صدر اوباما کی جانب سے 2014 میں افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے اعلان کے بعد سے ہی پوری دنیا اس سال کا انتظار کر رہی تھی۔

فوجی انخلا کے لئے اوباما ایڈمنسٹریشن کی جانب سے اس سال کا انتخاب شاید یہ سوچ کر کیا گیا تھا کے اس سال ہونے والے انتخابات میں افغان صدر حامد کرزئی دستوری پابندی ہونے کے سبب تیسری مرتبہ صدر منتخب نہیں ہو سکیں گے اور امریکا صدر کرزئی کے ساتھ ان کے آخری دنوں میں کئے گئے معاہدے کے تحت اپنی افواج کا کچھ حصہ افغانستان میں ہی رکھے گا۔ اس طرح نیا منتخب ہونے والا صدر اگر کوئی مسئلہ کرتا بھی ہے تو وہ ماضی میں کئے گئے معاہدوں کا پابند ہوگا۔

مگر ابھی تک افغان صدر حامد کرزئی کی جانب سے بائلیٹرل سیکیورٹی ایگریمنٹ (بی ایس اے) پر دستخط نہیں کئے گئے اور پانچ اپریل کو انتخابات ہونے جارہے ہیں۔ اس طرح امریکا اپنی بنائی ہوئی حکمت عملی اپنے ہی منتخب کروائے ہوئے افغان صدر کے ہاتھوں منوانے میں ناکام رہا ہے۔

کرزئی کا اس معاہدے پر دستخط کرنے سے متعلق یہ کہنا ہے کہ جب تک افغانستان میں انتخابات نہیں ہوتے، وہ اس معاہدے پر دستخط نہیں کریں گے۔

کرزئی شاید اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کے افغانستان امریکا کی ضرورت ہے اور امریکا خطے کی صورتحال کو مدّ نطر رکھتے ہوئے افغان صدر کا ہر مطالبہ من و عن تسلیم کر لیگا۔ لیکن۔۔۔۔۔ حقیقت اس سے بالکل الٹ ہے جناب کرزئی صاحب۔

دوسری طرف امریکا نے جب یہ دیکھا کے چیونٹی کے بھی پر نکل آئے ہیں تو اس نے موقعے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے یہ سمجھ لیا کے صدر کرزئی معاہدہ پر تب تک دستخط نہیں کریں گے جب تک انتخابات کا انعقاد نہیں ہوتا۔ لہزا امریکا نے انتخابات کے انعقاد کا مطالبہ پورا ہونے کا انتظار کرنا ہی بہتر سمجھا۔ ویسے بھی امریکا اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہے کے افغان صدر جتنے مرضی نخرے کر لیں۔ آخر کار افغانستان کو چاہتے ہوئے یا نا چاہتے ہوئے اس معاہدے پر دستخط کرنے ہی پڑیں گے۔

اگر امریکا اور افغانستان کے مابین یہ معاہدہ طے پا جاتا ہے تو پندرہ ہزار امریکی فوجی 2014 کے بعد بھی افغانستان میں ہی رہیں گے۔ افغانستان اس معاہدے پر دستخط کرنے میں اس لئے بھی تیار ہوگا کہ اس کی رو سے اگر امریکا افغانستان میں فوج کا کچھ حصہ رکھتا ہے تو افغانستان کو اس کے بدلے میں سالانہ چار بلین ڈالرز ملیں گے۔ جس کے بغیر افغان نیشنل سیکیورٹی فورسز کو پالنا ممکن نہیں۔

اسطرح افغانستان کی مجبوری یہ ہے کہ وہ امریکی ڈالرز بھی نہیں ٹھکرا سکتا اور امریکی افواج کا افغانستان سے انخلا بھی چاہتا ہے۔

شاید معاہدے پر دستخط کرنے کے لئے افغان صدر کرزئی کی جانب سے انتخابات کے انعقاد کی شرط اس لئے بھی رکھی گئی تاکہ افغانستان میں انتخابات ہوسکیں۔

اس کے علاوہ، اس شرط کے ذریعے، امریکی پِٹھو کا کردار ادا کرنے والے افغان صدر دور اقتدار کے آخر میں اپنی ماضی کی حماقتوں پر پردہ بھی ڈالنا چاہتے ہیں۔

افغان صدر کو امریکی حکومت سے یہ بھی گلا ہے کہ امریکا نے افغان صدر کو اعتماد میں لئے بغیر ہی افغان طالبان کے ساتھ مزاکرات کا سلسلہ شروع کردیا اور اپنے پرانے ساتھی یعنی جناب صدر کو اس قابل ہی نہیں سمجھا۔

آئندہ ماہ ہونے والے انتخابات میں امریکا یہ امید بھی لگائے بیٹھا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ نیا منتخب ہونے والا صدر امریکا کے ساتھ زیادہ دوستانہ ہو۔ جیسا کہ احمدی نژاد کا دور اقتدار مکمل ہونے کے بعد نئے منتخب ہونے والے ایرانی صدر حسن روحانی امریکا کے ساتھ یورینیم کی افزودگی سے متعلق بات چیت میں تیزی کے لئے باآسانی رضا مند ہوگئے تھے۔ ہو سکتا ہے کے نیا منتخب ہونے والا افغانی صدر اس معاہدے پر دستخط کرنے کے لئے ایرانی صدر کی طرح با آسانی رضا مند ہوجائے۔

ابھی تک تو انتخابات میں حصہ لینے والے تمام صدارتی امیدواروں کا کہنا ہے کہ وہ انتخابات میں منتخب ہونے کے بعد اس معاہدے پر دستخط کر دیں گے۔ چار بلین امریکی ڈالرز کی امداد کے علاوہ اس کی شاید ایک وجہ یہ بھی ہے کے تمام امیدواران کی جانب سے انتخابی سرگرمیوں پر بھاری رقم خرچ کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ امیدواروں نے سیکیورٹی دھمکیوں کے باوجود انتخابی سر گرمیوں میں خوب حصہ لیا ہے۔

ماضی میں ہونے والے افغان انتخابات میں صرف اور صرف اس بات پر توجہ دی جاتی تھی کہ لوگ بس اپنا ووٹ ڈالیں۔ نا کہ یہ کہ وہ اس لئے اپنے ووٹ کا حق استعمال کریں کے اس عمل سے ان کے ملک میں کوئی تبدیلی آئے گی۔

افغانی اور بین الاقوامی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق اس مرتبہ حالات کافی مختلف ہیں اور لوگ اس بات سے اچھی طرح آشنا ہیں کہ انتخابات ہی ان کے ملک میں کوئی بہتر تبدیلی کا سبب بن سکتے ہیں۔ اسی وجہ سے سڑکوں پر انتخابی ہلچل اور میڈیا پر صدارتی امیدواروں کے درمیان مباحثے بھی منعقد کئے جارہے ہیں۔

اس کے علاوہ ان انتخابات میں ایک بہت بڑی تعداد ایسے نئے ووٹرز کی ہوگی جو کہ پہلی دفعہ اپنا ووٹ کا حق استعمال کریں گے۔ دو ہزار نو کے انتخابات کے بعد ووٹ ڈالنے کے لئے اہل ہونے والے یہ ووٹرز اپنے ملک کی صورتحال سے تنگ آچکے ہیں اور ملک میں تبدیلی کے خواہاں ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ انتخابی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔

پانچ اپریل کو ہونے والے انتخابات میں نو صدارتی امیدوار حصہ لے رہے ہیں۔ جن میں ایک خاتون امیدوار شکریہ بارکزئی بھی شامل ہیں جنہیں انیس سو چھیانوے میں --جب طالبان نے افغانستان میں حکومت سنبھالی-- یونیورسٹی کی انتظامیہ نے نقاب نہ کرنے پر یونیورسٹی سے نکال دیا تھا۔ اور طالبان کا دور حکومت ختم ہونے پر بارکزئی نے اپنا نقاب پھینک کر جشن منایا تھا۔

اس کے علاوہ پشتون اور تاجک خاندانی تاریخ رکھنے والے عبداللہ عبداللہ بھی صدارت کے عہدے کے لئے کافی تگڑے امیدوار سمجھے جارہے ہیں۔ ماضی میں عبداللہ عبداللہ وزیر خارجہ بھی رہ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ دو ہزار نو کے انتخابات میں عبداللہ عبداللہ صدارتی انتخابات میں دوسری پوزیشن لینے میں کامیاب ہوئے تھے۔

افغانستان میں انتخابات بھی فرانسیسی طریقہ کار کے تحت ہی منعقد کئے جاتے ہیں۔ اگر کوئی بھی امیدوار پچاس فیصد سے زیادہ ووٹ لینے میں کامیاب نہیں ہوتا (جس کے انتہائی کم چانسز ہوتے ہیں)، اس صورت میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے دو امیدواروں کے درمیان انتخابی ٹاکرا ہوتا۔ جس کے بعد افغانستان کے لئے حامد کرزئی کے تاریخی دورِ اقتدار کے بعد نیا صدر منتخب کیا جائیگا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں