شکیل بدایونی کی برسی

20 اپريل 2014
گیت نگار شکیل بدایونی۔- بشکریہ وکی میڈیا کامنز
گیت نگار شکیل بدایونی۔- بشکریہ وکی میڈیا کامنز

متعدد پاکستانی فلموں میں گیت نگاری کرنے والے البیلے شکیل بدایونی شاعر کی 44 ویں برسی آج منائی جا رہی ہے۔

چودہویں کا چاند ہو جیسے سینکڑوں لازوال گیتوں کے خالق معروف شاعر شکیل بدایونی کی پیدائش 3 اگست 1916 کو اتر پردیش کے ضلع بدایوں میں ہوئی۔

ابتدائی تعلیم بدایوں سے حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لئے وہ 1932 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے گریجوئشن کرکے کچھ عرصہ دہلی میں سرکاری ملازم رہے۔

علی گڑھ میں زمانۂ طالبعلمی کے دوران ہی شکیل نے شاعری شروع کی اور 1944 میں بمبئی منتقل ہونے کے بعد ان کی ملاقات معروف موسیقار نوشاد سے ہوئی اور فلم 'درد' سے اپنے فلمی کریئر کا آغاز کیا۔

جس کے گیتوں نے پورے ہندوستان میں تہلکہ مچا دیا تھا، خصوصاً 'افسانہ لکھ رہی ہوں دلِ بے قرار کا' تو آج بھی لوگوں کی زبانوں پر رواں ہے۔

اس کے بعد نوشاد اور شکیل بدایونی کے اشتراک سے متعدد سپر ہٹ گیت سامنے آئے جن میں فلم 'میلہ' کا یہ زندگی کے میلے دنیا میں کم نہ ہوں گے، فلم 'دلاری' کا سہانی رات ڈھل چکی، فلم 'میرے محبوب' کا میرے محبوب تجھے، اڑن کھٹولہ کا او دور کے مسافر، سمیت بیجو باورا کا گیت او دنیا کے رکھوالے قابل ذکر ہیں۔

تاہم اس جوڑی کا سب سے نمایاں کام فلم 'مغلِ اعظم' میں سامنے آیا جس کے ہر گیت نے مقبولیت حاصل کی، خصوصاً پیار کیا تو ڈرنا کیا تو لافانی حیثیت اختیار کرگیا۔

پچاس سے ساٹھ کی دہائی تک دیگر نغمہ نگاروں کے مقابلے میں سب سے زیادہ گیت شکیل نے لکھے تھے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی سب سے زیادہ فلمی گیت لکھنے والے نغمہ نگار شکیل بدایونی ہی رہے تھے۔

چودھویں کا چاند کے ٹائٹل گیت پر 1961 میں شکیل کو پہلا فلم فئیر ایوارڈ ملا۔

اگلے سال پھر فلم 'گھرانہ' کے نغمے حسن والے تیرا جواب نہیں پر اور 1963 میں ہیٹ ٹرک کرتے ہوئے فلم 'بیس سال بعد' کے گانے کہیں دیپ جلے کہیں دل پر تیسرا فلم فئیر ایوارڈ حاصل کیا۔

جبکہ ہندوستانی حکومت نے انہیں گیت کارِ اعظم کے خطاب سے بھی نوازا۔

ایک سو سے بھی زائد فلموں میں گیت نگاری کرنے والے اس البیلے شاعر کا انتقال 20 اپریل 1970 کو بمبئی میں ہوا۔

اگرچہ آج وہ ہم میں نہیں تاہم ان کے گانوں کو سن کر لوگ اب بھی جھومنے لگتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں