بلوچستان میں پاکستان نیوی کی کامیابیاں اور چیلنج

اپ ڈیٹ 16 اپريل 2014
اورماڑہ میں اسکول، ہسپتال، انڈسٹریل ہومز کا دائرہ اب گوادر اور جیوانی تک بڑھایا گیا ہے۔
اورماڑہ میں اسکول، ہسپتال، انڈسٹریل ہومز کا دائرہ اب گوادر اور جیوانی تک بڑھایا گیا ہے۔

یہاں کا راستہ سیدھی سڑکوں پرمشتمل ہے اور جہاں بنجر زمین نہیں وہاں سمندر ہے۔ زمین میں آدھے دھنسے ہوئے پتھروں پر گمان ہوتا ہے کہ یہ سنگِ میل ہیں کا قبر کے کتبے۔ اورماڑہ میں واقع جناح نیول بیس کے پاس کئ قبریں ہیں ان میں سے کچھ قبریں 22 جون 2000 سے بھی پہلے کی ہیں جب یہاں بحری اڈہ قائم ہوا تھا۔ لیکن اب یہاں ہسپتال، اسکول، کالج اور انڈسٹریل ہوم جیسی اہم عمارتیں بھی قائم ہیں۔

پی این ایس درمان جاہ ( علاج معالجے کی جگہ) میں اینٹی سیپٹک دوا کی بو رچی ہوئی ہے اور وہاں امینہ بی بی اسٹاف رکن سے کہہ رہی ہیں، ' میرے سوجے ہوئے ٹخنے دیکھو'۔ تم اب بھی توقع رکھتے ہو کہ میں پوری عمارت کا چکر لگاتی رہوں؟' کسی مہربان سماعت کا انتظار کئے بغیر وہ دوبارہ بولیں۔ ' میں منوڑہ میں پیدا ہوئی اور اس وقت پاکستان اور انڈیا کی پہلی جنگ ہوئی تھی۔ جب میں شادی کے بعد یہاں اورماڑہ آئی تو دوسری جنگ ہوئی۔ میں ایک بوڑھی عورت ہوں جس کے نو بچے اب بڑے ہوچکے ہیں اور کئی بیماریوں نے گھیر لیا ہے جن میں سے کئی اب قابو سے باہر ہیں۔ میں ذیابیطس کی مریضہ ہوں اور گردے میں پتھریاں ہیں۔ یہاں طویل راہداریوں سے گزر کر، سیڑھیاں اتر اور چڑھ کر اور ایک ماہر سے دوسرے ماہر کے کمرے تک کےچکروں نے مجھے تو مارڈالا ہے!،' وہ بڑبڑائی۔

اس عورت کو احساس نہیں کہ وہ ان خوش نصیب خواتین میں سے ایک ہے جو جے این بی کی سہولیات کے پاس رہتی ہیں۔ اورماڑہ میں بحری اڈے کے علاوہ پاکستان نیوی پورے علاقے میں کئی سہولیات دینے کا ارادہ رکھتی ہیں جن سے وہاں رہنے والےافراد کو فائدہ ہوگا۔

'درمان جاہ بلوچی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ایسی جگہ ہے جہاں علاج اور توجہ فراہم کی جاتی ہے،' لیفٹننٹ کمانڈر رضوان احمد نے بتایا جو نہ صرف اسپیشلسٹ سرجن ہیں بلکہ ہسپتال کے ایکٹنگ کمانڈنگ افسر بھی ہیں۔ ' ہمارے پاس او پی ڈی میں روزانہ 150 سے 200 افراد آتے ہیں۔ یہ مریض مقامی افراد ہیں جو اورماڑہ، پسنی اور گوادر وغیرہ سے یہاں آتے ہیں ۔ عام طور پر انہیں آنکھوں، جلد اور منہ کے امراض ہوتے ہیں کیونکہ یہاں بڑی تعداد میں گٹکا کھایا جاتا ہے۔ ہم اس کے بارے میں شعور پھیلانے کی کوشش کررہے ہیں اور آہستہ آہستہ اس کےاثرات ظاہر ہورہے یں۔ جہاں تک نیوی سے وابستہ مریضوں کا تعلق ہے تو روزانہ پندرہ سے بیس مریض یہاں آتے ہیں۔

اس کے ساتھ ہی کوسٹل کمانڈ وومین ایسوسی ایشن ( سی سی ڈبلیو اے) کا تعمیر کردہ ایک انڈسٹریل ہوم ہے جس میں بیوٹی پارلر بھی ہے اور اسے ڈھائی برس !قبل تعمیر کیا گیا تھا۔ یہ مرکز روزانہ 2.30 سے 5.30 بجے تک کھلا رہتا ہے۔ سلائی کڑھائی کرنے والی تمام خواتین یہاں نہیں آتیں کیونکہ انہوں ضروری سامان بھی فراہم کیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنی سہولت اور سکون کے لحاظ سے اپنے گھروں پر کام کرسکیں۔ اس مرکز میں خواتین ضروری ہنر سیکھنے کیلئے بھی آتی ہیں۔

کوسٹل کمانڈ وومین ایسوسی ایشن ( سی سی ڈبلیو اے) کا تعمیر کردہ ایک انڈسٹریل ہوم
کوسٹل کمانڈ وومین ایسوسی ایشن ( سی سی ڈبلیو اے) کا تعمیر کردہ ایک انڈسٹریل ہوم

اورماڑہ میں بحریہ ماڈل اسکول اور کیڈٹ کالج میں چھٹی کا وقت قریب تھا۔ طلبا و طالبات اپنے بیگ پیک کررہے تھے۔ سیاہ لباس میں دو ٹیچرز، راہداری سے گزررہی تھیں۔ ان میں سے ایک سینیئر سیکشن کی نائب پرنسپل یاسمین موسیٰ ہیں جبکہ بلور جان جونیئر سیکشن کی وائس پرنسپل ہیں۔ یہ دونوں میٹرک کے بعد اس اسکول سے وابستہ ہوئی تھیں۔

' ہم اس اسکول میں دس سال سے ہیں۔ اور سال 2004 میں میٹرک کے بعد سے اسکول جوائن کیا،' یاسمین نے کہا۔

سینیئر سیکشن کی نائب پرنسپل یاسمین موسیٰ ہیں جبکہ بلور جان جونیئر سیکشن کی وائس پرنسپل ہیں۔
سینیئر سیکشن کی نائب پرنسپل یاسمین موسیٰ ہیں جبکہ بلور جان جونیئر سیکشن کی وائس پرنسپل ہیں۔

' آج ہم دونوں ماسٹر تک تعلیم مکمل کرچکے ہیں اور ہمیں فخر ہے کہ ہم اپنے معاشرے میں تعلیم کیلئے کوئی کردار ادا کررہے ہیں۔ ہم دونوں کا تعلق اورماڑہ سے ہے لیکن انٹر کرنے کیلئے ہم پسنی گئے، گریجویشن کیلئے گوادر جانا پڑا اور ماسٹر مکمل کرنے کیلئے کوئٹہ گئے،' بلور جان نےکہا۔

' اگر بچے اس سے فائدہ اٹھانا چاہیں تو بحریہ ماڈل اسکول ایک بہترین اسکول ہے،' یہ کہتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسکول کا سب سے بڑا مسئلہ ٹرانسپورٹ ہے۔ ' تعلیم کیلئے بچوں کا یہاں آنا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ وہ بہت دور سے آتے ہیں۔ اورماڑہ شہر سے ڈھائی کلومیٹر دور ہے اور کئی بچے اس سے بھی بہت دور سے آتے ہیں۔ ہمارے پاس بہت وسائل نہیں لیکن ہم لڑکیوں اور جونیئر اسکول کے بچوں کو ٹرانسپورٹ کی سہولیات فراہم کرتے ہیں،' بلور جان نے کہا۔ ' دوسرے یا تو پیدل یہاں آتے ہیں یا پھر اپنی ٹرانسپورٹ استعمال کرتے ہیں،' انہوں نے کہا۔

۔
۔
اسکول میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں ہی پڑھتے ہیں ۔ لڑکیوں کا تناسب 60 فیصد ہے جبکہ لڑکے 40 فیصد ہیں۔

اس اسکول میں بچوں کی تعلیمی معاونت کی اسکیم بھی ہے جہاں پاکستان نیوی کے افسر، سی پی او سیلرز وغیرہ ایک بچے کے ایک سال کے اخراجات اٹھانے کیلئے کچھ رقم دیتےہیں۔ ' اس وقت 54 مقامی بچے ایسے ہیں جو اسپانسرشپ کے تحت اسکول میں پڑھ رہے ہیں لیکن یہ راز فاش نہیں کیا جاتا تاکہ ان میں احساسِ کمتری نہ پیدا نہ ہو۔

سال 2014 کیلئے کیڈٹ کالج میں کلاسوں کا افتتاح پہلے ہی ہوچکا ہے۔ اگلے سال جن طالبعلموں کا بیچ آئے گا وہ اسکول کے میٹرک کلاس سے تعلق رکھنے والے ہوں گے۔ کیڈٹ کالج کے پرنسپل، کموڈور فیاض ملک نے کہا کہ ہمارے پاس انٹرمیڈیٹ کی 25 سیٹیں ہیں اور اسکے لئے 970 درخواستیں موصول ہوئی ہیں۔ ' ہم کشمیر سے بلوچستان تک پورے ملک سے طالبعلموں کو داخلہ دیتےہیں۔ طالبعلم جانتے ہیں کہ یہاں ان سے یکساں سلوک ہوگا۔ آپ محض سیمنٹ کی عمارت بناکر تعلیمی ادارہ قائم نہیں کرسکتے۔ اس کیلئے تعلیمی کلچر، اور علمی ماحول کی ایک بنیاد ہونی چاہئے،' انہوں نے کہا۔

طالبعلم تعلیمی ادارے میں شرکت کے بعد گھر واپس جا رہے ہیں۔ فوٹو، مصنف
طالبعلم تعلیمی ادارے میں شرکت کے بعد گھر واپس جا رہے ہیں۔ فوٹو، مصنف
پاکستان نیوی اورماڑہ کیلئے جو کچھ کررہی ہے۔ وہ اپنی ان سہولیات کو صوبے کے دیگر ساحلی علاقوں تک بھی پھیلارہی ہے۔ جیوانی اور گوادر میں ماڈل اسکول،طبی سہولیات ، مفت ڈسپینسری ، انڈسٹریل ہومز کے علاوہ ایف ایم ریڈیو اسٹیشن بھی ہے۔ اگرچہ یہ تعمیرات اورماڑہ جتنی بڑی نہیں لیکن ان کی اہمیت اپنی جگہ ہے۔ ڈاکٹروں کی جانب سے مفت طبی کیمپس سال میں کم از کم تین مرتبہ لگائے جاتے ہیں۔ اب پاکستانی بحریہ ان سہولیات کو تربت اور پسنی تک فراہم کرنا چاہتی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں