واشنگٹن: براک اوباما کی جانب سے حالیہ اعلانات اور امریکی جنگی ترجیحات و حکمت عملی میں تبدیلی کے ساتھ ہی ماہرین کا کہنا ہے کہ اب امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کی جانب سے پاکستان میں ٹارگیٹڈ ڈرون حملوں کا پروگرام مزید جاری نہ رکھتے ہوئے اسے بند کردیا جائے گا۔

واضح رہے کہ سخت قوانین، سفارتی حساسیت اور القاعدہ کے خطروں کی ساخت کی تبدیلی کے باعث امریکا نے کرسمس کے بعد سے پاکستان میں کوئی ڈرون حملہ نہیں کیا۔

امریکی حکام کا کہنا ہے کہ افغانستان سے سی آئی اے اور افواج کے انخلا کے ساتھ ہی ڈرون حملے کم ہوتے جائیں گے۔

نیو امریکا فاؤنڈیشن کے لیے انتہائی باریک بینی کے ساتھ ڈرون حملوں کا جائزہ لینے والے امریکی ماہر پیٹر برگن نے کہا کہ پاکستان میں پروگرام ظاہری طور پر ختم ہو چکا ہے۔

امریکی حکام نے باقاعدہ طور پر تو اس حوالے سے کوئی اعلان نہیں کیا لیکن رواں ہفتے امریکی صدر براک اوباما نے 2016 کے اختتام تک افغانستان سے تمام امریکی دستوں کے انخلا کا اعلان کیا تھا۔

یہ ٹارگیٹڈ حملوں کا انحصار افغانستان میں موجود امریکی اڈوں سے ملنے والی خفیہ اطلاعات اور اڑنے والے ڈرون طیاروں پر تھا جو اس وقت تک بند ہو جائیں گے۔

اوباما نے بدھ کو امریکی ملٹری اکیڈمی میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکا وقتاً فوقتاً دہشت گردوں کو ڈرون حملوں کے ذریعے نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری رکھے گا تاہم انہوں نے واضح کیا کہ اس بار ہدف پاکستان نہیں بلکہ یمن اور صومالیہ ہو گا۔

ایک امریکی آفیشل نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ امریکی مسلح ڈرون طیارے اب بھی پاکستان کے قبائلی علاقوں میں پرواز کرتے رہتے ہیں اور سی آئی اے افسران کی جانب سے شدت پسندوں کو اہداف بنانے کی فہرست کی تیاری بدستور جاری ہے تاہم گزشتہ پانچ ماہ سے کوئی میزائل فائر نہیں کیا گیا۔

امریکی آفیشل نے کہا کہ اس تبدیلی کے بہت سے اسباب ہیں جیسے پاکستان میں موجود متعدد القاعدہ رہنما مارے جا چکے ہیں اور جو باقی بچے ہیں انہیں نشانہ بنانا انتہائی مشکل ہے کیونکہ وہ موبائل کے استعمال سے احتیاط اور بچوں کے ساتھ سفر کر رہے ہیں۔

امریکی افواج کے انخلا کے ساتھ ہی ان کو تحفظ فراہم کرنے کی غرض سے شدت پسندوں کو نشانہ بنانے کی ضرورت بھی باقی نہیں رہے گی۔

طالبان قیادت اکثر ایک مقام پر جمع ہو کر امریکی افواج کے خلاف حملوں کی حکمت عملی تیار کرتے ہوئے انہیں نشانہ بناتی تھی۔

اس کے ساتھ ساتھ اب پاکستان کے قبائلی علاقے بھی ماضی کی نسبت اب القاعدہ کا گڑھ نہیں رہے، انتہا پسند دہشت گرد اب شام اور یمن منتقل ہو چکے ہیں جو جزیرہ نما عرب میں ان کا گڑھ بن چکا ہے اور امریکا نے انہیں مستقبل میں ایک بڑا خطرہ قرار دیا ہے۔

اور اب اوباما انتظامیہ سی آئی اے کی جگہ امریکی افواج کو ڈرون حملے کرنے پر زور دے رہی ہے تو قوانین کے تحت کسی بھی ملک کو دوسرے ملک کی حدود میں کارروائی کے لیے اس ملک کی اجازت درکار ہوتی ہے تو اس لحاظ سے متعدد ماہرین کا ماننا ہے اب امریکا روزانہ کی بنیادوں پر پاکستان میں ڈرون حملے نہیں کر سکے گا۔

اس معاملے پر سی آئی اے اور وائٹ ہاؤس نے ردعمل دینے سے انکار کردیا۔

جارج ڈبلیو بش انتظامیہ کی جانب سے 2008 میں شروع کیے گئے ان حملوں کے بعد یہ اب تک پاکستان میں ڈرون حملے نہ ہونے کا سب سے بڑا دورانیہ ہے جہاں ان حملوں میں اوباما دور میں تیزی آئی تھی۔

اعدادوشمار کے مطابق 2004 سے اب تک پاکستان میں 354 ڈرون حملے کیے گئے تاہم حملوں کی شدت میں 2011 میں کمی آنا شروع ہو گئی تھی اور ہر گزرتے سال کے ساتھ اس میں مسلسل کمی آرہی ہے۔

گزشتہ سال اوباما نے ڈرون حملوں کے حوالے سے انتہائی سخت قوانین کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب تک حملوں میں شہریوں کی ہلاکت کا یقینی حد تک امکان نہ ہو اس وقت تک ڈرون حملے نہ کیے جائیں۔

اس سے قبل بھی امریکی حکام کا یہ موقف رہا ہے کہ شدت پسندوں کی بڑی تعداد میں یمن اور شام منتقلی کے باعث پاکستان میں چھوٹے شدت پسندوں کو نشانہ بنانے کے لیے اس مہنگی ٹیکنالوجی کا استعمال بے سود ہے۔

یاد رہے کہ پاکستان میں ان حملوں کی شدت سے مخالفت کی جاتی رہی ہے جبکہ پاکستان نے بھی متعدد بار امریکی انتظامیہ سے ان حملوں پر احتجاج کرتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے اس قسم کے حملوں سے پاکستان میں امریکا مخالف جذبات کو تقویت مل رہی ہے۔

دو مختلف اداروں کی جانب سے کی گئی تحقیق کے مطابق 2004 سے اب تک پاکستان میں کیے گئے ڈرون حملوں میں 2 فیصد ایسے تھے جن میں بڑے شدت پسند مارے گئے۔ ان میں زیادہ تر معمولی شدت پسند یا ان سے منسلک گروہ کے ارکان مارے گئے جہاں کچھ تحقیقاتی اداروں کے مطابق ان حملوں میں شہریوں کی بھی بڑی تعداد ماری گئی ہے۔

دسمبر میں امریکا نے پاکستان سے ایک غیر رسمی معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کے تحت امریکا پاکستان میں القاعدہ کے اہم کمانڈرز کی موجودہ کے سوا دیگر کسی بھی صورت میں ڈرون حملے بند کر دے گا۔

واضح رہے کہ وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت کے اس وقت طالبان سے امن مذاکرات جاری ہیں جو حال ہی میں طالبان میں پڑنی والی پھوٹ کے باعث تعطل کا شکار ہو گئے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں