پشاور: خان سید عرف سجنا اور ملا فضل اللہ کی تحریک طالبان پاکستان کے درمیان دراڑ پیدا کرنے کی کوششیں بلاخر رنگ لے آئیں۔

خان سید نے اپنی ہچکچاہٹ پرقابو پاتے ہوئے ملک بھر میں تباہی مچا نے والے عسکریت پسند گروپ کو خیر آباد کہہ دیا۔ ایسے میں مستقبل کیا ہو گا؟

سجنا کو ٹی ٹی پی سے دور کرنے پر کام امن مذاکرات شروع ہونے سے پہلے ہی جاری تھا۔

تاہم، امیدوں کے برعکس اس دوری کے بعد جو کچھ ہوا ا س نے پاکستان میں عسکریت پسندوں کے منظر نامے کو مزید پیچیدہ اور پریشان کن بنا دیا۔

عسکریت پسند اب نظریاتی اور علاقائی طور پر منقسم ہو چکے ہیں۔جغرافائی طور پر دیکھیں تو سجنا سمیت حکومت حامی گروپ فاٹاکے جنوبی حصوں (شمالی و جنوبی وزیرستان) پر غلبہ رکھتے ہیں۔

ان جنوبی حصوں کے کمانڈر نذیر اور حافظ گل بہادر گروپوں نے پہلے ہی حکومت کے ساتھ امن معاہدے کر رکھے ہیں جبکہ پنجابی طالبان بھی حکومت کے لیے زیادہ مہلک نہیں۔

اپنے کمزور حریف گروپ شہریار محسود کو زیر کرنے اور گرد بیٹھنے کے بعد امید کی جا رہی ہے کہ سجنا بھی جلد ہی کوئی معاہدہ کر لیں گے۔

جغرافائی تقسیم کے لحاظ سے فاٹا کے شمالی حصوں پر حکومت مخالف گروہ تحریک طالبان پاکستان (باجوڑ)، ٹی ٹی پی (مہمند)، ٹی ٹی پی (سوات)، ٹی ٹی پی (اورکزئی) اور ٹی ٹی پی (پشاور ایف آر) مکمل طور پر قابض ہیں۔

نظریاتی طور پر امن کے حامی گروہوں نے مزاروں اور مشایخ کو ہدف بنانے سے گریز کر تے ہوئے کٹر عقائد وخیالات رکھنے والے اپنے سابقہ بھائیوں سے دور اختیار کرنے کی کوششیں کی ہیں۔

اس کے برعکس فاٹا کے شمالی حصوں میں سرگرم عسکریت پسند مزاروں کو بموں سے اڑانے اوردوسرے فرقوں کی شخصیات کو نشانہ بنا رہے ہیں۔

تجزیہ نگاروں کے مطابق، یہ تقسیم دیو بند اور پنج پیری مکتبہ فکر کے درمیان ہے۔

دیو بند فاٹا کے جنوبی جبکہ پنج پیری شمالی حصوں پر اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔

مبصرین کےکہنا ہے کہ نظریاتی لحاظ سے اس صورتحال کا موازنہ القاعدہ، عراق کی اسلامی ریاست اور مشرقی بحرہ روم کے درمیان جاری بحث سے کیا جا سکتا ہے، جہاں تینوں فریق ایک دوسرے پر جہاد کے اصولوں سے گمراہ ہونے کا الزام لگا رہے ہیں۔

علاقائی لحاظ سے دیکھا جائےتو 2007 میں اپنے قیام کے بعد سے ٹی ٹی پی کا ہیڈ کواٹر پہلے جنوبی اور بعد میں شمالی وزیرستان رہا ہے۔ لیکن سجنا کے راہیں الگ ہونے کے بعد ، اب ٹی ٹی پی کو اپنا جھنڈا لہرانے کے لیے نئی جگہ ڈھونڈنی ہو گی۔ لیکن وہ جگہ کہاں ہے؟ ابھی تک کسی کو کچھ آئیڈیا نہیں۔

پاکستان کے قبائلی علاقوں اور ڈیورنڈ لائن کی دوسری جانب موجود ٹی ٹی پی کی قیادت کو اپنا صدر دفتر اور شوری اجلاسوں کو افغانستان یا پھر خیبر ایجنسی کی تیراہ وادی منتقل کرنا پڑے گا۔

ایسے میں سجنا اور ان کے جنگجو ساتھی کہاں جائیں گے؟

سجنا محسود علاقے پر قبضہ چاہتے ہیں اور ایسے میں وہ حائل آخری رکاوٹ شہریار محسود گروپ کو ختم کرنے کی کوششوں میں ہیں۔

ٹی ٹی پی میں شہریار اکیلے نامور محسود کمانڈررہ گئے ہیں اور سجنا کے خلاف لڑائی میں وہ تیزی سے اپنےآدمی اور آپشنز کھوتے جا رہے ہیں۔

انہیں یا تو سجنا سے ہار ماننا پڑی گی یا پھر بے رحم قبائلی حقیقت کا سامنا کرتے ہوئے فنا ہونا پڑے گا۔

سجنا کے ٹی ٹی پی سے بغاوت کے بعد اب پاکستان کو تین متوازی جنگجو قیادتوں سے نمٹنا ہو گا۔

ایک: جنوبی وزیرستان کے بے جوڑ محسود کمانڈر سجنا، جن کے پاس سب سے زیادہ جنونا فوج ہے۔

دوئم:شمالی وزیرستان کے سب سے بااثر کمانڈرحافظ گل بہادر۔

سوئم: سب سے بے رحم اور اعلانیہ حکومت مخالف عبدالولی عرف خالد خراسانی،جو بہت تیزی سے ملا فضل اللہ کی جگہ ٹی ٹی پی کے متبادل کمانڈر بنتے جا رہے ہیں۔

سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کے نقطہ نگاہ سےخراسانی حکیم اللہ محسود کے نعم البدل ہیں۔ پشاور، اسلام آباد اور کراچی سمیت پورے ملک میں پھیلے اپنے وسیع نیٹ ورک کے حامل خراسانی دوسرے سخت گیر گروہوں کی مدد سے آج پاکستان کے لیے سب سے خطرناک گروپ بنا ہوا ہے۔

اب کوششیں کی جا رہی ہیں کہ کسی طرح وانا میں بہاؤالدین کی قیادت میں سجنا، گل بہادر اور کمانڈر نذیر گروپ کے درمیان اتحاد قائم کیا جا سکے۔

خیال ہے کہ سجنا پہلے ہی گل بہادر کو پیغام بھیج چکے ہیں کہ دونوں مل کر شمالی وزیرستان کو حکومت مخالف غیر ملکی اور مقامی جنگجوؤں سے پاک کریں تاکہ علاقے میں ممکنہ فوجی آپریشن سے بچا جا سکے۔

سجنا کی مشکل یہ ہے کہ ان کے پاس سب سے زیادہ غیر ملکی جنگجو موجود ہیں، لیکن وہ پاکستانی معاملات میں پڑنے کے بجائے افغانستان میں غیر ملکی فوجوں سے مقابلے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔

اسی طرح، اس علاقے میں حاجی شیر محمد کا بھی اثر و رسوخ ہے۔ شیر محمد تاریخی برٹش مخالف جنگجو مرزا علی خان کے پوتے ہیں۔

معلوم ہوا ہے کہ میران شاہ اور میر علی میں ٹی ٹی پی اور غیر ملکی جنگجوؤں، جن میں زیادہ تر ازبک ہیں، کو کہا جائے گا کہ وہ مقامی قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے پر امن زندگی گزاریں یا پھرعلاقے سے چلے جائیں۔

میر علی اور میران شاہ میں فضائی بمباری پہلے ہی مفید ثابت ہوئی ہے۔

مقامیوں کا کہنا ہے کہ میران شاہ اور میر علی میں موجود زیادہ تر غیر ملکی جنگجو شمالی وزیرستان کے علاقوں دتہ خیل اور شوال، لوئر کرم، اپر اورکزئی یا پھر تیراہ وادی کے انتہائی گھنے جنگلوں میں چلے گئے ہیں۔

