لاہور: صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کی ایک مقامی عدالت نے پولیس پر حملے اور توڑ پھوڑ میں ملوث نو مہینے کے ایک بچے کا نام ایف آئی آر سے خارج کردیا ہے۔

عدالت نے مقدمے کی سماعت کے دوران اس معاملے کے تفتیشی افسر کے نام شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ اس قدر کم عمر بچے کے خلاف مقدمہ درج کرکے اس معاملے کو عدالت میں نہیں لانا چاہیٔے تھا۔

نو ماہ کی عمر کے بچے موسیٰ خان پر پولیس پر حملے اور توڑ پھوڑ کا الزام عائد کرتے ہوئے مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

تفتشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ مذکورہ بچے کا نام ایف آئی آر میں سے خارج کردیا گیا ہے، جس پر اس کے وکیل نے بھی درخواستِ ضمانت واپس لے لی، تاہم عدالت نے غفلت برتنے پر تفتیشی افسر کو شوکاز نوٹس جاری کردیا۔

اُدھر موسیٰ کے وکیل اور اہلِ خانہ نے الزام عائد کیا ہے کہ کیس عدالت میں لے جانے کی وجہ سے پولیس کی جانب سے انہیں پریشان کیا گیا تھا۔

خیال رہے کہ نو ماہ کے اس بچے اور خاندان کے باقی افراد کو قتل اور اقدامِ قتل کے الزامات کے تحت مقدمے میں نامزد کیا گیا تھا۔

پولیس کی جانب سے مذکورہ بچے پر اقدامِ قتل کا مقدمہ درج کرکے اسے چار اپریل کو لاہور کی ایک مقامی عدالت کے روبرو پیش کیا گیا۔

تاہم عمر بچے کو عدالت میں ایک ملزم کے طور پر پیش کرنے پر سیشن جج نے پولیس کے اس اقدام پر سخت برہمی کا اظہار کیا تھا۔

مقدمہ کی ابتدائی تفتیش میں پولیس کی غفلت کا اعتراف کرنے کے بعد اس اہلکار کو معطل کردیا گیا تھا، جس نے بچے کی عمر جانے بغیر ہی اس کا نام ایف آئی آر میں درج کردیا تھا۔

نو سالہ موسیٰ خان نے روتے روتے ضمانت کے کاغذات پر انگوٹھا لگایا۔
نو سالہ موسیٰ خان نے روتے روتے ضمانت کے کاغذات پر انگوٹھا لگایا۔
موسیٰ خان کے وکیل نے عالمی خبررساں ادارے اے ایف پی کو بتایا تھا کہ یہ مقدمہ یکم فروری کو گیس چوری روکنے کے لیے جانے والی پولیس ٹیم پر حملے کرنے کے واقعے کے بعد درج کیا گیا۔

اپنی نوعیت کے انوکھے مقدمے میں نو ماہ کا بچہ ہاتھ میں فیڈر لیے عدالت میں اقدام قتل کے ملزم کے طور پر پیش ہوا اور پھر روتے روتے اس سے ضمانت کے کاغذات پر انگوٹھا لگوایا گیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں