اسلام آباد: ڈی جی آئی ایس پی آر میجرجنرل عاصم سلیم باجوہ کا کہنا ہے کہ شمالی وزیرستان میں جاری فوجی آپریشن میں حقانی نیٹ ورک سمیت تمام دہشت گردوں اور ریاستی بالادستی تسلیم نہ کرنے والوں کے خلاف بلا تفریق کارروائی کی جائے گی۔

ڈان نیوز کے مطابق آپریشن ضرب عضب پر بریفنگ کے دوران میجرجنرل عاصم سلیم باجوہ نے بتایا کہ پندرہ سے پچیس جون کے درمیان شمالی وزیرستان میں تین سو ستائیس دہشتگردوں کو ہلاک اور پینتالیس ٹھہکانوں کو تباہ کر دیا گیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ چوبیس دہشتگرد فرار ہوتے ہوئے گرفتار جبکہ دس جوان ہلاک ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ سات دہشتگردوں نے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔

ان کاکہنا تھا کہ شمالی وزیرستان میں حقانی نیٹ ورک سمیت تمام دہشتگردوں کے خلاف بلاتفریق کارروائی کی جائے گی۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ شمالی وزیرستان آپریشن کے حوالے سے عرصہ دراز سے بحث جاری تھی، ممکن ہے چند دہشتگرد شمالی وزیرستان سے نکل گئے ہوں لیکن اب تک کی معلومات کے مطابق شمالی وزیرستان میں ازبک اور چیچن جنگجو موجود ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ طالبان دہشتگردوں کے خلاف شمالی وزیرستان میں گھیرا تنگ کیا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آپریشن ضرب عضب کی کامیابی سے ملک میں دہشتگردی کا خاتمہ ہوگا کیونکہ یہ ملک کی بقا کی جنگ ہے تاہم ابھی تک شمالی وزیرستان میں زمینی آپریشن شروع نہیں کیا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ افغان قیادت سے طالبان کے ٹھکانوں کو تباہ کرنے کی درخواست کی تھی مگر افغانستان کی طرف سے تاحال کوئی مثبت جواب نہیں ملا۔


بڑے پیمانے پر نقلِ مکانی


علاقے میں جاری فوجی آپریشن کے باعث اب تک تقریباً ساڑھے چار لاکھ افراد پاکستان کے مختلف علاقوں اور پڑوسی ملک افغانستان نقل مکانی کر چکے ہیں جو موجودہ سالوں میں پاکستان کے کسی بھی علاقے سے نقل مکانی کرنے والوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔

آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری بیان میں مزید کہا گیا کہ شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والے چار لاکھ 54 ہزار 207 (36 ہزار 514 خاندان) افراد کی سیدگئی چیک پوسٹ پر رجسٹریشن کی جاچکی ہے۔

بیان میں کہا گیا ان افراد میں راشن کی تقسیم کے لیے چھ مراکز قائم کیے گئے ہیں جن میں تین بنوں، دو ڈیرہ اسماعیل خان اور ایک ضلع ٹانک میں قائم کیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ رواں مہینے آٹھ جون کو کراچی کے جناح انٹر نیشنل ائیرپورٹ پر ہونے والے دہشت گرد حملے کے ایک ہفتے بعد پاکستانی فوج نے شمالی وزیرستان میں مقامی اور غیر ملکی شدت پسندوں کے خلاف ایک بھرپور آپریشن کا آغاز کیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

Ali Tahir Jun 26, 2014 09:40pm
ڈان! آپ لوگوں کو فوجی کے جنگ میں کام آجانے پر انہیں "شہید"لکھتے ہوئے شرم آتی ہے کیا جو آپ "ہلاک"لکھ کے اپنی ذمےداری پوری کر بیٹھتےہیں. جواب ضرور دیں کیونکہ کئی سالوں سے چلی آرہی آپکی اس روایت کی وجہ جانناچاہتاہوں میں.
اعجاز اعوان Jun 26, 2014 09:43pm
ہمیشہ سے روایت رہی ہے کہ جس علاقے میں بغاوت ہو جائے ، حکمران اس علاقے پر خاص توجہ دیتے تھے ۔ فوج کی اس علاقے پر لشکر کشی کے دوران خود بھی اس علاقے کے قریب تر رہنا پسند کرتے ۔ تاکہ اس علاقے کے عوام جان لیں کہ ان کے حکمرانوں نے ایسے موقع پر انہیں تنہا نہیں چھوڑا ۔ موجودہ حالات میں پاکستان فوج نے شمالی وزیرستان میں کاروائی شروع کی ہوئی ہے تاکہ اس علاقے کو دھشت گردوں خاص طور سے بیرونی ممالک سے آئے ھوئے دھشت گردوں کو اس علاقے سے نکالا جا سکے ۔ پاک فوج کی اس کاروائی کے دوران تیس ھزار سے زیادہ خاندانوں کو اپنا علاقہ چھوڑنا پڑا ھے ۔ جن کو حکومت کی طرف سے کچھ زیادہ مدد نہیں مل سکی ۔ اگر صوبہ خیبر پٰختونخواہ کی حکومت عارضی طور پر اپنا ھیڈ کوارٹر میرانشاہ میں منتقل کر لے اور کچھ عرصہ کے لئے صوبائی وزیر اعلی اپنی تمام کابینہ کے ھمراہ اسی علاقے میں قیام کریں تو اس سے علاقے کے عوام کا حکومت پاکستان پر اعتماد بحال ہو گا ۔ اور علاقے کی تعمیر و ترقی کے لئے صوبائی حکومت بہتر اقدامات کر سکے گی ۔ اس کے علاوہ فوج کی حوصلہ افزائی بھی ہو گئی کہ دھشت گردی کی اس جنگ میں وہ تنہا نہیں ۔