آئی ٹی کی وزارت آئی ٹی ماہرین کی متحمل نہیں

اپ ڈیٹ 21 اپريل 2014
وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی انوشہ رحمان، جن کا کہنا ہے کہ ان کی وزارت کے پاس کافی فنڈز موجود نہیں ہیں۔ —. فائل فوٹو
وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی انوشہ رحمان، جن کا کہنا ہے کہ ان کی وزارت کے پاس کافی فنڈز موجود نہیں ہیں۔ —. فائل فوٹو

اسلام آباد: انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت آئی ٹی کے ماہرین کو تنخواہ پر رکھنے کی متحمل نہیں ہوسکتی، اسی لیے اس نے اسکول کے اساتذہ اور فاریسٹ کے حکام کو اپنے معاملات چلانے کے لیے بھرتی کرلیا ہے۔

اس کے علاوہ اس وزارت نے محکمانہ غفلت کے ہاتھوں تباہ ہونے والے درجنوں منصوبوں کو نظرانداز کردیا ہے۔

وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی میں آئی ٹی ماہرین کی شدید کمی ہے، اور زیادہ تر عملہ انتظامی افسران پر مشتمل ہے۔ ماضی میں وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی سے وابستہ تقریباً 100 آئی ٹی پروفیشنلز کو اس لیے جانے دیا گیا کہ یہ وزارت زیادہ عرصے تک انہیں ادائیگی کی متحمل نہیں ہوسکتی۔

اس وزارت کے کل 23 اہم افسران میں سے صرف دو، آئی ٹی ممبر عامر ملک اور ڈائریکٹر افتخار شاہ ٹیکنیکلی تعلیم یافتہ آئی ٹی پروفیشنلز ہیں۔

عامر ملک کو پاکستان سافٹ ویئر ایکسپورٹ بورڈ (پی ایس ای بی) میں بطور مینیجنگ ڈائریکٹر اضافی ذمہ داری دے دی گئی ہے، جبکہ افتخار شاہ پاکستان کمپیوٹر بیورہ (پی سی بی) میں بطور ڈائریکٹر جنرل خدمات انجام دے رہے ہیں۔

پی ایس ای بی اور پی سی بی کے ساتھ ساتھ انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹیکنالوجی ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ فنڈ بھی باضابطہ سربراہ کی تقرری کے بغیر کام کررہے ہیں۔

ہدایت اللہ بھٹانی جو درحقیقت ایک اسکول ٹیچر ہیں، وزارتِ انفارمیشن ٹیکنالوجی میں ڈیپوٹیشن پر کام کررہے ہیں، اور حال ہی میں انہیں ڈیولپمنٹ کے لیے بطور سیکشن آفیسر کا چارج بھی دے دیا گیا ہے۔

اسی طرح گھنشام داس جو دراصل ایک سندھ میں محکمہ جنگلات کے ایک آفیسر ہیں، وزارتِ انفارمیشن ٹیکنالوجی میں ڈیپوٹیشن پر ہیں، اور تاحال اسسٹنٹ چیف ڈیولپمنٹ کے عہدے پر کام کررہے ہیں۔

ایک اور افسر اسلم لاشاری جو سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس سے یہاں ڈیپوٹیشن پر آئے ہیں اور پی سی بی میں بطور ڈائریکٹر کام کررہے ہیں۔

اس کے علاوہ کم از کم 13 منصوبے، جن کے بارے میں وزارت کا خیال تھا کہ ان پر عملدارآمد میں دیگر محکموں کی مدد پڑے گی، اب معطل کردیے گئے ہیں،ا ور امکان ہے کہ فنڈ کی عدم دستیابی کی وجہ سے ان کو سردخانے میں ڈال دیا جائے گا۔

بیوروکریسی کی روایتی حیلہ سازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ تو وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اور نہ ہی اس محکمے نے جس کے ذریعے اس پر عملدرآمد ہونا تھا، اس کام کی ذمہ داری لینے کے لیے تیار نہیں ہے۔

ایسے منصوبے جو 2004ء اور 2006ء کے درمیان شروع ہوئے تھے، اور جن کے لیے پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام کی جانب سے فنڈز فراہم کیے گئے تھے، اس سال جون میں ان کی معیاد ختم ہوجائے گی۔

ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ ان منصوبوں میں اہم محکموں کے ریکارڈز کو کمپیوٹرائزڈ کرنا بھی ہے، ان محکموں میں وزارتِ داخلہ، فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے)، اسلام آباد پولیس، کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی شامل ہیں، اس کے ساتھ ساتھ وفاقی حکومت کے لیے ایک ڈیٹا سینٹر کی تشکیل اور ہاسپٹل مینجمنٹ سسٹم کی ڈیولپمنٹ بھی ان میں شامل ہیں۔

وزارتِ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے جوائنٹ سیکریٹری کی جانب سے کی جانی والی ایک انکوائری سے یہ واضح ہوا کہ یہ منصوبے اس وجہ سے ناکام ہوگئے کہ جن اداروں اور محکموں کو ان سے فائدہ پہنچنا تھا، وہ وزارتِ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ان منصوبوں کو اپنانے کے لیے تیار نہیں تھے۔

دیگر معاملات میں سافٹ ویئر ڈیولپمنٹ کی ضروریات کی غیر تسلی بخش وضاحت اور عملے کی نااہلی کی وجہ سے، خریدا جانے والا سافٹ ویئر اکثر انسٹال کرنے سے پہلے ہی غیرموزوں یا فرسودہ قرار دے دیا جاتا ہے۔

دیگر محکموں کے ساتھ کام کرتے ہوئے وزارتِ انفارمیشن ٹیکنالوجی بنیادی طور پر ہارڈویئر اور سافٹ ویئر کی خریداری کی ذمہ دار ہے۔

اس کے علاوہ محکمے کے عملے کو فراہم کردہ سامان کے استعمال کی تربیت بھی انہیں ہی دینی پڑتی ہے، اور اگر ضروری ہو تو براہِ راست اسی محکمے کے عملے کی تقرری کی جاتی ہے، جس کے ساتھ اس منصوبے پر کام کیا جارہا ہوتا ہے۔

لیکن وزارتِ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ایک اہلکار نے ڈان کو بتایا کہ وزارت کو یہ منصوبے چلانے کی توقع نہیں تھی۔ اس کی ذمہ داری مذکورہ محکمے کے ریکارڈ کو کمپیوٹرائز کرنے کی سہولت فراہم کرنا تھا۔

فراہم کیے جانے والے آئی ٹی کے سازوسامان سے میزبان محکمے لاتعلق رہتے اور کمپیوٹرز اور انسٹال کیے گئے سرور کے مناسب استعمال اور دیکھ بھال کو یقینی نہیں بناتے، جس کے نتیجے میں سامان کو نقصان پہنچ رہا ہے، یا پھر وہ چوری ہوگئے ہیں۔

اس سال جنوری میں وزارتِ انفارمیشن ٹیکنالوجی نے 13 منصوبوں کو جائزے کے لیے ایف آئی اے کے حوالے کیا تھا۔مذکورہ اہلکار کا کہنا ہے کہ اگرچہ ان منصوبوں کے بارے میں توقع تھی کہ یہ 2007ء میں مکمل ہوجائیں گے، جو افسران ان پر کام کررہے تھے، اب تک ہر سال ان کے لیے توسیع حاصل کرتے رہے تھے۔

تاہم اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ ان منصوبوں کو مقررہ وقت پر مکمل کرنے کی ذمہ داری وزارتِ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی تھی۔

وزارت کے اندرونی ذرائع کے مطابق ہر آنے والی حکومت یہ وعدہ کرتی تھی کہ وہ ’ای گورنمنٹ‘ کا طریقہ کار متعارف کرائے گی، لیکن ان منصوبوں کو مکمل کرنے کے لیے حقیقی معنوں میں کوئی کوشش نہیں کی گئی۔

لیکن انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزیر انوشہ رحمان نے اپنے پیشروؤں کو وزارتِ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی اس حالت کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ انوشہ رحمان کے مطابق وزارت کے پاس کافی فنڈ موجود نہیں ہیں۔

انوشہ رحمان جنہوں نے گزشتہ سال یہ عہدہ سنبھالا ہے، کا کہنا ہے کہ ’’یہ وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی وزارت کے ایک حصہ کے طور پر استعمال کی جارہی تھی، اور اس کو 2003ء میں علیحدہ کیا گیا تھا۔تاہم اس کو اب تک مسلسل نظرانداز کیا جاتا رہا ہے۔‘‘

اُن کا کہنا تھا کہ انہوں نے تہیّہ کرلیا تھا کہ وہ وسائل کی کمی کے باوجود اہم منصوبوں کے لیے زور دیں گی،تاکہ ٹیکس ادا کرنے والوں کی رقم کو محفوظ بنایا جاسکے۔ ’’کوئی بھی منصوبہ جو قابل عمل نہ ہوا تو اس کو بند کردیا جائے گا۔‘‘

تبصرے (0) بند ہیں