں خیبر پختون خواہ کی اسمبلی میں پیش کردیا گیا ہے۔

صوبہ، قبائلی علاقوں کے ساتھ واقع ہے جہاں بڑی تعداد میں عسکریت پسندوں کے ٹھکانے موجود ہیں، ایسے میں یہ براہِ راست لائن آف فائر پر کھڑا ہے۔ اس وجہ سے صوبے کی عوام ہر وقت دہشتگردی کے سائے تلے جی رہی ہے۔ سنیما، بازار اور عبادت گاہوں سمیت تقریباً ہرجگہ ہونے والے حملوں نے لوگوں کو نفسیاتی طورپر محصور بنادیا ہے۔

ایسے میں ریاست کو یہ ٹھوس پیغام دینا چاہیے تھا کہ وہ اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کے بجائے اس اہم موڑ پر، عسکریت پسندی کے درپیش خطرے کے سامنے، ثابت قدمی سے ڈٹے رہنے پر پُرعزم ہے۔

مشکوک سرگرمیوں پر نظررکھنے کے لیے، شہری اپنی آنکھیں اور کان کھلے رکھ کر مضبوط سیکیورٹی میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں اور انہیں ایسا کرنا چاہیے لیکن یہاں تجویز دی گئی ہے کہ اگر کرایہ دار کے دہشتگردوں سے روابط پائے گئے تو اس کی ذمہ داری جائیداد کے مالک پر ہوگی۔

لیکن یہ ذمہ داری تو ریاست کی بنتی ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی حفاظت کرے اور قانون نافذ کرنے والے ماتحت اداروں کے ذریعے امن و امان برقرار رکھے۔

مذکورہ بالا آرڈیننس کے ان مجوزہ خطوط کے ساتھ، خیبر پختون خواہ کی حکومت نے اپنے شہریوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ اس نے ریاست مخالف قوتوں کے سامنے ہتھیار ڈال دے، جس کا نتیجہ حوصلہ شکنی ہوگی؛ ساتھ ہی یہ تشدد پر کمربستہ عناصر کی بھی حوصلہ افزائی ہے۔

علاوہ ازیں، لگ رہا ہے کہ اس طرح کی مجوزہ قانون سازی کے ذریعے ریاست اپنی کوتاہیوں کی پردہ پوشی کرکے، ذمہ داریوں اور نتائج سے، خود کو بری الذمہ کررہی ہے، جس سے ایک نہایت غلط مثال قائم ہوگی۔

انگلش میں پڑھیں

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں