وہ بچپن جو مجھ سے چھن گیا

اس رپورٹ میں بچپن میں بدسلوکی (چائلڈ ابیوز) کا شکار ہونے والی خاتون دو دہائیوں تک اپنے اوپر ہونے والے ظلم کو بیان کر رہی ہیں۔ ان کا نام جان بوجھ کو ظاہر نہیں کیا جا رہا ہے

وہ خاتون جس نے مجھے جنم دیا ، ماں بننے کے لیے تیار نہیں تھی، میری اولین یادوں میں وہ آواز اب بھی تازہ ہے جس میں وہ میری موجودگی پر مجھے لعنت ملامت کررہی ہوتی تھی۔

اس وقت جب میں چھوٹی بچی تھی تو مجھے لگتا تھا کہ میری پیدائش اس خاتون کو اس لیے بری لگتی ہے کیونکہ میں لڑکا نہیں۔

میں اس خاتون اور اس کے شوہر کو اپنے والدین قرار نہیں دے سکتی کیونکہ انھوں نے میرے ساتھ جو کیا وہ ایک ماں یا باپ کسی کے ساتھ نہیں کرسکتے، اور میں انہیں ان افراد میں شامل سمجھتی ہوں جو اچھی ماں یا باپ کی طرح پرورش کے خیال کی توہین کے مرتکب سمجھے جاسکتے ہیں۔

اس وقت جب میں اتنی بڑی ہوگئی کہ حالات کو سمجھ سکوں ، اور یہ 2012ءسے پہلے کی بات ہے جب میں نے اس خاتون اور اس کے شوہر کی زندگی سے نکلی نہیں تھی، وہ بار بار مجھے بتاتی تھی کہ جب ہسپتال میں ڈاکٹروں نے لڑکی کی پیدائش کا بتایا تو وہ رو پڑی تھی، لیکن اس کے ساتھ وہ مزید کہتی تھی کہ اس نے اس چیز کو اپنے خیال پر حاوی نہیں ہونے دیا اور مجھے ایک بیٹے کی طرح پالا۔ آج جب میں 30 سال کی ہوچکی ہوں میں اب تک سمجھ نہیں سکی کہ اس بات کا مطلب کیا تھا۔

ہم لوگ اس وقت ایک دوسرے ملک منتقل ہوگئے تھے جب میں ڈھائی سال کی تھی اور وہ وہاں اپنے شوہر کے ساتھ رہنے لگی۔

اس وقت سے مجھے ستانے کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا اور مجھے بتایا گیا کہ جب ہم ائیرپورٹ پہنچے تو میں اس مرد کو پہچان نہیں سکی اور جب اس خاتون نے مجھے اپنے شوہر کو دینے کی کوشش کی تو میں چیخنے چلانے لگی۔ اس چیز نے اس شخص کا دل توڑ دیا اور پھر وہ مجھ سے کبھی بیٹی کا رشتہ قائم نہیں کرسکا۔

۔

میری اس شخص کے بارے میں سب سے پہلی یاد وہ ہے جب میں ایک بیڈ کے نیچے چھپی رو رہی تھی اور دیوار کی جانب جانے کی کوشش کررہی تھی، جبکہ وہ غصے بھرے چہرے کے ساتھ گالیاں بک رہا تھا اور مجھے پکڑ کر باہر نکالنے کی کوشش کررہا تھا۔

باہر کے افراد کی نظر سے یہ حالات چھپے ہوئے تھے، لوگوں کے سامنے میں ایک چھوٹی گڑیا کی طرح اچھے لباس میں ہوتی تھی، میری پوری الماری کپڑوں سے بھری ہوئی تھی، ہر لباس کے ساتھ میچنگ جرابیں، جوتے اور ٹوپیاں تھیں، جبکہ مجھے اچھا کھلایا پلایا جاتا تھا۔

ظاہری حلیہ ہمیشہ ان دونوں کے لیے بہت اہم محسوس ہوتا تھا۔ حالیہ عرصے میں نفسیاتی تھراپی کے دوران میں نے اس کی وجہ کو سمجھا کہ ان کے لیے اپنے مظالم کو چھپانا اس وقت تک ممکن نہیں تھا جب تک وہ لوگوں کو سال کے بہترین والدین کی شکل میں نظر نہ آئیں۔

جب میں نے اسکول جانا شروع کیا، تو اس خاتون کی دیوانگی حقیقی معنوں میں بڑھنے لگی، میں ایک اسمارٹ بچی تھی، میں خیالات اور تصورات کو جلد سمجھ لیتی تھی اور تعلیمی میدان میں اچھی کارکردگی دکھا رہی تھی۔ وہ اس سے چڑتی تھی اور سب کامیابیوں کا سہرہ اپنے سر باندھ لیتی تھی، جس نے میری زندگی کو مزید قابل رحم بنادیا۔

میری ہر بہترین کارکردگی کا کریڈٹ اسے مل جاتا تھا، اور وہ کہتی تھی " اگر وہ میرے ساتھ نہ ہوتی تو ہر چیز کا الزام اس کے نازک کندھوں پر آتا"۔

بیماری اور کمزوری کسی بھی تعلیمی ٹیسٹ کو نہ دینے کے لیے جواز نہیں سمجھے جاتے، اور صرف ٹیسٹ ہی نہیں لیے جاتے بلکہ ان کا تجزیہ بھی کیا جاتا۔ اگر میں شدید بخار سے کپکپا بھی رہی ہوتی تو بھی وہ مجھے کھینچ کر اسکول لے جاتی ، میرے ٹیسٹ لئے جاتے اور اگر میں پورے نمبر نہ لے پاتی تو مجھے ملامت کا سامنا بھی کرنا پڑتا۔ (مجھے مناسب طریقے سے ویکسینیشن کورس بھی نہیں کرایا گیا، اسی لئے مجھے اپنے پورے بچپن میں جسمانی طور پر خراب صحت کا سامنا کرنا پڑا، ٹانسلز سے لیکر ملیریا، چکن پوکس، خسرہ اور چہرے کے لقوہ سمیت ہر قسم کی بیماری نے مجھے اپنا شکار بنایا)۔

یہ تو میرے حوالے سے اس کی دیوانگی کا ایک پہلو تھا، اگر سب کا ذکر کیا جائے تو مجھے پوری کتاب لکھنا پڑجائے گی۔

دوسری جانب اس کا شوہر بھی اپنا تمام غصہ مجھ پر نکالتا، جبکہ لوگوں کے سامنے ہمیشہ ایک اچھا باپ بننے کی اداکاری کرتا۔

۔

اس تمام تناﺅ کے باعث میں بچپن سے ہی اپنے ناخن اور اس کے ارگرد کی جلد چبانے کی عادت میں مبتلا ہوگئی تھی۔

وہ خاتون اس سے بہت دہشت زدہ ہوتی تھی کیونکہ اس سے اس کی شخصیت کا تاثر خراب ہوتا تھا۔ وہ مجھے زبردستی نہلانے لے جاتی اور میرے سر پر شیمپو ڈالنے کے بعد، جس کے باعث میں اپنی آنکھیں کھول نہیں پاتی تھی، وہ میرے ناخن اور کھال کا معائنہ کرتی اور پھر خوفناک مرحلہ شروع ہو جاتا، میرے پورے جسم پر مکوں کی بارش شروع ہوجاتی اور لگتا تھا کہ جیسے ہر جگہ بیک وقت مار پڑ رہی ہے۔

یہ مکے کئی بار میری آنکھوں میں بھی لگتے، جس سے مجھے ستارے نظر آنے لگتے۔ اگر میں اپنی آنکھیں کھول کر دیکھنے کی کوشش کرتی کہ اب کہاں مار پڑنے والی ہے تو شیمپو سے آنکھوں کی تکلیف مزید بڑھ جاتی۔ یہی وجہ ہے میں اکثر ایک گیند کی طرح لوٹ پوٹ ہوتی رہتی اور طوفان کے گزرنے کا انتظار کرتی رہتی۔

کئی بار میں رونے اور چلانے لگتی جس سے اس کا غصہ مزید بڑھ جاتا۔ کئی بار ایسا بھی ہوتا میں خاموشی سے اس طوفان کے تھمنے کا انتظار کرتی اور یہ چیز بھی اسے مزید مشتعل کردیتی۔ میں کبھی نہیں جان پاتی کہ اس دن میرے ساتھ کیا ہوگا۔

اس وقت کے بعد سے اب تک میں کبھی بھی ماضی کے ان واقعات کے اثر سے نکل کر شاور نہیں لے سکی، میں اب جانسنز بے بی شیمپو استعمال کرتی ہوں تاکہ کم از کم اپنی آنکھیں تو کھلی رکھ سکوں۔

جسمانی کے علاوہ نہانے کا وقت ذہنی تشدد بھی ہوتا تھا اور اس میں اضافہ ہی ہوتا رہتا تھا۔ وہ مجھے اس خیال سے سجاتی سنوارتی کہ کیونکہ وہ مجھ سے محبت کرتی ہے، اور جو مائیں ایسا نہیں کرتی وہ سست اور غفلت برتتی ہیں اور اپنے بچوں سے زیادہ محبت نہیں کرتیں۔

یہ سلسلہ اس وقت تک چلتا رہا جب تک میں نے جوابی مقابلہ شروع نہیں کردیا، اس وقت میں پندرہ سال کی ہوچکی تھی، میں نہیں جانتی کہ کس بات نے مجھ میں اس سے لڑنے کی ہمت پیدا کی، اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ میرا سوچنا تھا کہ مجھے مظالم کا سامنا ہے، درحقیقت مجھے حالیہ دنوں تک اس کا احساس نہیں ہوا تھا۔ ایک دن بس مجھے لگا کہ بہت ہوگیا اور میں نے اسے روک دیا، تاہم میں اس کی وجہ نہیں جانتی۔

میں بہت کم عمری میں ہی آزادی یا نجات کی امید کھو چکی تھی، ایک دن جب میں چوتھی جماعت میں تھی، اس خاتون نے میرے ناخن چبانے پر ایک بار پھر غصے کا اظہار کیا، اس کے شوہر نے مجھے نظم و ضبط سیکھانے کے لیے اسے چھڑی دلائی تھی۔ غصے میں اس نے چھڑی اٹھائی اور میرے پورے جسم پر برسانے لگی، میرا سر، کندھے، گردن، کمر، ٹانگیں اور بازو سب اس کا نشانہ بننے لگے، جب میں مار سے بچنے کے لیے بھاگی تو اس کا غصہ مزید بڑھ گیا اور وہ مجھے زیادہ زور سے مارنے لگی۔ میں زمین پر گیند کی لوٹ پوٹ ہوتی رہی اور یہ سلسلہ رکنے کی دعا کرتی رہی۔

مگر ایسا نہیں ہوا۔

تو میں نے اپنا تھوڑا سا غصہ نکالنے کے لیے چیخ کر کہا کہ اگر اس نے یہ سلسلہ جاری رکھا تو میں ایک دن گھر سے بھاگ جاﺅں گی اور کسی کو معلوم نہیں ہوسکے گا کہ میں کہاں چلی گئی ہوں۔ مگر اس چیز نے مار کی شدت مزید بڑھا دی، تو میں نے کہنا شروع کردیا کہ میں اپنے آپ کو مار لوں گی اور پھر اسے افسوس ہوگا۔

اس چیز سے بھی حالات بدتر ہوگئے۔

پھر وہ چھڑی میری کمر پر ٹوٹ گئی تو اس نے دونوں حصے اٹھا کر برسانا شروع کردیئے۔ جب وہ ٹکڑے بھی ٹوٹ گئے تو اس نے ان چاروں ٹکڑوں میں سے سب سے بڑا ٹکڑا اٹھایا اور مجھے مارنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ جب وہ بھی ٹوٹ گیا تو اس نے ایک پلاسٹک کا کپڑے ٹانگنے والا موٹا ہینگر ڈھونڈ لیا اور مارنا جاری رکھا۔ میں دیکھ سکتی تھی کہ وہ بری طرح ہانب رہی ہے مگر وہ اس وقت تک نہیں رکی جب تک ہینگر بھی ٹوٹ نہیں گیا اور شکر ہے کہ اس کا ہاتھ زخمی ہوگیا۔

اس دن مجھے احساس ہوا کہ وہ خاتون اپنے ہوش و حواس کھو چکی ہے، اس خیال نے مجھے یعنی ایک آٹھ سالہ بچی کو دہشت زدہ کرکے رکھ دیا، جن جگہوں پر مجھے چوٹیں لگی تھیں وہ گہرے جامنی رنگ کی ہوگئیں جن میں سے بیشتر میرے ہاتھوں میں تھیں۔

اگلے روز اس نے مجھے اسکول بھیجا اور ہدایت کی کہ انہیں چھپا کر رکھوں، مجھے یہ سن کر غصہ چڑھا اور اس وقت مجھے احساس ہوا کہ وہ مکمل طور پر پاگل ہوچکی ہے اور میں وہاں سے نکلنا چاہتی ہوں۔ تو اسکول جاکر میں نے اپنی آستینیں چڑھا لیں جس سے وہ گہری جامنی چوٹیں پوری طرح نظر آنے لگی اور توقع کرنے لگی کہ کوئی بڑا فرد انہیں دیکھ کر مجھ سے پوچھے گا اور میری مدد کرے گا۔

میری کلاس کی ٹیچر جنھیں میں بہت چاہتی تھی اور جن کے بارے میں میرا خیال تھا کہ وہ بھی میرے لئے ایسے ہی جذبات رکھتی ہیں، نے انہیں دیکھ لیا۔

انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ یہ کیا ہوا ہے، میں نے بتایا کہ میری ماں نے یہ سب کیا ہے۔ اس وقت میری کلاس ٹیچر، جو ایک بالغ فرد ہونے کی حیثیت سے میری مدد کرسکتی تھیں، نے اپنا چہرہ دوسری طرف موڑ لیا اور کہا کہ میں آستینیں نیچے کرکے بٹن لگالوں۔ اس روز میری دنیا میں ایک دھماکہ سا ہوا ور وہ تاریک ہوکر رہ گئی، مجھے محسوس ہونے لگا کہ میں ہمیشہ کے لیے پھنس کر رہ گئی ہوں۔

بڑا ہونے پر میں نے ایک سابق بوائے فرینڈ کو سب کچھ بتانے کی کوشش کی تو اس نے مجھے بولنے سے روک دیا اور کہا کہ وہ میری ماں کا احترام کرتا ہے،میں اس کے بارے میں ایسی باتیں نہ کروں، جبکہ وہ تو بہت اچھی ہیں۔

وہ اس خاتون سے ملا تھا اور اس نے ہر شخص کی طرح اس کے سامنے اپنی روشن، خیال کرنے والی اور محبت سے سرشار ماں کی شخصیت کو پیش کیا، یہاں تک کہ اس نے ترس کھا کر فرضی آنسو بھی بہا کر دکھائے، تو اس لڑکے نے مجھے کچھ بھی بولنے سے روک دیا گیا اور میں پھنس کر رہ گئی۔

یہ میرا مسئلہ تھا، میں جھوٹی نہیں تھی اور میں نہیں چاہتی تھی کہ اکثر لوگ مجھے جھوٹی کہیں۔

اس کے شوہر کے ہاتھوں مجھے ستانے کی سب سے واضح یاد وہ تھی، جو میں کبھی نہیں بھول سکتی۔ اس وقت میں پندرہ یا سولہ سال کی تھی اور اسکول کی تعطیلات تھیں۔ وہ خاتون اور میں صبح نو سے دس بجے تک سوتے تھے، جبکہ وہ شخص جلدی اٹھ جاتا تھا، اپنا ناشتہ بناتا تھا اور کام پر چلا جاتا تھا۔

ایسے ہی ایک روز میری آنکھ کھل گئی۔

میں نے دیکھا کہ وہ میرے مخصوص اعضاءپر پاتھ پھیر رہا ہے، اس وقت میرا دل جیسے روک سا گیا، مجھے سمجھ نہیں آیا کہ وہ کیا کررہا ہے اور میں دہشت زدہ ہوگئی جس پر اس نے کہا " سب کچھ ٹھیک ہے بیٹا دوبارہ سو جاﺅ"۔

میں نے ان دونوں کے ہاتھوں جنسی استحصال کی دیگر یادوں کو دبا دیا تھا (یہ یادیں 2012ءکے بعد پھر سے ابھرنے لگی تھیں)۔

ان دونوں کی جانب سے ستائے جانے کے ساتھ ساتھ مجھے بچوں کی بے حرمتی کرنے والوں کے ہاتھ بھی فروخت کیا گیا۔ مجھے کوئی اندازہ نہیں تھا کہ کس طرح میں کسی جنسی طور پر منتقل ہوجانے والے امراض یا ایس ٹی ڈی ایس سے بچ سکی۔

جب میں بچی تھی تو مجھے کچھ معمولی نوعیت کے ایس ٹی ڈی ایس امراض کا سامنا ہوا، مجھے ڈاکٹروں کے پاس لے جایا گیا اور ان احمقوں نے بھی اسے سنجیدگی سے نہیں لیا۔

کیا یہ بات عام ہے کہ ایک دس سالہ بچی کو ہسپتال لایا جائے جو واضح طور پر جنسی امراض کا شکار ہے؟ کیا یہ ان کے لیے عام بات ہے؟ آخر انھوں نے کوئی سوالات کیوں نہیں پوچھے؟ آخر کیوں انھوں نے اس معاملے سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو آگاہ کیوں نہیں کیا؟ کیا پاکستان میں ایسا تصور نہیں کہ ایکشن لیا جائے، مگر انھوں نے کچھ بھی نہیں کیا۔ وہ ایسی بچی کے لیے کچھ کرنے میں ناکام رہے جسے مدد کی بہت زیادہ ضرورت تھی۔

دسمبر 2011ءمیں جب میں اٹھائیس سال کی تھی تو میں گھر سے بھاگ کھڑی ہوئی اور پھر کبھی واپس نہیں گئی۔ میں اس وقت اپنے منگیتر (جو اب میرے شوہر ہیں) کے پاس چلی گئی اور دودہائیوں کے بعد پہلی بار سکون سے سونے لگی۔

اپریل، مئی 2012ء میں میری جنسی استحصال کی دبی ہوئی یادیں ابھرنے لگیں اور میری زندگی تقسیم ہوکر رہ گئی۔

مجھے جسمانی، نفسیاتی اور جذباتی مظالم یاد آگئے اور میں انہیں یہ سوچ کر دبانے لگی کہ مجھے پاگل والدین ملے تھے۔ اس شخص کی میرے بدن پر پاتھ پھیرنے کی یاد ہمیشہ میرے دماغ میں چھپی رہتی مگر میں اسے واپس دبانے کی کوشش کرتی رہتی تھی۔

پھر ان تمام یادوں نے باہر نکلنے کا راستہ ڈھونڈ لیا، یہ بالکل ایسے ڈیم جیسا تھا جو ٹوٹ جائے اور میں اس میں ڈوب جاﺅں۔ وہ پہلا شخص جسے میں نے سب کچھ بتایا وہ میرے شریک حیات ہیں، وہ بہت اچھے اور غیرمعمولی شخص ہیں، وہ میرا اس وقت خیال رکھتے جب میں آنسوﺅں کے سیلاب میں بہہ جاتی ہوں اور خود کو روک نہیں پاتی۔

وہ مجھے کہتے اور باربار اسے دوہراتے کہ اب میں محفوظ ہوں، اب کوئی بھی مجھے نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ میں نے بعد میں اس بات کو جانا کہ انہیں کوئی اندازہ نہیں تھا کہ ان حالات میں کیا کرنا چاہئے، ماسوائے یہ کہ مجھے تعاون کی ضرورت ہے اور وہ ہرممکن حد تک اپنی بہترین کوشش کرتے ہیں۔

SOURCE UNICEF
SOURCE UNICEF

اس زمانے کے دوران میرا ذہن خودکشی کی جانب مائل ہوگیا تھا۔

مجھے جہاں تک یاد ہے میں شروع سے ہی خودکشی کی ذہنیت رکھتی تھی، مگر اس خاص وقت کے دوران یہ خیالات زیادہ متحرک ہوگئے۔

میں مسلسل نفسیاتی وارڈز میں آتی جاتی رہی مگر کوئی بہتری نظر نہیں آئی۔ میں ایسی دنیا میں نہیں رہنا چاہتی تھی جہاں میرے اپنے والدین نے میرے ساتھ یہ سب سلوک کیا۔ والدین تو بچوں کے محافظ سمجھے جاتے ہیں، تو پھر میرے ساتھ کیا غلط ہوا؟ آخر انھوں نے ایسا سب کیوں کیا؟ کیا میں محبت کے قابل نہیں تھی؟

میرے شریک حیات مسلسل مجھے یاد دلاتے رہتے ہیں کہ یہ بات درست نہیں، وہ مجھ سے محبت کرتے ہیں اور میرے دیگر دوست بھی۔

ان سب نے ہم دونوں کے گرد اس ایک حفاظتی گھیرا قائم کردیا۔ وہ ہر طریقے سے ہماری مدد کرتے، کچھ مالی طور پر مددگار ثابت ہوئے، کچھ نے ماہرین نفسیات سے رابطہ کرایا جبکہ کچھ نے بیرون شہر ڈاکٹروں کے معائنے کو ممکن بنانے کے لیے رہائشی سہولیات فراہم کرنے میں ہمارے ساتھ تعاون کیا۔

ان سب کے لیے میرے اندر شکرگزاری موجود ہے کیونکہ انھوں نے میری زندگی اس وقت بچائی جب میں خود اس کا خاتمہ کرنا چاہتی تھی۔

اس وقت میں اس خواہش کا اظہار کرتی تھی کہ میں اس خاتون سے بات کرنا چاہتی ہو جس نے مجھے جنم دیا۔ میں اسے بتانا چاہتی تھی کہ اس نے جو کچھ کیا ہے وہ کتنا غلط ہے، اسے اس پر افسوس ہونا چاہئے اور اسے اب حقیقی والدین کی طرح میرا خیال رکھنا چاہئے۔

میرے شوہر نے میرے چھوٹے بہن کو ای میل کرکے پوچھا کہ کیا اس معاملے میں ان لوگوں سے رابطہ کرنا چاہئے جنھوں نے مجھے جنم دیا۔ میری چھوٹی بہن، جسے میں بہت پسند اور اپنے بچوں کی طرح چاہتی تھی، نے اپنے جواب میں مجھے جھوٹا اور برے کردار کی عورت قرار دیا اور کہا کہ وہ ایسے معاملات میں نہیں پڑنا چاہتی جس کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔

میرے حیرت زدہ شوہر نے پھر مجھے جنم دینے والی خاتون سے رابطہ کیا اور اسے میری خودکشی کی کوششوں سمیت سب حالات کے بارے میں بتایا۔ انھوں نے کہا کہ مجھے اس وقت اپنے والدین کی ضرورت ہے، تو اس خاتون کا جواب میں کہا اچھا اور پھر کال بیک کرنے کا کہا۔

پندرہ منٹ بعد اس نے فون کرکے کہا کہ وہ اور اس کے شوہر نے اس معاملے پر بات کی ہے اور پولیس کو میری خودکشی کی کوششوں سے آگاہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے" تاکہ اگر یہ مرجائے تو ہمارے اوپر کوئی بات نہ آئے"۔

میرے شوہر نے بالکل وہی جواب دیا جو وہ خاتون اور اس کا شوہر چاہتے تھے کہ اب وہ ہم سے کوئی رابطہ نہ کریں اور فون رکھ دیا۔

نفسیاتی تھراپی سے مجھے اس بارے میں تصور کرنے میں مدد ملی اور یہ سمجھ آیا کہ میرے ساتھ کیا ہوا اور اب یہ آگاہی مجھے آگے بڑھنے میں مدد فراہم کررہی ہے۔

میرے اندر دوہری شخصیت کے عارضے کی شناخت ہوئی اور اب میں اس پر قابو پانا سیکھ رہی ہوں۔ ہم تمام یادوں کو جمع کرکے ان میں ترمیم کی کوشش کررہے ہیں۔ مجھے اس راہ پر ابھی بہت چلنا ہے مگر بہتری بہت تیزی سے واضح ہورہی ہے اور یہ علامات کافی خوش آئند ہیں۔

برے واقعات پیش آتے رہتے ہیں مگر میں انہیں اپنی زندگی پر اثر انداز ہونے کی اجازت نہیں دے سکتی۔

مجھے مظالم سے پاک زندگی گزارنے کا حق ہے، ایسی زندگی جو میں اپنے مطابق گزار سکوں اور اس غیرمنصفانہ بوجھ سے نجات حاصل کرسکوں جس سے مجھے ذہنی طور پر غیرمستحکم افراد نے باندھ دیا ہے جنھیں کسی بچے کی پیدائش کا حق نہیں ہونا چاہئے تھا۔


پاکستان میں بچوں سے جنسی زیادتی کےرپورٹ والے واقعات


`

Create Infographics
`


`

Create Infographics
`


جنسی تشدد کا شکار ہونیوالے بچوں کی عمریں


`

Create Infographics
`



ریسرچ: ماہنور شیرازی

ویڈیوگرافر: کرٹ منیزیز

ماسٹ ہیڈ اور انفوگرافکس: شامین خان

خصوصی شکریہ: تیمور سکندر، ماہنورباری، ثناء ملک، گل نایانی