چارلس نیپیئر، ہرمز جی، روپ چند اور بن قاسم

اپ ڈیٹ 09 اپريل 2014
فوٹو -- اختر بلوچ
فوٹو -- اختر بلوچ
فوٹو -- اختر بلوچ
فوٹو -- اختر بلوچ
فوٹو -- اختر بلوچ
فوٹو -- اختر بلوچ
فوٹو -- اختر بلوچ
فوٹو -- اختر بلوچ
فوٹو -- اختر بلوچ
فوٹو -- اختر بلوچ

کلفٹن کا علاقہ کب سے آباد ہے؟ اس کا نام کلفٹن کیوں ہے؟ یہ جاننے کے لیے ایک بہت وسیع اور مکمل تحقیق کی ضرورت ہے۔ لیکن ہم آپ کو یہ ضرور بتائے دیتے ہیں کہ چارلس نیپیئر، ہرمز جی، روپ چند اور بن قاسم کلفٹن کے ایک احاطے میں بڑے سکون سے رہتے ہیں۔

معاف کیجئے گا چارلس نیپیئر کبھی یہاں رہتے تھے لیکن اب نہیں۔ باقی تینوں حضرات اب بھی موجود ہیں. ثبوت یہ کہ یہاں ان کے ناموں کی تختیاں لگی ہوئی ہیں.

جیسا کہ ناموں سے ظاہر ہے، چاروں حضرات کا تعلق جدا جدا مذاہب سے ہے۔ پہلے صاحب اہل کتاب ہیں۔ دوسرے آتش پرست، تیسرے بت پرست اور چوتھے صاحب بت شکن ہیں۔

ان میں سے دو یعنی بن قاسم اور چارلس نیپیئر دونوں میں ایک قدر مشترک ہے کہ دونوں صاحبان نے سندھ فتح کیا تھا۔ آج ہم جس معاشرے میں جی رہے ہیں۔ وہاں دوسرے مذاہب کو تسلیم نہ کرنا، ان کی تعلیمات کو رد کرنا، انہیں واجب القتل قرار دینا ایک عام سی بات ہے.

نا صرف یہ بلکہ خود اپنے مذہب کے مختلف مکاتب فکر اور فرقوں سے وابستہ لوگوں کو نا صرف واجب القتل قرار دیا جاتا ہے بلکہ قتل کر بھی دیا جاتا ہے۔

مسلمان تو اس حوالے سے ویسے ہی خاصے مشہور ہیں۔ لیکن ہندوستان میں آباد نیچ ذاتوں والے ہندوؤں سے اونچی ذات والے ہندو بھی کوئی اچھا سلوک نہیں کرتے۔ بعض اوقات تو مار بھی ڈالتے ہیں۔ ایسا کچھ وہاں آباد عیسائیوں کے ساتھ بھی ہوتا رہتا ہے۔ اب یہ ہے نہ حیرت کی بات! عیسائی، پارسی، ہندو اور مسلمان ایک ساتھ کیسے بس رہے ہیں؟ پہلے ان چاروں حضرات کا کلفٹن کے حوالے سے تعارف ہوجائے پھر بات کو آگے بڑھاتے ہیں۔

ہرمز جی کا پورا نام سر جہانگیر جی ہرمز جی کوٹھاری ہے۔ روپ چند تو روپ چند ہی ہیں. یہ 1930 میں سندھ کے پہلے ایڈیشنل جوڈیشل کمشنر تھے اور بن قاسم کو تو آپ جانتے ہی ہوں گے۔ انہوں نے سندھ کو باب الاسلام ہونے کا "شرف" بخشا تھا۔

موصوف نے حجاج بن یوسف کے حکم پر سندھ فتح کیا۔ ڈاکٹر مبارک علی محمد بن قاسم اور راجہ داہر کے درمیان جنگ کو کفر و اسلام کی جنگ نہیں سمجھتے ان کا کہنا ہے کہ راجہ داہر کی فوج میں محمد علافی کی سربراہی میں مسلمانوں کا ایک گروہ شامل تھا۔

آئیے اب بات کرتے ہیں روپ چند جی کی جنہوں نے کلفٹن کے علاقے میں ساحل سمندر پر ایک پارک تعمیر کروایا تھا۔ جہانگیر جی ہرمز جی کوٹھاری نے ساحل سمندر تک پہنچنے اور اس کی لہروں سے لطف اندوز ہونے کے لیے ایک راہ گذر Parade تعمیر کروائی تھی جس کا نام Lloyd Piar تھا۔

کلفٹن کتنا قدیم ہے؟

سر چارلس نیپئر کے H.T.Lambrick, C.I.E اپنی کتاب "سر چارلس نیپئر اور سندھ" مطبوعہ آکسفورڈ یونی ورسٹی پریس 1952 کے صفحہ نمبر 339 اور 340 پر چارلس نیپیئر اور کلفٹن کا ذکر یوں کرتے ہیں؛

"شدید گرمیوں کے موسم میں سر چارلس نیپیئر اپنے خاندان کو کلفٹن کی ایک پہاڑی پر لے گئے جو بحرہ عرب کے ساتھ ہے۔ صحت افزاء مقام کی ہونے کی وجہ سے یہاں چند گھر بنائے گئے تھے۔ لیکن لیڈی نیپئر یہاں پہنچ کر بیمار ہو گئیں۔ شوہر نے بلکل ایک نرس کی طرح تیمار داری کی۔ اُن کی بیٹی اور نواسی بھی بیمار پڑ گیئں۔

سر نیپئر کے اعصاب معمولات حکومت اور گھریلو مسائل کی وجہ سے جواب دے گئے۔ انھوں نے موسمِ سرما تک کام کرنے سے انکار کر دیا اور استعفیٰ دے دیا۔ حالاں کہ اُنھیں کہا گیا تھا کہ وہ ستمبر تک اس عہدے پر برقرار رہیں۔ اگر وہ مزا حیہ انداز میں یہ ساری کہانی لکھتے تو اس طرح لکھ سکتے تھے کہ میں وہ شخص ہوں جو بچوں اور خواتین کی وجہ سے اس طرح پھنسا ہوا ہوں جیسے بطخ پیازوں کے بیچ۔ کیا میرے اگلے چار ماہ ٹھیک رہیں گے؟ مجھے اس عظیم الشان انڈیا، اس کی ضرورتوں اور بد حکومتی سے چھٹکارا مل سکے گا؟

نیپیئر کی بات تو مکمل ہوئی۔ آئیے اب ہر مز جی کی بنائی ہوئی راہ گذر پریڈ (Parade) کا ذکر کرتے ہیں کہ اُس کی تعمیر کب اور کیوں ہوئی؟

یہ بھی ایک دل چسپ کہانی ہے۔ وہ جو کہتے ہیں نا کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا تو میرا خیال ہے کہ اس کے ساتھ ساتھ ہر شاندار تاریخی تعمیر کے پیچھے بھی کسی نہ کسی عورت کا ہی ہاتھ ہوتا ہے۔

وہ کس طرح؟ کوریا سے تعلق رکھنے والی "کیمی میر پوا" نے پاکستان میں 60 کی دہائی میں ایک طویل عرصہ گذارا اور اپنی یادداشتوں کا ایک سفر نامہ "آج کا پاکستان" کے نام سے لکھا۔ اس سفر نامے کے صفحہ 59 پر لکھتی ہیں؛

"لائیڈز پائیر (Lloyd Piar) کی بنیاد ایک خاتون نے رکھی تھی۔ نہایت پیاری خاتون، جو آنریبل لیڈی لائیڈ تھیں۔ ہر سہہ پہر کو جب سمندر سے خنک ہوا کلفٹن کی ریت سے گذرتی، تو وہ وکٹوریہ میں سوار، اندھیرا پھیلنے سے پہلے پہلے ایک چکر لگاتی تھیں۔ سمندر کو جانے والی راہ پتھریلی تھی اور کہیں بھی ہموار نہیں تھی۔ پانی تک فاصلہ بھی بہت طویل تھا۔

اسی طرح ایک دن سیر کے دوران لیڈی لائیڈ کو ایک معزز پارسی رئیس سے ملنے کا اتفاق ہوا جن کا نام سر جہانگیر ہرمز جی کوٹھاری تھا۔ دونوں جلد ہی گہرے دوست بن گئے۔ کوٹھاری صاحب سمندر کے کنارے ایک چھوٹی سی پہاڑی پر تعمیر شدہ شان دار بنگلے میں رہتے تھے۔ لیڈی لائیڈ اور سر جہانگیر اس بنگلے کی بالکونیوں میں چائے پیتے۔ یہاں ہوا کا بہت زور ہوتا تھا۔ ایک دن دونوں یہیں بیٹھے تھے، لیڈی لائیڈ پتھریلے راستے پر سینکڑوں لوگوں کو چلتے دیکھ رہی تھیں اور ضرور سوچتی ہوں گی کہ پتھروں کی نوک سے ان کے پاؤں ضرور زخمی ہوتے ہوں گے۔ اس دلدوز نظارے کے بعد انھوں نے سر جہانگیر سے کہا کہ اگر یہاں باقاعدہ سڑک ہو تو ان بے چارے بے شمار لوگوں کو تکلیف نہ ہو، جو یہاں تازہ ہوا کی تلاش میں آتے ہیں، جنہیں اتنی توفیق نہیں کہ وہ سمندر کے نزدیک گھر بنائیں۔

قابل احترام پارسی نے آنریبل لیڈی کی بات مان لی۔ اب وہ اس فکر میں تھے کہ یہ سب کچھ کیسے ہو۔ لیڈی نے سمجھایا کہ صرف ایک Piar کی ضرورت ہے جو نیچے ساحلِ سمندر تک جائے۔ یہ بہت بڑی بات ہوگی اور اُن کا نام ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر ہو جائے گا۔ سر جہانگیر کو یہ تجویز پسند آ گئی اور Piar تعمیر کروادی، لیکن اپنے نام کی بجائے اپنی دوست کے نام پر۔ عوام کے لیے یہ راہ 23 مارچ 1921 کو کھول دی گئی۔ کلفٹن کے ساحل کو جاتے راستے پر ایک کتبے پر سیاح یہ الفاظ پڑھ سکتے ہیں، "Lady Lloyd Piar"۔

کوٹھاری صاحب نے تین لاکھ روپیوں کی لاگت سے یہ Piar اور پیویلین تعمیر کروایا اور کراچی کے عوام کی نذر کر دیا۔ یہ تحفہ سر جہانگیر کی سخاوت اور عوامی جذبے کی مثال ہے۔

آج ہر شخص اس سرخ جودھپوری پتھر سے تعمیر کردہ Piar کا لطف اُٹھا سکتا ہے جو سیدھا نرم ریت کے ٹیلوں کی طرف لے جاتا ہے۔

جیسا کہ ہم پہلے ہی ذکر کرچکے ہیں، یہاں ایک تختی 'روپ چند بالا رام' کے نام کی بھی لگی ہوئی ہے جو 1930 میں سندھ کے ایڈیشنل جوڈیشل کمشنر تھے۔ اس تختی پر تاریخ اور سن کا اندراج نہیں۔

وکی پیڈیا پر ان کے پوتے سُندر شیوداسانی لکھتے ہیں کہ؛

"یہ پارک سن 1900 میں ان کے دادا نے تعمیر کروایا تھا اور اس کی ایک پینٹنگ بھی ان کے پاس ہے"

ہم نے بڑی کوشش کی کہ روپ چند کے پوتے سُندر سے کوئی رابطہ ہوجائے کم از کم پینٹنگ کا عکس ہی مل جائے لیکن ناکامی ہوئی۔ پڑھنے والوں میں سے کسی کو اس بارے میں کوئی معلومات ہوں تو ہمیں ضرور آگاہ کریں۔

یہ تو سب جانتے ہیں کہ بن قاسم یعنی 'محمد بن قاسم' نے 712 عیسوی میں سندھ فتح کیا لیکن اس کے بعد خود ان کے ساتھ کیا ہوا بہت کم لوگ جانتے ہیں۔

سندھی ادبی بورڈ کی مطبوعہ کتاب چچ نامہ اشاعت 2008 کے صفحہ نمبر 242 ,243 اور 244 پر جو کچھ درج ہے اس کا مختصر احوال آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں؛

راجہ داہر کے قتل ہونے کے بعد ان کی دو بیٹیاں گرفتار ہوئیں۔ جنہیں محمد بن قاسم نے دارالخلافہ دمشق بھیج دیا۔ چند دن کے بعد 'خلیفة المسلمین' کے 'دل مبارک' میں 'خیال' آیا۔ دونوں کو حاضر کر نے کا حکم دیا۔ بڑی کا نام سریا دیوی اور چھوٹی کا پرمل دیو تھا۔

حسب معمول خلیفہ ولید بن عبدالمالک سریا دیوی کے حسن وجمال پر لٹو ہوگیے، سریا دیوی کو اپنی طرف کھینچا تو وہ تلملا کر کھڑی ہوگئی اور کہنے لگی، 'بادشاہ قائم رہے، یہ کنیز بادشاہ کے خلوت کے قابل نہیں، امیر عادل عماد الدین محمد بن قاسم نے ہمیں 3 دن اپنے پاس رکھنے کے بعد یہاں بھیجا ہے۔ کیا تمہارا یہی دستور ہے!'

غصّے کی وجہ سے خلیفہ کو تحقیق اور تصدیق کا ہوش نہ رہا، فوراً ہی کاغذ قلم منگوا کر پروانہ لکھا کہ محمد بن قاسم جہاں بھی ہو اس پر لازم ہے کہ خود کو کچی کھال میں بند کراکے دارلخلافہ کو واپس ہو۔

محمد بن قاسم کو فرمان اودھ پور کے شہر میں موصول ہوا تو انہی کے کہنے پر انھیں کچی کھال میں لپیٹ کر اور صندوق میں رکھ کر دارالخلافہ (دمشق ) لے جایا گیا۔ راہ میں محمد بن قاسم نے اپنی جان خدا پاک کے حوالے کی۔ صندوق خلیفہ کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ خلیفہ نے راجہ کی بیٹیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ دیکھو ہمارا حکم ہمارے ماتحتوں پر اس طرح جاری ہوتا ہے۔ راجہ کی بیٹی چنگی نے بادشاہ کو کہا کہ محمد بن قاسم نے ہم کنیزوں پر کوئی دست درازی نہ کی تھی ہم نے انتقاماً جھوٹ بولا تھا۔ اس نے ہمیں بادشاہت سے گرا کر قدامی کے درجے پر پہنچایا تھا۔

آخر میں مصنف جو لکھتا ہے وہ جوں کا توں آپ کی خدمت میں پیش ہے؛

"محمد بن قاسم کی عقل ہمت و یاوری کرتی تو ایک دن کی باقی ماندہ مسافت تک چل کر آتا۔ پھر خود کو چمڑے میں بند کرواتا۔ جہاں پہ جب تحقیق ہوتی تو آزاد ہوجاتا۔ یوں برباد نہ ہوتا"۔

محمد بن قاسم کے سندھ فتح کرنے کے صدیوں بعد سر جہانگیر ہرمز جی اور روپ چند بالا رام نے پارک اور کوٹھاری پریڈ تعمیر کروایا لیکن ان دونوں پر فتح محمد بن قاسم کو ہی حاصل ہوئی.

کوٹھاری پریڈ کی تختیاں پارک کے شروع میں لگی ہوئی ہیں جبکہ روپ چند پارک کی تختی کوٹھاری پریڈ کے پچھلے حصے لگی ہوئی ہے جسے کوئی اہل نظر ہی دیکھ پاتا ہے۔ ہمارے دوست حسن منصور کی ایک خبر کے مطابق؛

"22 جولائی 2005 کو ایک بہت بڑے پارک کی تعمیرکا آغاز ہوا ایک اندازے کے مطابق یہ پارک پاکستان کا سب سے بڑاپارک ہے اس پارک کا رقبہ 130 ایکڑ پر مشتمل ہے، اس کی تعمیر پر 500 ملین روپے کے اخراجات آئے۔ آج کراچی میں لوگ بن قاسم پارک کو تو جانتے ہیں لیکن سر جہانگیر ہرمزجی اور روپ چند بالا رام کون تھے اس کے بارے میں انہیں شاید ہی کوئی معلومات ہوں"

مؤرخ و محقق ڈاکٹر مبارک علی کے مطابق محمد بن قاسم اور راجہ داہر کے درمیان ہونے والی جنگ کفر و اسلام کی جنگ نہیں تھی۔ راجہ داہر کے لشکر میں مسلمان شامل تھے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ یہ بات درست نہیں کہ محمد بن قاسم کی فوج میں چھوٹی ذاتوں کے ہندو بھی شامل تھے۔

بن قاسم کے سندھ فتح کرنے کے بعد بلکہ ابتدائی فتوحات کے بعد مقامی آبادی کے غریب اور بیروزگار افراد بھی عرب فوج میں شامل ہوگئے۔ ان کے مطابق عربوں نے قدیم مراعات یافتہ طبقے کی رہنمائی میں حکومت کرنا شروع کی جس کی وجہ سے نچلی ذاتوں، طبقوں اور قبیلوں کے ساتھ پرانے روئیے کو باقی رکھا گیا۔

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ معاشرے کے نچلے طبقوں کے حقوق کا کوئی پاس نہیں کیا گیا اور اس بات کی کوئی کوشش نہیں کی گئی کہ ان پر پچھلی حکومتوں کے زمانے میں جو ذلت آمیز شرائط عائد کی گئیں تھیں انہیں ختم کرکے معاشرے میں باعزت مقام دیا جائے.

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ڈاکٹر صاحب کا کہنا صحیح ہے اور یقیناً صحیح ہی ہوگا تو پھر محمد بن قاسم فاتح تھے، جارح تھے یا اسلام پھیلانے آۓ تھے؟


لکھاری: اختر بلوچ

ضرور پڑھیں

تبصرے (12) بند ہیں

danish Mar 31, 2014 05:40pm
nice akhtar bhai ap ne kamal ke theqiq karke bohat he alla qisam ke malomat faraham ke hen... jo shayad karachi ke new generation ko bhi pata nahe ho ga lekin ab es article se malomat me izafa hua.....
sajid Mar 31, 2014 05:56pm
بے سخن
shakeel baloch Mar 31, 2014 07:20pm
بہت معلوماتی اور تاریخ سے آگائی والی تحریر ہے۔
یمین الاسلام زبیری Mar 31, 2014 08:09pm
ڈاکٹر مبارک علی صاحب کا کہا یقینا سچ ہوگا۔ بن قاسم کے آنے اور سندہ فتح کرنے کے وہی اثرات ہوئے جو انگریز کے آنے سے ہوئے۔ سندھی زبان میں عربی الفاظ شامل ہوئے، اور عربی رسم الخط آگیا۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ بن قاسم نے رئوسا اور صاحبان حیثیت کے ساتھ مل کر حکومت بنائی کچھ عجب نہیں کہ عام لوگوں پر ان حضرات کا اثر ہوتاہے اور عوام کو تابع رکھنے میں یہ اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ انگریزوں نے بھی ایسا ہی کیا تھا اور ریاستوں کے والیان ان کے خاص لوگ ہوا کرتے تھے۔ زبان کے حوالے سے بھی آج ہم فخر سے انگریزی کے الفاظ سے جڑی اردو یا سندھی بولنا عین فخر سمجھتے ہیں۔
Salman Shah Mar 31, 2014 09:46pm
Bohat khoob Akhtar sahab. Ek dafa phr tareekhi maqaamat say wabasta kirdaaroun k baray mein jaannay ka moqa mila. Is silsilay ko jaari rakhiye.
Rohail Khan Mar 31, 2014 09:47pm
Baloch sb aap k blogs k zariye Karachi mein mojoud tareekhi maqamaat k baray mein jaanay ka moqa milta hai.
Salma Shehzad Mar 31, 2014 09:53pm
Muhammad Bin Qasim ki fatoohat k baray mein tou perha aur suna tha mager un k sath kiya Janay wala sulook aaj pehli dafa perhnay ka moqa mila. Thank you Akhtar Baloch.
Wahab Hassan Mar 31, 2014 09:59pm
Mind Blowing Information Sir g. I don't think kay hamary aaj kay youngsters ko itna kuch maloom ho in Great Personalities kay bary main. I am shocked keo kay mujhy Mohammad Bin Qasim ki death history kay bary main itni information nahi thi . But when i read this blog i was thinking kay Is Azeem Shakhs ko kitni Aziat naak mout hui.. or baqi teen Azeem Hastiyan . i am sure kay in logon kay bary main buhat kam log janty hon gy. Great work Weldon .
mahmood hassan Mar 31, 2014 11:26pm
chach nama k halay se likhay jhot ki tasdeek aap ko bhi karni chahiye......dr mubarak tarekh k baray main kuch bhi naheen jantay......
Seema Maheshwary Apr 01, 2014 04:03pm
Excellent Akhter Saab, M. Bin Qasim k sath sath baki shakhisyiat par apki tahkik, boht he maloomati o dilchisap ha, mukhtaleef mazahib k logo ki apsi wabastgee, ak he jaga sa mukhtaleef andaz ma mojudgi nahyat interesting, or Bin Qasim k karnamo ko to almost janty han par unki death history k maloomat azafai rahi,, Great,,,,,,,,,,,, work sir ji
ابوبکر بلوچ Apr 02, 2014 08:36am
محترم اختر بلوچ کانیا تحقیقی مضمون پڑھ کر انتہائی مسرت ہوئی کہ آج بھی ہمارے معاشرے میں تحقیق سے لگاؤ رکھنے والے کم ہونے کے باوجود ختم نہیں ہوئے تاہم اس کمی کوبھی ہمیشہ محسوس کیاجائے گا۔ جہاں تک مضمون کی بات ہے مجھ جیسا طالب علم کہاں اس طرح کی جراءت کرسکتاہے ۔ماضی کی نسبت اس مضمون میں محترم نے تاریخ کے کئی رازوں کومنکشف کیاوہیں انہوں کئی سوالات بھی اٹھائے ہیں ۔ یقیناٍ اہل علم کو اس پربھی اپنی رائے زنی کرنی چاہئے تاکہ ہماری تاریخ کے گم کردہ دریچے پھر سے کھل سکیں ۔ تاریخ میں غلطی ہرانسان سے ہوسکتی ہےکیوں کہ غلطی وہی کرتاہے جو کام کرتاہے باقی جوکام ہی نہیں کرتا وہ صحیح یا غلط کہاں سے کریگا۔ آخری بات یہ ہےکہ ہمیں اخترصاحب کی کتاب کاانتظار ہمیشہ رہےگا کیوں کہ اس کے بغیرتشنگی ختم نہیں ہوگی۔
Riaz Ahhmed Apr 03, 2014 10:40am
Bin Qasim Sindh m loot maar krny aay thy na k Islam lany....,