'غیر جمہوری عمل کے خلاف پیپلز پارٹی حکومت کے ساتھ ہوگی'

16 اپريل 2014
پیپلز پارٹی  کے سینیٹر فرحت اللہ بابر—فائل فوٹو۔
پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر—فائل فوٹو۔

اسلام آباد: پاکستان کی سول اور فوجی قیادت اختلافات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حزبِ اختلاف کے ایک اہم سینیٹر نے گزشتہ روز کہا کہ کسی بھی غیر جمہوری عمل کی صورت میں ان کی جماعت حکومت کی حمایت کرے گی۔

منگل کو پاکستان کے ایوانِ بالا یعنی سینیٹ میں وقفہِ سوالات کے دوران خطاب کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ ' سول اور جمہوری نظام کے غیر جمہوری قوتوں کے ہاتھوں خطرات کی صورت میں سول سوسائٹی اور جمہوریت پسند جماعتوں کو متحاد ہونا پڑے گا'۔

سول اور فوجی قیادت کے درمیان عوامی اختلافات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے سابق صدر آصف زرداری کے ترجمان فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ انہیں خدشہ ہے کہ اس تنازعہ سے سول نظام کو خطرا ہوسکتا ہے۔

ایوان کی کارروائی کے دوران حکومتی اور اپوزیشن کی نشستوں سے کسی رکن نے بھی اس اہم نوعیت کے معاملے پر بات نہیں کی۔

خیال رہے کچھ عرصے سے سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ اور سول حکومت میں نتازعیہ کی نشاندہی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے ایس ایس جی ہڈکوارٹرز میں اپنی تقریر کے دوران کی تھی۔

آرمی چیف کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں آیا تھا جب اس قبل کور کمانڈرز اجلاس میں کچھ وزراء کے حالیہ بیانات پر فوجی قیادت میں ناراضگی کا اظہار کیا گیا تھا۔

فرحت اللہ بابر کا مزید کہنا تھا کہ' وزراء کے بیانات پ فوجی درِ عمل نامناسب اور بلا جواز تھا'۔

انہوں نے کہا کہ فوجی اسٹبلشمنٹ کی جانب سے اس طرح کا عوامی درِ عمل بلاجواز ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ آرمی چیف اور کچھ سیاتدانوں کے پوسٹرز نوشہرہ کی سڑکوں پر لگائے گئے ہیں۔

انہوں نے سول اور سیاسی قوتوں سے کہا کہ 'وہ کسی بھی غیر جمہوری عمل اور اسے خطرات کی صورت میں متحد ہوں'۔

واک آؤٹ: اسی دوران پیپلز پارٹی نے پاکستان میڈیکل اور ڈینٹل کونسل کے آرڈیننس ترمیم ( 2014) کو پوشیدہ کرنے پر حکومت کی مخالفت میں ایوان کی کارروائی واک آؤٹ کیا۔

جبکہ، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے سینیٹرز نے کراچی میں اپنے کارکنوں کے مبینہ اغوا کے خلاف سینیٹ سے واک آؤٹ کیا۔

پہلے واک آؤٹ کی قیادت پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر رضا ربانی نے کی، جن کا کہنا تھا کہ پی ایم ڈی سی آر آرڈیننس 18ویں ترمیم کی روشنی میں غیر مشروط ہے۔

اے این پی کی کے راکین نے اس وقت اجلاس سے واک آؤٹ کیا جب پاڑٹی کے سربراہ شاہی سید نے یہ معاملہ اٹھایا کہ کراچی میں ان کی جماعت کے کارکنوں کا اغوا برائے تاوان کا سلسلہ جاری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک کی خفیہ ایجنسیاں سیاستدانوں کے فون تو ٹریس کرسکتی ہیں، لیکن یہ ان اغوا کاروں کو ٹریس کرنے کے قابل نہیں ہیں۔

دوسری جانب چیئرمین سینیٹ نیئر بخاری کی ہدایت پر حکومت نے قومی اسلامتی پالیسی کا مسودہ بھی ایوان میں پیش کردیا۔

یاد رہے کہ قومی اسمبلی میں کچھ مہینے قبل وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے قومی اسلامتی پالیسی کو پیش کیا تھا، تاہم اس کی سینیٹ میں غیر موجودگی پر اراکین نے اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں