انتہائی باصلاحیت نوجوانوں، جاوید میاں داد کو بطور قائد سراہا نہ جانا اور ریورس سوئنگ کے کرکٹ پر انقلابی اثرات برطانوی مصنف پیٹر اوبرائن کی نئی کتاب "وُنڈڈ ٹائیگر: اے ہسٹری آف کرکٹ ان پاکستان" کے چند اہم موضوعات میں سے ایک ہیں۔

وُنڈڈ ٹائیگر ایک ڈرامہ تھا جو میلبورن میں 1992ءکے ورلڈکپ کے فائنل سے قبل عمران خان کی جانب سے گھبرائے ہوئے شیر جیسے خطاب پر مبنی تھا، جس کا مقصد چیزوں کو واضح کرنا اور اس دنیا کی گہرائی تک جانا تھا جہاں کرکٹ کو قومی شناخت کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔

پاکستان کرکٹ کا موجودہ عہد اس کتاب کا موضوع ہے جس میں ماضی سے لے کر اب تک کی تاریخ کا احاطہ کیا گیا ہے ، تاہم اس پورے سفر میں وُنڈڈ ٹائیگر اپنے قارئین کو یہ یاد دلاتی رہتی ہے کہ ان افراد میں وہ جادو تھا جو میدان میں کچھ بھی کروا سکتا تھا۔

اوبرائن جو ڈیلی ٹیلیگراف کے چیف سیاسی تجزیہ کار ہیں، کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کرکٹ کے بارے میں اکثر غلط ہاتھ لکھتے ہیں، ایسے افراد جو پاکستان کو پسند نہیں کرتے، وہ اپنے تعصب کی بناء پر پاکستانیوں پر شک کرتے ہیں۔

یہ مصنف اس سے پہلے باسیل ڈاولیوریا پر ایوارڈ یافتہ سوانح حیات "کرکٹ اینڈ کانسپیرسی : دی ان ٹولڈ اسٹوری" سمیت کئی کتابیں تحریر کرچکے ہیں۔

انھوں نے اپنی کتاب کا آغاز اس بات سے کیا ہے کہ کس طرح ہندوستانی مصنفین رام چندرا گواہا اور سشی تھرور نے پاکستان کرکٹ کے بعد اپنی کتابوں میں کس حد تک گمراہ کن حقائق بیان کئے تھے۔

انھوں نے مزید اضافہ کیا کہ انگلش کرکٹرز کی سوانح حیات پر پاکستانی عوام کی جانب سے کافی گرم جوشی کا اظہار کیا جاتا ہے اور انگریز صحافیوں کو اسی جذبے کی پیروی کرنی چاہئے۔

اوبرائن کا اصرار تھا کہ کچھ پاکستانی کرکٹرز کو مضحکہ خیز انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔

ان کے بقول "جاوید میاں داد ایک بدمعاش، عمران خان کو روایتی نوابی انداز کا شہزادہ اور اے ایچ کاردار کو معتصب قرار دیا جاتا ہے جبکہ اس میں کوئی حقیقت نہیں"۔

وُنڈڈ ٹائیگر نہ صرف ان عظیم شخصیات کی حقیقی تصویر پیش کی گئی ہے بلکہ اس میں پاکستان کی خوبصورتی کو سراہا گیا ہے جس نے ہمیشہ اچھا ٹیلنٹ پیش کیا، ریکارڈ بریکنگ نوجوانوں کے ڈیبیو سے لے کر سرپرائز کردینے کی صلاحیت پاکستان کو سب سے منفرد بناتی ہے۔

اوبرائن اس منفرد صلاحیت کا تذکرہ پاکستان کے 1954ءکے دورہ انگلینڈ کے بارے میں لکھتے ہوئے کرتے ہیں، یہ وہ دورہ تھا جس نے سبز پرچم لہرانے والے کھلاڑیوں کو مستقبل میں عظمت کے راستے پر ڈال دیا تھا۔

اوبرائن لکھتے ہیں " اوول میں پاکستان چوتھا ٹیسٹ انتہائی مایوس کن صورتحال میں کھیل رہا تھا، کاردار کی کپتانی داﺅ پر لگی تھی، کیمپ میں اختلاف رائے تھا، پریس مذاق اڑا رہا تھا اور پاکستان کی بطور ٹیسٹ ملک کی حیثیت پر سوالات اٹھ رہے تھے، ان حالات میں بیشتر ٹیمیں گر کر ٹوٹ جاتی ہیں مگر ان میں کاردار کی قیادت میں موجود پاکستانیوں کو شامل نہیں کیا جاسکتا، فضل محمود نے کاردار پر دباﺅ ڈالا کہ وہ بیان جاری کریں کہ پاکستان اوول ٹیسٹ جیت کر دکھائے گا"۔

اوبرائن کی کتاب کا اختتام پاکستان کی کرکٹ دنیا میں تنہائی پر ہوتا ہے مگر اہم پیغام یہ ہے کہ مصباح الحق کی ٹیم کا مستقبل روشن اور خوشیاں ان کی منتظر ہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

Masroor Jul 20, 2014 09:21pm
Sounds like a good book, definitely worth reading.