نئی دہلی: ہندوستان میں پارلیمانی انتخابات کی دوڑ شروع ہونے سے قبل ہی بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) نے جیت کے لیے اپنی حکمت عملی کا اعلان کرتے ہوئے ہندوؤں کو متحد اور مسلمانوں کو تقسیم کرنے کے عمل کا آغاز کر دیا۔

لکھنو میں ہندوستان ٹائمز کی نامہ نگار سنیتا ارون نے اتوار کو شائع اپنے تجزیے میں کہا کہ اتر پردیش اور دیگر علاقوں میں مسلمانوں کے درمیان ابہام پیدا کرنے کے لیے مولانا حضرات کا اپنا حصہ بھی مقرر ہے جس سے لامحالہ انتخابات میں بی جے پی کو مدد ملے گی۔

کیا مذہبی رہنماؤں نے کچھ لو اور کچھ دو کی پالیسی اپنا لی ہے؟

سنیتا نے بتایا کہ 2008 میں دنیا کے بڑے مدارس میں سے ایک دارالعلوم دیوبند (جو عام طور پر سیاسی محاذ آرائیوں سے دور رہتا ہے) نے فتویٰ جاری کیا تھا کہ ہندوستان ایک جمہوری اور سیکولر ملک ہے اور انتخابی سیاست کو اسلامی تعلیمات کے مطابق پرکھا نہیں جا سکتا۔

فتوے میں کہا گیا تھا کہ اس سے بے چینی اور انتشار کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو گا، لوگوں کو ایسی جماعت اور رہنما کو ووٹ دینا چاہیے جو مسلمانوں اور ملک دونوں کے لیے بہتر ہو۔

یہ فتویٰ کیا کوئی شخص کسی جرائم پیشہ شخص کو ووٹ دے سکتا ہے؟ یا کیا بی جے پی کو ووٹ دینے سے وہ مسلمان نہیں رہے گا؟ جیسے کچھ سوالات کے جواب میں دیا گیا تھا۔

اسلامی تعلیمات کے لیے عالمی سطح پر مشہور لکھنؤ کے دارالعلوم ندوۃ العلما بھی انتخابات میں کسی ایک جماعت کی حمایت کرنے سے اجتناب کرتا ہے۔

تاہم ان مدارس کی غیر جانبداری سے قطع نظر دہلی کی شاہی مسجد کے امام سید احمد بخاری نے مسلمانوں کو کانگریس کے حق میں ووٹ ڈالنے پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے سیکولرزم کو تقویت ملے گی۔

انہوں نے ممتا بینرجی اور کانگریس کے حلیف لالو پرساد یادو کے لیے بھی حمایت کا اعلان کیا۔

دوسری جانب، سید بھائیوں یحییٰ بخاری کے کانگریس کو چھپے دشمن سے تعبیر کیا ہے جہاں ان کے مطابق کانگریس کے دور حکومت میں مسلمانوں کو متعدد نسلی فسادات سے گزرنا پڑا۔

اسی طرح مشہور شیعہ رہنما قلب جواد نے کانگریس کے حق ووٹ دینے کو اسلام سے غداری قرار دیا ہے۔

ہندوستانی مسلمان ایسا محسوس کرتے ہیں کہ ملا ان جماعتوں کی حمایت سے نہ صرف ان کی برادری کو تقسیم کر رہے ہیں بلکہ اس طرح ان سیاست دانوں کو مسلمانوں کو آپس میں لڑانے میں مدد ملے گی۔

علی گڑھ میں مقیم پروفیسر رضوان حسین نے ووٹ ڈالنے کے بعد اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر تحریر کیا 'مذہبی عالم ہونے کے ناطے ملا ہمارے سیاسی عالم نہیں بن سکتے۔ ہم زور دیتے ہیں کہ وہ اپنے سیاسی فتوؤں کے ذریعے مسلماںوں میں ابہام پیدا نہ کریں۔ ذاتی مفاد کے لیے مسلمانوں کے ووٹ کی نیلامی، انہیں بیچنا یا کچھ لو اور کچھ دو کی پالیسی پر عمل پیرا ہونا ہرگز تقویٰ کو ظاہر نہیں کرتا'۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح کے فتوے سے بظاہر ایسا محسوس ہوتا کہ ووٹرز میں ابہام پیدا ہو رہا ہے جبکہ فرقہ وارانہ طور پر منقسم مغربی اترپردیش سے آنے والی اطلاعات سے یہ بات درست بھی ثابت ہو گئی ہے جہاں سمجھداری سے متحد ہو کر ووٹ ڈالنے کے بجائے مسلماںوں کے ووٹوں میں انتہائی تیزی سے تقسیم دیکھی گئی ہے۔

فیس بک پر ہی ایک اور پوسٹ میں کہا گیا کہ 'میں اور نجمہ ووٹ ڈال کر بس ابھی واپس لوٹے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ یہ مودی سرکار کے لیے ریفرنڈم ووٹ ہے۔ تاہم امیدواروں کے حوالے سے سنی اور شیعہ عالموں کی جانب سے مختلف بیانات کے باعث مسلمانوں کے ووٹ تقسیم دکھائی دیتے ہیں'۔

لکھنؤ کے شیعہ کالج کے ڈپارٹمنٹ برائے قانون کے سربراہ ڈاکٹر مصطفیٰ کمال شروانی نے اتر پردیش کے لوک سبھا انتخابات کے پہلے دور میں مسلمانوں کے تقسیم شدہ ووٹ کا ذمے دار مولاناؤں کو قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ 'میرے بیشتر ہندو دوستوں نے مجھے کہا کہ بی جے پی کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار نریندرا مودی کو مولانا برادری کے ردعمل سے خاصا فائدہ پہنچا ہے'۔

حالانکہ پارلیمنٹ کی 545 سیٹوں میں سے مسلمانوں کے ووٹوں کا براہ راست اثر صرف 46 سیٹوں پر ہو گا لیکن انتخابات میں دیگر سیٹوں پر بھی ان کا خاصا اثر ورسوخ ہو گا۔

دائیں بازو کی اکثر جماعتیں مذاق اڑاتی ہیں کہ مسلمانوں کا ووٹ بینک کانگریس اور دیگر سیکولر جماعتوں کے ہاتھوں استعمال ہو جاتا ہے۔

سن 1990 کی دہائی میں کافی کچھ بدل گیا تھا جب کانشی رام اور ملائم سنگھ یادو نے شاہی مسجد کے سینئر امام عبداللہ بخاری کی عوام میں توہین کرتے ہوئے سیاست میں دخل نہ دینے کی ہدایت کی تھی۔

اس کے بعد سے ان کے بیٹے احمد بخاری کے ان دونوں سے نرم و گرم تعلقات رہے۔

زیادہ تر سیاسی جماعتیں مسلمان مذہبی رہنماؤں و شخصیات سے اچھے تعلقات کو ترجیح دیتی ہیں۔

تجربہ کار وکیل اور اتر پردیش کے ایڈیشنل ایڈووکیٹ ظفر یاب جیلانی کا ماننا ہے کہ مولاناؤں کی ہدایت پر عمل کرنے سے مسلمانوں کے ووٹوں کو کوئی خطرہ نہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ پہلا موقع نہیں وہ کسی مخصوص جماعت کی حمایت کر رہے ہیں، یہ ہر الیکشن میں ایسا ہی کرتے آئے ہیں۔

جیلانی نے مزید بتایا کہ حتیٰ کہ 2004 میں مسلمانوں کی تنظیم ملی کونسل نے کامیاب امیدوار کا پتہ لگانے کے لیے مختلف حلقوں میں سروے کیا تھا اور اسی لحاظ سے ووٹ دینے کی ہدایت کی تھی تاہم بی جے پی کے انکار کے بعد یہ عمل روک دیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں