1- پاکستان کی شہری تاریخ ... ہمیں سب ہے یاد ذرا ذرا

اپ ڈیٹ 26 مارچ 2014
فوٹو السٹریشن -- خدا بخش ابڑو
فوٹو السٹریشن -- خدا بخش ابڑو

انیس سو ستر کی دہائی کے شہری پاکستان کی تاریخ پر مبنی اس بلاگ کا یہ پہلا حصّہ ہے


1970 کی 9 اور 17 دسمبر کو بالغ راۓ دہی کی بنیاد پر پاکستان کے پہلے انتخابات ہوئے-

جنوری، 1970 سے امیدوار، سیاسی جماعتیں اور آزاد سیاستدان اس موقع کے لئے انتخابی مہم چلا رہے تھے اور بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی اور مجیب الرحمٰن کی عوامی لیگ، بالترتیب مغربی اور مشرقی پاکستان میں بے انتہا مشہور تھیں-

لیکن یحییٰ خان کی فوجی حکومت --جسے دونوں ہی جماعتوں پر بھروسہ نہیں تھا-- کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑا-

حکومت کو دونوں پر ہی شک تھا کہ یہ سٹیٹس-کو مخالف جماعتیں ہیں، حالانکہ یحییٰ خان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے مشرقی پاکستان میں مجیب الرحمٰن کی عوامی لیگ کی جیت کی پیش گوئی کی تھی لیکن انہی ایجنسیوں نے مغربی پاکستان میں بھٹو کی پیپلز پارٹی کی کامیابی کے خیال کو تقریباً لغو قرار دیا-

اس امید پر کہ الیکشن ایسے غیر واضح نتائج پیش کریں گے جو فوجی حکومت کے مفاد میں ہوگا، یحییٰ خان نے ناصرف مسلم لیگ دھڑوں کے حمایتی، مختلف صنعتکاروں اور جاگیرداروں کی حمایت کا فیصلہ کیا بلکہ دائیں بازو کی کٹر اسلامی جماعتوں (خصوصاً جماعت اسلامی) کو بھی حمایت اور پسندیدگی کا اشارہ دیا-

جنرل یحییٰ خان جنہوں نے ایوب خان کی آمریت کے خلاف بڑے پیمانے پر ہونے والی طلبہ اور سیاسی تحریک کے بعد 1969 میں اقتدار سنبھالا-
جنرل یحییٰ خان جنہوں نے ایوب خان کی آمریت کے خلاف بڑے پیمانے پر ہونے والی طلبہ اور سیاسی تحریک کے بعد 1969 میں اقتدار سنبھالا-

1966 اور 1969 کے درمیانی عرصہ میں وہ سب کچھ جو پاکستانی شہری نوجوان حلقوں کے اندر ہی اندر پک رہا تھا، 1970 میں بلآخر مین اسٹریم میں پھٹ پڑا-

پی پی پی کی انتخابی مہم کے دوران، بائیں بازو کی انتہا پسند سیاست اور انقلابی نمونوں یعنی نئی دریافت شدہ جنونی مڈل کلاس، محنت کش طبقے کے طور طریقوں اور کلچر کے امتزاج اور سڑکوں پہ رہنے والے بھٹو نواز غریب طبقے کا آپس میں رومانس معرض وجود میں آیا، ساتھ ہی سندھی رواج، جذباتی موسیقی اور پنجاب کے دیہی اور نیم شہری 'مزار ثقافت' مدغم ہو گئے-

مزار کلچر، تقریباً ایک ہزار سال سے برصغیر میں، قدیم مسلم درویشوں کے مزارات کے گرد مذہبی، تفریحی اور معاشی سرگرمیوں کی شکل میں موجود رہا ہے-

درویشوں کا اسلام، راسخ العقیدہ اسلام کے مقابلے میں زیادہ پسندیدہ رہا- مزاروں کے ارد گرد کیف آور مذہبی موسیقی، نت نئی رسومات اور دیسی نشہ آور اشیا پر مشتمل کلچر کو بڑے پیمانے پر قبول کیا گیا، ان میں زیادہ تر غریب کسان، بے دخل کیے جانے والے، اور بعد میں بے گھر مزدور طبقہ بھی شامل ہو گیا-

اس کلچر کو بڑے پیمانے پر پسند کیا گیا، بلکہ برصغیر پر حکمرانی کرنے والے شاہی مسلمان خاندانوں نے اس کی سرپرستی بھی کی، اور انیسویں صدی کے وسط میں، مغل بادشاہت کے خاتمے تک یہ علاقے کی مسلم اکثریت کے عقائد اور رسومات کا لازمی جزو بن گیا-

تاہم، 1950 کی دہائی سے، شہری مڈل کلاس نے اسے ناخواندگی اور ضعیف الاعتقادی کہہ کر یکسر مسترد کرنا شروع کر دیا-

لیکن بالکل مغرب کے ہپیوں کی طرح، جنہوں نے مغرب کے 'بے روح' اور مادہ پرست، سرمایہ دارانہ نظام سے ناپسندیدگی کے اظہار کے لئے مختلف غیر ملکی اور مخصوص مشرقی عقائد کا انتخاب کیا، باغی مڈل کلاس پاکستانی شہری نوجوانوں نے 'پسماندہ اور ٹھکراۓ' ہوؤں سے سماجی، سیاسی اور ثقافتی تعلق بنانے کے لئے صوفی ازم اور مزار کلچر کو اپنایا-

ایک ملنگ پنجاب میں ایک صوفی کے مزار کے باہر رقص کر رہا ہے -
ایک ملنگ پنجاب میں ایک صوفی کے مزار کے باہر رقص کر رہا ہے -

یہ تعلق اور بھی دلچسپ ہو گیا جب پی پی پی کے حمایتی بائیں بازو کے مڈل کلاس نوجوان کا براہ راست رابطہ دیہی کسانوں، چھوٹے دکان داروں اور شہری محنت کش طبقے سے پی پی پی کے انتخابی جلسوں میں ہوا-

یہ تمام عناصر اپنے ساتھ موسیقی، جذباتیت، اوباشی، اور صدیوں سے انکی زندگی میں رچی بسی مزار ثقافت کی مریدگی لے کر آۓ-

اتنے بڑے پیمانے پر نظریاتی آمیزش سے ابھرنے والی ثقافتی ترکیب ان وجوہات میں سرفہرست تھی جس کی بنا پر بھٹو کی حیثیت ایک "بہادر محب وطن" (جو سنہ انیس سو چھیاسٹھ میں ایوب خان کے وزیر خارجہ کی حیثیت سے اپنے باس کے مد مقابل کھڑا ہوا) سے چھلانگ لگا کر، ان کے حمایتیوں کے مطابق زمانہ جدید کے صوفی درویش کی شکل اختیار کر گئی-

جب پی ٹی وی پر انیس سو ستر کی انتخابی ریلیوں کے کلپس دکھاۓ گۓ تو ان میں سب سے منفرد اور زندہ دل جلسے پی پی پی کے تھے-

اگرچہ ان جلسوں پر بھٹو کی مقبول متحرک (اور بعض اوقات جذبات انگیز) خوش کلامی کا غلبہ زیادہ ہوتا تھا، لیکن ان جلسوں کی ایک اور وجہ شہرت ان کا شورو غل اور ساز و موسیقی کی محفلیں ہوتی تھیں جو عام طور پر ملک بھر میں صوفی درویشوں کے مزاروں کے باہر دیکھنے کو ملتی تھیں-

دوسری جانب، انیس سو ساٹھ کی دہائی کے وسط میں، ملک کا مقبول مڈل کلاس کلچر، اس وقت کے بائیں بازو نظریات اور بنیاد پرست اسٹوڈنٹ ایکشن کے درمیان جواں سال ملاپ کی شکل میں پاکستان کا عکاس بن کر ابھرا- اس کلچر نے اپنی تصوریت کا اظہار مزار کلچر کے غیر روایتی اور انوکھے پن کے ذریعے کیا-

اگرچہ، ابھی اس نوجوان کلچر کے توسیح پذیر ماحول نے اپنے زمانے کا مغربی فیشن اپنانا شروع ہی کیا تھا، ابھی اسے مکمل طور پر ہپیوں کے کاؤنٹر کلچر سے متاثر ہونا باقی تھا جو فی الوقت امریکا اور یورپ میں اپنی جگہ بنا رہا تھا-

انیس سو ستر میں یہ سب تبدیل ہونے لگا اور تیزی سے تبدیل ہونے لگا-

حالانکہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ مغرب میں ہپیوں کا رجحان انیس سو چھیاسٹھ میں سان فرانسسکو میں شروع ہوا، لیکن اس حوالے سے مڈل کلاس پاکستان کی (انیس سو ارسٹھ کے آغاز تک) معلومات سطحی تھیں-

جب پاکستان مقبول ہپی آمد ورفت کے لئے ایک درمیانی منزل بنا، ایک ایسا زمینی راستہ جسے امریکا اور یورپ سے انڈیا اور نیپال جانے والے ہزاروں ہپی استعمال کرتے، تو پشاور، سوات، لاہور اور کراچی ہپیوں کے لئے اہم مقامات بن گئے-

ترکی سے ایران میں داخل ہونے کے بعد یہ سلسلہ افغانستان کی طرف مڑ جاتا تھا جہاں سے ہپی پاکستان میں داخل ہوتے تھے (صوبہ خیبر پختون خواہ کے درہ خیبر کے راستے)، وہاں سے وہ راولپنڈی آتے پھر وہاں سے لاہور اور پھر لاہور سے بس کے ذریعہ انڈیا جاتے-

انیس سو تہتر میں کراچی کے ساحل پر ایک ہٹ میں انجواۓ کرتے ہوئے ہپی -- فوٹو -- پاکستان ہیرالڈ
انیس سو تہتر میں کراچی کے ساحل پر ایک ہٹ میں انجواۓ کرتے ہوئے ہپی -- فوٹو -- پاکستان ہیرالڈ

بہت سے ہپی کراچی کے وسیح و عریض ساحلوں سے لطف اندوز ہونے کے لئے، کراچی تک کا بھی سفر کرتے- ان کے لئے پاکستان میں ایک اور مقبول ٹھکانہ لاہور اور کراچی کے مختلف صوفیوں کے بڑے بڑے مزارات تھے- یہاں وہ مزاروں کے ملنگوں اور فقیروں میں گھل مل جاتے-

ٹھیک اسی زمانے میں، مڈل کلاس نوجوانوں نے بھی پہلے سے زیادہ مزاروں پر جانا شروع کر دیا- خصوصاً جمعرات کی راتوں کو جب بہت سے مزاروں پر روایتی صوفی موسیقی قوالی کا اہتمام کیا جاتا تھا (جو آج بھی جاری ہے)-

وہ لاہور کے مزار، کراچی کے ساحل، پشاور اور راولپنڈی کے بس اسٹینڈ تھے جہاں زیادہ تر پاکستانیوں کا مغربی ہپیوں سے براہ راست رابطہ ہوا-

سنہ انیس سو ستر کے مشہور پی ٹی وی پروگرام، دی ضیاء محی الدین شو کے میزبان جناب ضیاء محی الدین بھڑکیلے (پھولدار) لیکن وضع دار سوٹوں میں ملبوس ٹی وی پر حاضر ہوتے تھے، ان کی دیکھا دیکھی مغرب میں فروغ پاتے "بنیاد پرست وضع دار" اور "ہپپی پہناوے"، مڈل کلاس نوجوان پاکستانیوں میں بھی مقبول ہونے لگے-

کراچی یونیورسٹی میں کلاس روم کے باہر طرح دار دوستوں کا ایک گروپ -- فوٹو -- پاکستان ہیرالڈ
کراچی یونیورسٹی میں کلاس روم کے باہر طرح دار دوستوں کا ایک گروپ -- فوٹو -- پاکستان ہیرالڈ

وہ نوجوان لڑکے جن کے بال سنہ انیس سو ساٹھ کی دہائی کے اختتام تک چھوٹے ہوا کرتے تھے، انیس سو ستر کی دہائی کی ابتدا میں (گھنی قلموں کے ساتھ) لمبے ہونا شروع ہو گئے، خواتین کی قمیضیں چھوٹی ہونا شروع ہو گئیں --- یہ سب مشہور ہالی وڈ فلموں، پاکستانی اداکاروں جیسے وحید مراد اور شبنم سے متاثر تھے، اس کے علاوہ انڈین اداکاروں (خصوصاً راجیش کھنہ اور ممتاز) جن کی فلمیں نوجوان (شمالی پاکستان کے راستے) کابل پہنچ کر دیکھا کرتے تھے-

اس یقین کے ساتھ کہ وہ پاکستان میں ثقافتی اور سیاسی انقلاب کا محرک بنیں گے، مغربی اور مشرقی پاکستان کے نوجوان ایک بڑی تعداد میں اپنے ہم وطنوں کے ساتھ، انیس سو ستر کے پہلے اصلی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے لئے نکلے-

... جاری ہے

انگلش میں پڑھیں


ترجمہ: ناہید اسرار

تبصرے (0) بند ہیں