ایسے ہندوستانی شائقین جو کبھی نہ ختم ہونے والے سوپ ڈراموں کو دیکھ کر بیزار ہوچکے تھے، کے لیے اچھی خبر یہ ہے کہ 23 جون سے ہندوستانی ٹیلیویژن میں ایک نئے سنگ میل کا آغاز ہوگیا ہے۔

پیر کے زور زی انٹرٹینمینٹ انٹرپرائزز لمیٹیڈ (زیل) نے اپنے چینیل پر زندگی کے نام سے ٹاپ پاکستانی ڈراموں کے سلسلے کا آغاز کیا، اس موقع پر ہندوستانی شہروں کو بڑے ہورڈنگز سے سجایا گیا۔

زیل کے خصوصی پراجیکٹ زندگی کی چیف کریٹیو ہیڈ شیلجا کجریوال کے مطابق ہندوستان کا سب سے بڑے ٹیلیویژن نیٹ ورک گزشتہ کچھ عرصے کے دوران اپنے پروگرامز میں انقلابی تبدیلیاں لایا ہے۔

ممبئی سے ٹیلیفون پر بات کرتے ہوئے شیلجا اس پراجیکٹ کو ملنے والی کامیابی پر کافی پرجوش نظر آئی۔

ان کے بقول 'ممبئی میں زی کے دفاتر کے عملے نے بھی اپنے پسندیدہ پاکستانی اسٹارز کو کمپیوٹرز کے ڈیسک ٹاپ وال پیپرز کی حیثیت سے سجا رکھا ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ مائرہ خان، فواد خان، صنم سعید، عمران عباس، صبا قمر، حمزہ علی عباسی اور صنم بلوچ سمیت متعدد پاکستانی اداکار ہندوستانی نوجوانوں کے دلوں میں بستے ہیں۔

شیلجا کجریوال ہندوستانی ٹیلیویژن انڈسٹری میں کافی معروف ہیں اور وہ زی میں آنے سے پہلے 1998ءسے 2007ءتک اسٹار انڈیا پرائیویٹ لمیٹیڈ جبکہ 2008ءسے 2010ءتک این ڈی ٹی وی امیجن سے منسلک رہ چکی ہیں۔ ان کی انگلیاں ہندوستانی ناظرین کی نبض پر رہتی ہیں۔

شیلجا جب ایک براڈکاسٹر تھیں جب سے تفریحی پر مبنی پروگرامز ان کی توجہ کا مرکز رہے ہیں اور وہ نوے کی دہائی سے پاکستانی ڈراموں میں دلچسپی لیتی رہی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ 'میرا ماننا ہے کہ میڈیا خاص طور پر ٹیلیویژن لوگوں کو قریب لانے اور ثقافتی ترقی کیلئے بڑا کردار ادا کرسکتا ہے، اس کا ثبوت بالی وڈ ہے، جس کی رسائی برسوں سے پاکستانی ناظرین تک ہے اور دونوں ممالک کے عوام کے درمیان ایک مضبوط تعلق قائم ہوچکا ہے۔

انکا مزید کہنا تھا کہ 'دونوں اقوام رکاوٹوں کے پیچھے زندگی گزار رہی ہی اور ان سے پیچھا چھڑانے کی خواہشمند ہیں۔ ہماری ثقافتی یکسانیت اسی طرح زندگی گزارنے کو ناممکن بناتی ہے، خاص طور پر گلوبلائزیشن کے دور میں اس طرح کی رکاوٹیں قائم رکھنا ناممکن ہے۔ ہندوستانی ناظرین گزشتہ 65 سال سے کسی قسم کے پاکستانی پروگرامز سے محروم ہیں، ہمیں دونوں اطراف کے مرکزی ٹی وی چینیلز میں صرف تکلیف دہ خبریں ہی نظر آتی ہیں، تو آرٹ کے ذریعے اس طرح کی حکومتی حد بندیوں سے نکلنا ہی بہترین طریقہ کار ہے'۔

نوے کی دہائی میں بھی انھوں نے اس حوالے سے ایک کوشش کی تھی، شیلجا کو یاد ہے کہ انھوں نے حسینہ معین اور مرینہ خان سے رابطہ کرکے ایک فیملی ڈرامے تنہائی پر کام شروع کیا تھا، تاہم بدقسمتی سے وہ سیاسی صورتحال کا شکار ہوگئیں۔ ان کے بقول ' کسی کو تو پہلا قدم بڑھانا تھا اور زیل کے ایم ڈی و سی ای او پونیت گوئنکا کی سرپرستی کے بغیر ممکن نہیں تھا، جو دنیا کو اپنا خاندان قرار دیتے ہیں۔

اسی کی دہائی کے دوران پی ٹی وی کے ڈراموں جیسے تنہائیاں اور دھوپ کنارے نے ہندوستانی ڈراموں پر گہرے اثرات مرتب کئے تھے۔ شیلجا کجریوال کو اس دور کو یاد کرتی ہیں کہ 'ہم ان ڈراموں کو ویڈیو ٹیپس کے ذریعے دیکھتے تھے، مگر وقت گزرنے کے ساتھ یہ رجحان اپنی موت آپ مرگیا، اور 2000ءکے بعد سے میں پاکستانی ڈراموں کو یوٹیوب پر دیکھ رہی ہوں۔

شیلجا کو پاکستان کے پرانے اسٹارز میں حسینہ معین، فرحت اشتیاق، فائزہ افتخار، ثمینہ پیرزادہ اور عمیرہ احمد پسند ہیں، جبکہ نئے ٹیلینٹ میں ان کا انتخاب صنم سعید اور مائرہ خان ہیں۔

ان کے مطابق ' میں عمیرہ احمد کے نالوں کی شروع سے ہی پرستار ہوں، اور یہ بات حقیقت ہے کہ ہندوستانی معاشرے میں بھی ان کے متعدد ماننے والے موجود ہیں'۔

زندگی پراجیکٹ کے تحت پاکستانی چینیلز اور پروڈکشن ہاﺅسز سے دو سو ڈرامے لئے گئے ہیں، یہ ڈرامے ابتدائی تحقیق کے بعد طے کردہ اصولوں کے مطابق خریدے گئے،ادھر یہ حال ہے کہ پاکستانی میڈیا گزشتہ دو برسوں سے ترک اور اسپینش ڈرامے نشر کرنے میں مصروف ہے۔

پاکستان اور ہندوستان کی سیاسی راہ داریوں میں بھی زندگی کو پذیرائی ملی ہے، ہندوستان کے حالیہ دورے کے دوران زیل کے چیئرمین سبھاش چندرا کی جانب سے زندگی پراجیکٹ کے آغاز کے طور پر وزیراعظم نواز شریف کو گلدستہ پیش کیا گیا۔

شیلجا کے مطابق اس پراجیکٹ کے تحت زندگی گلزار ہے، عون زارا، مات، کاش میں تیری بیٹی نہ ہوتی، یہ شادی نہیں ہوسکتی، درشہوار اور شہرذات سمیت دیگر ڈرامے نشر کئے جائیں گے۔

تبصرے (1) بند ہیں

راضیہ سید Jun 26, 2014 11:49am
یہ تو خوش آئند خبر ہے کہ ہمارے ملک کے ڈرامے اب پڑوسی ملک میں اپنی مارکیٹ بنا رہے ہیں ، اب اس سب میں بہت سی باتیں ہیں ، پہلی تو یہ انڈیا کے لوگوں کا پاکستانی ڈراموں کو پسند کرنا ایک طرح سے اس بات کی دلیل ہے کہ وہ کم ازکم اس فیلڈ میں پاکستان کے ٹیلنٹ کو مانتے ہیں اور ہندوستانی بھی اب سوپ دیکھ دیکھ کر تھک گئے وہی ساس بہوئووں کے روایتی جھگڑے ، وہی کسی بہت غریب سی لڑکی کو ایک امیر باس سے شادی ہو جانا ، دنیا حقیقت پر مبنی ہے لوگ کیوں حسینہ معین ، ڈاکٹر انور سجاد ، اشفاق احمد امجد اسلام امجد کے ڈرامے پسند کرتے تھے کیونکہ ان کو اس میں اپنے گھر کی کہانی اپنی اقدار نظر آتی تھیں یہ نہیں کہ آپ سرے سے دوپٹہ ہی اتار دیں ، میں یہ نہیں کہہ رہی کہ نئے لکھنے والے اچھے نہیں لیکن زی ٹی وی والوں کو یہ بھی سوچنا ہو گا کہ کو ن سے ڈرامے ڈرامائی تشکیل پاسکتے ہیں ، کیونکہ بہت سے افسانے ، ناول پڑھنے میں بہت دلفریب محسوس ہوتے ہیں دوسری جانب اگر ان کی ڈرامائی تشکیل کی جائے تو تحریر کا حسن بھی ختم ہو جاتا ہے ۔ اسکے ساتھ بیک گرائنڈ میوزک آجکل ڈراموں کی ایک ضرورت بن چکا ہے اس کو بھی مد نظر رکھیں ایک وقت وہ بھی تھا جب دھوپ کنارے دیکھنے کے لئے انڈیا کی گلیاں بھی سونی ہو جاتی تھیں ، پاکستانی لکھاریوں کو منفرد کام کرنا ہے ، گھسے پٹے موضوعات نہیں لکھنے تو ہی ترکی جسیے ڈرامے کم جگہ لیں گے اور ہمارے ڈرامے انڈیا تو کیا دینا بھر میں مقبولیت کی سند حاصل کر لیں گے ۔۔۔۔۔