واشنگٹن: ایک نئی دستاویزی فلم میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ڈرون حملے امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے نہیں بلکہ امریکی فضائیہ کے پائلٹ کرتے ہیں۔

'ڈرون' نامی اس فلم میں گزشتہ ڈاکو مینٹری کے اس دعوے کی تصدیق کی گئی ہے کہ تمام تر ٹیکنالوجی اور انسانی صلاحیتوں سے لیس ہونے کے باوجود ان حملوں میں غلطی کی گنجائش باقی ہے۔

ڈرون حملوں میں اب تک بچوں سمیت ہزاروں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

ڈاکو مینٹری میں انکشاف کیا گیا کہ ہے امریکی حکومت پاکستان میں زیادہ تر ڈرون حملوں میں مارے جانے والوں کی شناخت سے لاعلم ہے۔

'ایسے میں امریکا کی ' کِل لسٹ' میں مطلوب لوگوں کے نام شامل کیے جانے کے طریقہ کار پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے'۔

امریکی ذرائع ابلاغ کے مطابق یہ معلوم ہو جانے کے بعد کہ امریکی فضائیہ کے پائلٹ سی آئی اے کی ایما پر پاکستان میں ٹارگیٹڈ ڈرون حملے کر رہے ہیں، تاریخ کے سب سے بڑے ٹارگٹ کلنگ پروگرام کی قانونی حیثیت پر سوال کھڑے ہو جاتے ہیں۔

اس دستاویزی فلم میں پانچ سال سے جاری ڈرون پروگرام کا بغور جائزہ لیا گیا ہے اور ڈرون چلانے والوں کے انٹرویوز سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ امریکی پائلٹ لاس ویگاس سے تقریباً 75 کلو میٹر دور واقع کریچ ایئر فورس بیس سے سی آئی اے کے لیے ڈرون حملے کرتے ہیں۔

ڈرون چلانے والوں شامل ایک پائلٹ برینڈن برائنٹ نے برطانوی اخبار گارجین کو بتایا کہ اس پروگرام کے پیچھے سی آئی اے ہو سکتی ہے لیکن ان طیاروں کو اڑانے کی ذمہ داری ایئر فورس کے پاس ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ڈرون چلانے والے پائلٹ 17ویں ری کنیساں اسکواڈرن سے تعلق رکھتے ہیں۔

ڈاکو مینٹری فلم میں ایک اور سابق ڈرون آپریٹر نے بتایا کہ یہ اسکواڈرن انتہائی خفیہ ہے اور بیس پر موجود اس کے ارکان سے 'کسی تاج میں جڑے ہیرے' کی طرح برتاؤ کیا جاتا ہے۔

'یہ پائلٹ ہر ایک کے ساتھ گھلتے ملتے نہیں۔ ایک دفعہ 17ویں دستے میں شامل ہو جائیں، تو یہ ہم سے بھی دور رہتے ہیں اور صرف اپنے گروپ کے ساتھ ہی وقت گزارتے ہیں'۔

ایسا ماننا ہے کہ اس اسکواڈرن میں 30 پائلٹ ہیں جو 35 ڈرون اڑاتے ہیں اور یہ اڈے کے دیگر حصوں سے کافی الگ ہے۔

مسلح فوج کی شمولیت سے اس ٹارگٹ کلنگ پروگرام پر سنگین قانونی سوالات اٹھتے ہیں۔

برائنٹ کا مزید کہنا تھا کہ سی آئی اے کا نام تو محض ایک بہانے کے طور پر استعمال یا جاتا ہے تاکہ کسی کو معلومات فراہم نہ کرنی پڑیں۔

انہوں نے کہا کہ اس حقیقت کے پیچھے بہت بڑا جھوٹ چھپا ہےاور وہ یہ کہ اس طرح کے مشن پر ہمیشہ ایئر فورس ہی ڈرون اڑاتی ہے۔

امریکی سول لبرٹیز یونین نیشنل سیکورٹی پراجیکٹ کی ڈائریکٹر حنا شمسی نے گارجین کو بتایا کہ سی آئی اے کو ڈرون حملوں کے بجائے اپنے وسائل انٹیلی جنس تجزیوں پر خرچ کرنے چاہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ بات اکثر امریکیوں کے لیے حیران کن ہو گی کہ سی آئی اے فوج کو ایسی کارروائیوں کی ہدایت دے رہی ہے۔

ایجنسی کو بڑے پیمانے پر قتل عام کی سرپرستی کرنے کے بجائے غیر ملکی خفیہ معلومات کو اکٹھا کر کے ان پر تفصیلی غور کرنا چاہیے۔

ڈاکو مینٹری میں نشاندہی کی گئی ہے کہ ڈرون حملوں سے پاکستان میں ہونے والے شہری ہلاکتیں دونوں ملکوں کے دو طرفہ تعلقات میں بڑی رکاوٹ ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں