فتویٰ براۓ سیکولر ازم

14 اپريل 2014
ہندوستان میں اٹھارہ کروڑ سے زائد مسلمان بستے ہیں جو ٹوٹل آبادی کا تقریبا %13.7 بنتے ہیں۔
ہندوستان میں اٹھارہ کروڑ سے زائد مسلمان بستے ہیں جو ٹوٹل آبادی کا تقریبا %13.7 بنتے ہیں۔
ملک کے چھ سو چالیس ضلعوں میں سے پینتیس میں کم از کم تیس فیصد ووٹرز مسلمان ہیں۔ اس کے علاوہ آسام، مغربی بنگال اور کیرالہ کی ایک چوتھائی آبادی مسلمان ہے۔
ملک کے چھ سو چالیس ضلعوں میں سے پینتیس میں کم از کم تیس فیصد ووٹرز مسلمان ہیں۔ اس کے علاوہ آسام، مغربی بنگال اور کیرالہ کی ایک چوتھائی آبادی مسلمان ہے۔

کہتے ہیں 'ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے'، یہ محاورہ اس وقت استعمال کیا جاتا ہے جب بوقتِ ضرورت کسی ایجاد کو ایسے کام کے لئے استعمال کیا جائے جو اس کام کے لئے تخلیق نا کی گئی ہو۔ اسطرح اس ایجاد شدہ تخلیق کا ایک اور مقصد کے لئے استعمال ایک نئی ایجاد کا سبب بنتا ہے۔

اگر انسانی زندگیوں پر اس مثال کا اطلاق کیا جائے تو اسے 'نظریہ ضرورت' کہا جاسکتا ہے۔ جس کا استعمال حالات و واقعات کو مدّنظر رکھتے ہوئے کاروبارِ زندگی کے اصولوں میں تھوڑی بہت ردو بدل کر کے ضرورت کے مطابق ڈھال کر کیا جاتا ہے۔

بات مذہب کی اور خاص کر مذہب اسلام کی ہو تو نظریہ ضرورت کا استعمال مکمل طور پر مختلف ہو جاتا ہے۔ ہر مزہب کے ہر مکتبۂ فکر، نقطۂ نظر، مسلک، فرقے وغیرہ وغیرہ کی طرح اسلام کے ٹھیکیداروں یعنی 'علماۓ دین' کے نزدیک بھی انکا 'من پسند دینِ اسلام' مکمل ہو چکا اور اب اس میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کی گنجائش نہیں۔ لہزٰا کوئی بھی عقل و شعور رکھنے والا مسلمان اپنے خلاف مرتد ہونے کے فتووں سے بچنے کے لئے کوئی بھی ایسی جسارت کرنے کی جرات نہیں کرتا اور وہ بھی ایسے ماحول میں جب بہت سے گروہوں کی جانب سے دنیا کے سب سےامن پسند مزہب کو اپنی خواہش کے مطابق بندوق کے زور پر مسلط کرنے کی کوششیں کی جارہی ہوں۔

مگر بعض اوقات حالات کسی خطے میں رہنے والی اقلیتوں کو اس بات پر مجبور کردیتے ہیں کہ وہ ماضی کے دعووں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اور وقتی طور پر نظریہ ضرورت کا استعمال کرتے ہوئے اپنے مذہبی نظریے تبدیل کریں۔

ایسے حالات میں اِن اقلیتوں کے سربراہان معاشرتی اور سیاسی حالات کے مطابق، اپنی مزہبی بصیرت و شہرت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، نظریہ ضرورت کے استعمال کا واجب حق رکھتے ہوئے اپنے پیروکاروں کو حالات کے مطابق ڈھل جانے کی تلقین کرتے ہیں۔

دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہندوستان میں آج کل انتخابات ہورہے ہیں۔ ہندوستان میں تقریبا اٹھارہ کروڑ سے زائد مسلمان بستے ہیں جو ٹوٹل آبادی کا تقریبا %13.7 بنتے ہیں۔

ملک کے چھ سو چالیس ضلعوں میں سے پینتیس میں کم از کم تیس فیصد ووٹرز مسلمان ہیں۔ اس کے علاوہ آسام، مغربی بنگال اور کیرالہ کی ایک چوتھائی آبادی مسلمان ہے۔

ساتھ ساتھ اتر پردیش، آندھرا پردیش، بہار اور مہاراشٹر میں بھی مسلمان ہونے والے انتخابات میں کلیدی رول ادا کر سکتے ہیں لیکن اتنی بڑی تعداد میں ہونے کے باوجود مسلمانوں کی اکثریت بی جے پی کی متوقع جیت سے خوفزدہ نظر آرہی ہے۔

ہندوستان کے مسلمانوں کے اِسی خوف کی وجہ سے جمعیت علما ہند کے سربراہ مولانا ارشد مدنی نے ہندوستان کے مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ "وہ سیکولرازم کے دشمن اور گنگا جمنی تہذیب کو آگ لگانے والی طاقتوں کے خلاف ووٹ دیں"۔

مولانا کا یہ بیان ایسے حالات میں سامنے آیا ہے جب انتخابات کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی کے بدنام زمانہ نریندر مودی وزیر اعظم بنتے نظر آرہے ہیں۔

انتخابات کے متواقع نتائج سے خوفزدہ مولانا ارشد مدنی کا یہ فتوی ان کی بے بسی کا اظہار بھی کرتا ہے۔ جس نے انہیں اتنا مجبور کردیا کہ انہوں نے سیکولر ازم جیسے 'غیر اخلاقی' اور 'غیر مزہبی' طرزِ مملکت کے بچاؤ کے لئے ان گنت فرقوں میں بٹے اپنے لاکھوں مریدین سے کسی "پاک" مقصد کے لئے نہیں بلکہ اس غیر مزہبی طرزِ مملکت کے بچاؤ کے لئے فتوٰی دیا۔

مولانا ارشد مدنی نے نریندر مودی یا بی جے پی کے خلاف سیدھا فتوی جاری نہیں کیا بلکہ مودی کو 'سیکولرازم کے لئے خطرہ' قرار دیتے ہوئے مسلمانوں سے مودی کے مخالفوں کو ووٹ دینے کی اپیل کی۔ اس طرح مولانا نے متوقع وزیر اعظم کی مخالفت سے بھی بچنے کی ناکام کوشش کی۔

سیکولر ازم کو سپورٹ کرنا مولانا کی مجبوری بھی ہے کیونکہ ہندوستان کے مسلمانوں اور غیر مسلموں کے مابین پاکستان سے علیحدگی کے بعد ایک معاہدہ طے پایا تھا۔ جس کے مطابق ہندوستان کے مسلم اور غیر مسلم ایک سیکولر ریاست تشکیل دیں گے اور اس معاہدے کو آئینِ ہندوستان کا حصہ بھی بنایا گیا۔ جس کے مطابق ہندوستانی مسلمان آئینِ ہندوستان کے ساتھ اپنی وفاداری قائم رکھیں گے۔

یہ فتوٰی نریندر مودی کے ماضی کے پس منظر میں سامنے آیا ہے۔ لیکن نریندر مودی کو حکومت بنانے کے لئے نا چاہتے ہوئے بھی مسلمانوں کی سپورٹ چاہیے ہی ہوگی۔ کیونکہ بی جے پی اگر انتخابات میں برتری حاصل کر بھی لیتی ہے تو بھی حکومت بنانے کے لئے اسے مسلمانوں کی نمائندہ جماعتوں کے ساتھ الحاق کرنا ہی پڑیگا اور موجودہ حالات کے مطابق تو ایسا نہیں لگ رہا کے مسلمان نمائندگی رکھنے والی جماعتیں نریندر مودی پر اعتماد کریں گی۔

اگر بی جے پی مسلمان نمائندہ جماعتوں کے بغیر ہی نریندر مودی کی سربراہی میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوتی ہے تو اس صورت میں مودی مسلمانوں کے ساتھ کیا سلوک کریں گے، اس بارے میں پیشین گوئی شاید ہندوستان کی جمہوریت کے لئے اچھی نہیں ہوگی۔

ویسے مجھ سے پوچھا جائے تو مولانا ارشد مدنی پاکستان کے مذہبی ٹھیکیداروں سے زیادہ سمجھدار نکلے کہ انہوں نے پاکستانی ٹھیکیداروں کے برعکس موقع کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے نظریہ ضرورت کے تحت ہی سہی، سیکولرازم کے بچاؤ کے لئے فتوٰی جاری کیا۔ وہ اس سچ سے اچھی طرح واقف ہیں کہ ہندوستانی مسلمان صرف اور صرف سیکولرازم طرز مملکت میں ہی ہندوستان میں رہ سکتے ہیں۔

آج پاکستان فرقہ واریت کے جس خون آشام عفریت کی گرفت میں نظر آتا ہے اسکی ہولناک تباہ کاریوں کو دیکھتے ہوئے یہ سمجھنا ذرا بھی مشکل نہیں کہ ملک اور قوم کی بقا صرف اور صرف سیکولر ازم میں ہے. دعا ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کی طرح، یہ سیدھی سی بات ہمارے مذہبی اور غیر مذہبی سیاسی اور غیر سیاسی، دیدہ و نا دیدہ …. ہر قماش کے کرتا دھرتاؤں اور 'عام آدمی' کی سمجھ میں بھی جلد آجاۓ ورنہ ڈر ہے ……………. کہیں دیر نہ ہوجاۓ۔


لکھاری: نوید نسیم

تبصرے (0) بند ہیں