اسلام آباد: معروف سماجی کارکن پروین رحمان کے قتل سے متعلق جوڈیشل انکوائری میں پولیس کی جانب سے مقدمے کی تفتیش کا رخ موڑنے کا انکشاف ہوا ہے اور اس کیس کی ایماندار پولیس افسران کی نگرانی میں ایک آزادانہ طریقے سے دوبارہ تفتیش کروانے کی سفارش کی گئی ہے۔

امکان ہے کہ یہ رپورٹ اُس وقت جسٹس ناصرالملک کی عدالت میں پیش کی جائی گی جب وہ انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کی جانب سے دائرہ کردہ درخواست کی سماعت کریں گے۔

خیال رہے کہ یہ رپورٹ سپریم کورٹ کے حکم پر ایک ڈسٹرکٹ اور سیشن جج کی جانب سے تیار کی گئی ہے۔

ڈان کو ملنے والی ایک ایگزیکٹو سمری کے مطابق، پولیس نے اس مقدمے کی تفتیش کا رخ موڑ دیا اور قاری بلال جس پر پروین رحمان کے قتل کا الزام عائد کیا گیا، وہ 14 مارچ کو ایک مبینہ پولیس مقابلے میں مارا گیا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس پراسرار مقابلے اور برآمد ہونے والا پستول قابلِ اعتماد نہیں، کیونکہ منگوپیر پولیس اسٹیشن کے آفیسر اشفاق حسین بلوچ کے مطابق قاری بلال کو متعدد گولیاں لگیں، لیکں انہیں یہ معلوم نہیں کہ جسم کے کن حصوں پر یہ گولیاں لگیں۔

رپورٹ کے مطابق، اس پولیس مقابلے میں کوئی بھی پولیس اہلکار زخمی نہیں ہوا۔

یاد رہے کہ اشفاق بلوچ نے قاری بلال کو ہلاک کرنے اور اس کے قبضے سے ایک پستول برآمد ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔

رپورٹ نے ان 'بلاسٹک ثبوتوں' پر بھی شک و شہبات پیدا کیے ہیں جن کی بنیاد پر قاری بلال کو پروین رحمان کے قتل میں نامزد کیا گیا، جبکہ پولیس کی جانب سے غیر مؤثر طریقے سے موقع سے برآمد ہونے والی پستول کو قاری بلال سے ملایا گیا جس کے بارے میں پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ کہ یہ اس نے قاری بلال کے پاس سے برآمد کی گئی۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ پولیس کے پاس ایسے کوئی شواہد نہیں تھے جس سے اس بات کا تعین ہو سکے کہ قاری بلال پروین رحمان کے قتل میں ملوث تھا اور مذکورہ پستول کی تصدیق کے لیے اسے بلاسٹک کے ماہرین کو بھی نہیں بھیجا گیا اور آزادانہ تفتیش کے لیے شواہد کو ہھتیار کی برآمد کے انتظار کے بغیر ہی فوری طور پر فورینزک لیبارٹری بھیجنا چاہیے تھا۔

رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ اس عمل میں تاخیر کی کوئی وجہ نہیں ہے، سوائے اس بات کہ اس مقدمے کی تفتیش کی سمت کو موڑا گیا۔

خیال رہے کہ پروین رحمان کو گزشتہ سال مارچ کی 13 تاریخ کو کراچی کے علاقے منگو پیر روڈ پر دو نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کرکے ہلاک کردیا تھا۔

مقتول سماجی کارکن کی بہن کا کہنا ہے کہ پروین نے مسلسل لینڈ اور پانی ٹینکر مافیا اور ان کی سرگرمیوں کے خلاف تفتیشی مہم جاری رکھتی تھیں۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ مافیا اس طرح سالانہ 500 ملین روپے کماتے ہیں اور کوئی ایک بھی ان کے خلاف آواز بلند نہیں کرسکتا۔

تبصرے (1) بند ہیں

Mustafa Hussain Apr 16, 2014 12:55am
رپورٹ نے ان 'بلاسٹک ثبوتوں' پر بھی شک و شہبات پیدا کیے ہیں جن کی بنیاد پر قاری بلال کو پروین رحمان کے قتل میں نامزد کیا گیا، جبکہ پولیس کی جانب سے غیر مؤثر طریقے سے موقع سے برآمد ہونے والی پستول کو قاری بلال سے ملایا گیا جس کے بارے میں پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ کہ یہ اس نے قاری بلال کے پاس سے برآمد کی گئی۔ This is not the correct Urdu. Sorry to say!