میر علی میں اب اکیلی اسلامی تحریک ازبکستان رہ گئی ہے جس نے ابھی تک علاقے چھوڑنے کا کوئی عندیہ نہیں دیا۔

حالیہ بمباری کے بعد میر علی میں لوگوں نے اپنے مکانوں پر پاکستان پرچم لہرانا شروع کر دیئے ہیں تاکہ آئندہ کسی فضائی کاررائی میں محفوظ رہ سکیں۔ ان کے اس اقدام پر آئی ایم یو نے ردعمل پر مبنی بیان جاری کرتے ہوئے جواباً سیاہ جھنڈے لہرانے کا اعلان کر دیا۔

آئی ایم یو کے ان اقدامات کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ وہ علاقہ چھوڑنے کے موڈ میں ہرگز نہیں۔

دوسری جانب، اگر حکومتی دعووں کی کوئی بنیاد ہے تو ایسا لگتا ہے کہ ملک میں دہشت گردی کرنے کے لیے ازبک جنگجو خراسانی سے مل چکے ہیں۔

ایسے میں ایک بڑا سوال یہ ہے کہ کیا حکومت شمالی وزیرستان میں فوجی ایکشن کا حکم دے گی؟ پہلے ہی واشنگٹن کا دباؤ کم تھا جو اب بیجنگ بھی ان ملکوں کی فہرست میں آن کھڑا ہوا ہے جو وزیرستان کی محفوظ جنت سے ان کے سرحدوں کے اندر حملوں میں ملوث گروپوں کے خلاف کارروائی چاہتے ہیں۔

میران شاہ اور میر علی میں کارروائی کے لیے مناسب تعداد میں سیکورٹی اہلکار اور اثاثے تعینات کر دیئے گئے ہیں، اور کچھ سینئر حکام کے مطابق فوجی سطح پر کارروائی کا اصولی فیصلہ ہو چکا ہے اور اب صرف سیاسی قیادت کے سیٹی بجانے کی دیر ہے۔

لیکن دو ایسے محرکات ہیں جو کارروائی میں حائل ہو سکتے ہیں۔ ایک، رواں مہینے کے آخر میں تیزی سے آتا رمضان کا مہینہ اور رمضان سے پہلے اتنا وقت نہیں بچا کہ کارروائی مکمل کی جا سکے۔

اگر آئندہ کچھ دنوں میں کارروائی شروع نہیں ہوتی تو امکانات ہیں کہ پھر عید گزرنے کا انتظار کیا جا سکتا ہے۔یہ بھی اس صورت میں کہ اگر دہشت گردی جاری رہتی ہے اور امن بات چیت کے عمل کو دوبارہ بحال نہیں کیا جاتا۔

دوسرا محرک یہ کہ پشاور کے ملٹری کمانڈر پہلے ہی شیر محمد کی قیادت میں ایک جرگے کو پندرہ روز کا ٹائم دے چکے ہیں تاکہ وہ گل بہادر کو شمالی وزیرستان سے غیر ملکی جنگجوؤں کو باہر نکالنے پر راضی کر لیں۔

اس صورت میں بھی حکومت کو کم از کم اکیس جون تک انتظار کرنا ہو گا۔

ایک سینئر سیکورٹی افسر کے مطابق: اگر کوئی ایسا موقع ہے جب فوجی آپریشن کے لیے حالات موضوں ہوں، جب عسکریت پسند تتر بتر اور کمزور ہوں اور جب عوامی تائید بھی حاصل ہو تو وہ موقع آج اور ابھی ہے۔

'اگر ہم ردعمل کے بارے میں تشویش کا شکار ہیں تو پھر ایسے میں دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں یا تو ہم آہستہ آہستہ موت کے منہ میں چلے جائیں یا پھر اٹھیں اور کام تمام کر دیں'۔

'پہلے بھی ہم نے مواقع گنوا ئے لیکن اس مرتبہ ہم ایسا کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے'۔

لیکن سوال یہ ہے کہ آیا وزیر اعظم نواز شریف ایکشن میں آئیں گے یا پھرحسب معمول ٹال مٹول سے کام لیں گے؟

تبصرے (0) بند ہیں