جنوبی کوریا میں بحری جہاز ڈوبنے سے سینکڑوں لاپتہ

19 اپريل 2014
جنوبی کوریا میں ڈوبے والے جہاز میں افراد اور بچوں کی بحفاظت واپسی کیلئے دعا کی جارہی ہے۔ اے پی تصویر
جنوبی کوریا میں ڈوبے والے جہاز میں افراد اور بچوں کی بحفاظت واپسی کیلئے دعا کی جارہی ہے۔ اے پی تصویر
جمعرات 17 اپریل کو لی گئی اس تصویر میں جنوبی کوریا میں ریسکیو عملہ سیووال بحری جہاز کے قریب موجود ہے۔ اے پی تصویر
جمعرات 17 اپریل کو لی گئی اس تصویر میں جنوبی کوریا میں ریسکیو عملہ سیووال بحری جہاز کے قریب موجود ہے۔ اے پی تصویر

جنڈو،جنوبی کوریا: جنوبی کوریا میں دو روز قبل ڈوب جانے والی ایک جدید کشتی (فیری) کے حادثے میں سینکڑوں افراد کی ہلاکت کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔

دو روز قبل جنوبی کوریا کی اس کشتی کے کیپٹن کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ کشتی ڈوبتے وقت وہ کنٹرول پہئے پر موجود نہ تھے۔ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ 48 گھنٹوں سے زائد وقت گزرجانے کے بعد امدادی کارروائیوں سے مزید ہلاکتوں کا خدشہ ہے۔ 6,825 ٹن وزنی اس جہاز نما فیری میں لوگوں کو بچانے کیلئے 500 افراد کام کررہے ہیں لیکن موسم کی خرابی اور صفر حدِ نظر سے کام مشکل ہوتا جارہا ہے۔

حکام کے مطابق اب تک 28 افراد کی موت کی تصدیق ہوچکی ہے جبکہ 268 افراد لاپتہ ہیں جن میں سینکڑوں کی تعداد میں بچے ہیں جو ایک تفریحی جزیرے جیجو کی طرف جارہے تھے۔

اب تک ایک بھی لاش کو براہِ راست جہاز سے نہیں نکالا گیا اور تمام لاشیں پانی پر تیرتی ہوئی ملی ہیں۔ اسطرح بچ جانے والے افراد کے زندہ رہنے کا امکان کم کم ہوچکا ہے۔

' دو ڈائیور جہاز میں آکسیجن داخل کرنے میں مصروف ہیں،' کوسٹ گارڈ کے ایک آفیشل نے بتایا۔

سمندر بپھرا ہوا ہے اور اسی وجہ سے امدادی کارروائیوں میں مشکل پیش آرہی ہے۔

سیوول نامی اس جہاز میں کل 475 افراد سوار تھے جن میں سے 179 کو بچالیا گیا جبکہ بدھ سے اب تک باقی افراد میں سے کوئی بھی نہیں مل سکا ہے۔

حادثے کی جگہ پر تیرنے والی تین کرینین پہنچادی گئی ہیں۔

حادثے کے بعد پورا ملک سوگوار ہے اور خصوصاً بچوں کے والدین سخت صدمے میں ہیں۔

تفصیلات کے مطابق 352 بچے اس فیری پر سوار تھے۔

' اب تک دو دن ہوگئے ہیں اور کوئی بچہ بحال نہیں ہوسکا ہے،' ایک شخص لی یونگ گی نے کہا جس کا بیٹا جہاز میں سوار تھا۔

' مجھے یقین ہے کہ بچے زندہ ہیں۔ انہیں جلد بچانے کی ضرورت ہے لیکن آفیشلز اس سے پیچھے ہٹ رہے ہیں، ' انہوں نے کہا ۔

اس کے علاوہ بچوں کے والدین نے الزام لگایا کہ ادارے ان کے بچوں کو زندہ نکالنے کیلئے سستی اور غفلت سے کام لے رہے ہیں۔

بعض افراد نے الزام لگایا کہ حکومت اس معاملے میں ان سے جھوٹ بول رہی ہے۔

حکومت کا کہنا ہے کہ بچوں کو بچانے لئے سینکڑوں غوطہ خوروں ، کشتیوں اور ہوائی جہاز مشترکہ کام کررہے ہیں۔

دوسری جانب ملک کے پروسیکیوٹر نے کہا کہ صرف تھرڈ افسر ہی جہاز کے اسٹیئرنگ پر تھا اور کپتان کہیں گیا ہوا تھا۔

دوسری جانب کپتان نے پوری قوم سے معافی مانگی ہے اور خود کو شرمندہ قرار دیا ہے۔

ماہرین کے مطابق ڈوبتے وقت جہاز نے ایک ترچھا تنگ زاویئے کا موڑ لیا تھا۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے جہاز میں موجود دیگر بھاری سامان اور 150 گاڑیاں اس اچانک موڑ کی وجہ سے ایک طرف کو ہوئیں اور جہاز پر ایک طرف بوجھ پڑا اور اس کے بعد وہ الٹ گیا یا بے قابو ہوا تھا۔ یا شاید وہ پانی میں موجود کسی چٹان کا شے سے ٹکراگیا تھا۔

افسران کے مطابق تفتیش میں ان گنت حوالے موجود ہیں اور بعض افراد نے کپتان کو پھانسی دینے کا مطالبہ کیا ہے جس کی گرفتاری کے احکامات جاری کردیئے گئے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں