قومی شناختی کارڈ اور گونگا مصلّی -- 1

19 جولائ 2014
گاؤں واپسی کے سفر میں وہ اسی کے سحر میں کھویا رہا۔ زندگی میں پہلی بار کسی حسینہ نے اُس سے یوں ہنس کر بات کی تھی۔ -- السٹریشن -- خدا بخش ابرو
گاؤں واپسی کے سفر میں وہ اسی کے سحر میں کھویا رہا۔ زندگی میں پہلی بار کسی حسینہ نے اُس سے یوں ہنس کر بات کی تھی۔ -- السٹریشن -- خدا بخش ابرو

یہ اس کہانی کا پہلا حصّہ ہے


برگد کے گھنے پیڑ کے نیچے گاؤں کے کچھ گرمی کے ستائے ہوئے لوگ، لڑکے بالے، بڑے بوڑھے، بچے حتی کہ جانور تک پناہ لیے بیٹھے تھے۔ صرف ایک نوعمر لڑکا دھوپ میں کھڑا تھا اور وہ بھی پگڈنڈی کے کنارے لگے نلکے پر نہا رہا تھا۔

برگد کے نیچے چارپائیوں پر بیٹھے اور لیٹے لوگ حقہ پینے سے بھی بیزار تھے لیکن ان میں ایک بوڑھا ایسا تھا جو مسلسل حقے کے کش لیے جا رہا تھا اور کھانسے جا رہا تھا۔ اس نوعمر لڑکے اور بوڑھے میں انفرادیت کے علاوہ ایک اور قدر مشترک تھی کہ وہ گاؤں کے مصلّی اور رشتے میں دادا پوتا تھے۔

"اوئے مانک، تو آج پھر لائلپور نہیں گیا؟"

بوڑھے اللہ یار مصلّی نے کھانستے ہوئے، نلکے پر نہاتے ہوئے اپنے پوتے سے پوچھا.

"کیا کرنا ہے اس گرمی میں فیصل آباد کے دھکے کھا کر، میں نے نہیں بنوانا شناختی کارڈ"، سیاہ توانا جسم والے نوجوان مانک نے اپنی تہمد درست کرتے ہوئے درشتی سے کہا اور سر جھٹکا جس سے پانی کے قطرے چھینٹوں کی صورت میں غائب سے ہو گئے۔

"اوئے کھوتے دے پترا، تجھے کیوں سمجھ نہیں آتی، الیکشن آنے والے ہیں، حاجی صاحب کہہ رہے ہیں اپنے اپنے شناختی کارڈ بنوا لو، سارا گاؤں چوہدری محمد شفیع کو ووٹ دے رہا ہے۔"

بوڑھے اللہ یار نے پوتے سے کہا اور کن انکھیوں سے ادھر ادھر بیٹھے چند نوجوان دیہاتیوں کو دیکھا، جنہیں شاید وہ بتانا چاہ رہا تھا کہ وہ بھی چوہدری شفیع محمد کو ووٹ دینے والے ہیں۔

"دھت تیرے کی! میں نے نئیں ووٹ دینے اس گنجے مادر جات کو"۔

مانک نے اپنا غسل مکمل کر کے نلکے سے اٹھ کر آتے ہوئے کہا۔

"منظور پتر!" بوڑھے نے اپنے پوتے کی بات نظرانداز کر کے پاس بیٹھے ایک نوجوان کو مخاطب کیا۔ "منظور پتر، تو شہر جاتا ہے، کالج پڑھنے۔ اس مورکھ کو سمجھا کہ شناختی کارڈ کے کیا فائدے ہیں، اسے کل ساتھ لے جانا لائلپور۔ اس کا کارڈ بنوا دے، تیری بڑی مہربانی ہو گی۔

بوڑھے شخص کے سیاہ چہرے پر اتنی جھریاں پڑ چکی تھیں کہ چہرے کے تاثرات تک سمجھ نہ آ سکے تھے لیکن اس کی آواز میں جو التجا اور خوشامد تھی، وہ نوجوان طالب علم کو سمجھ آ گئی۔

"ہاں بابا، لے جاؤں گا، آپ اسے راضی تو کر لیں، میں کیا اسے گھسیٹ کر لے جاؤں؟!"

سانولی رنگت کے منظور لوہار نامی نوجوان نے بوڑھے کے قریب ہو کر اونچی آواز میں کہا۔ اسے اندازہ تھا کہ بابا اللہ یار زرا اونچا سنتا تھا۔ اس کے بعد دیر تک مانک ہمیشہ کی طرح ہیر گاتا رہا، لوگ داد دیتے رہے اور اللہ یار کھانستا رہا۔

شام ہوئی تو اللہ یار مصلّی کے گھر پھر وہی بحث چھڑ گئی۔ مانک کا کہنا کہ وہ لائلپور نہیں جائے گا، اور اس کے دادا کا کوسنا؛

"اوئے مورکھ کی اولاد، ساری دنیا جاتی ہے لائلپور۔ نہیں مر جائے گا ایک دن شہر جا کر۔ پھر شناختی کارڈ ہے، سو جگہوں پہ کام آئے گا۔"

بوڑھا اپنی جھلنگا چارپائی پر بیٹھا کھانسے جا رہا تھا اور کج بحثوں کی طرح ایک ہی بات الفاظ بدل بدل کر سنائے جا رہا تھا۔ گھر میں اس کی بہو، یعنی مانک کی ماں اور مانک ہی دیگر افراد تھے۔

مانک کا باپ مر چکا تھا لہذا مانک چھوٹی عمر سے ہی کسی کے کھیت میں مزارع تھا۔ اس کی ماں لوگوں کے گھروں میں صفائی ستھرائی کا کام کرتی تھی۔ بوڑھے کا کام صرف حقہ پینا اور سارا دن کھانسنا تھا۔ اس کے علاوہ فرصت مل جاتی تو وہ کسی نہ کسی بات پر بہو اور پوتے کو نصیحتیں کرتا اور برا بھلا کہتا رہتا تھا۔

اگلی صبح جب مانک حوائج ضروریہ کیلئے کھیتوں کو جارہا تھا تو سامنے منظور لوہار نظر آیا جسے اس کے دادا نے کہہ رکھا تھا کہ اسے اپنے ساتھ شہر لے جائے۔

"اوئے مانکو۔۔۔" منظور نے دور سے ہی آواز دی۔ اُس نے ہاتھ لہرا کر اُسے جواب دیا ۔ "چل یار، تیاری کر، تجھے شہر لے جاتا ہوں، تیرا شناختی کارڈ بنوا لاتا ہوں".

منظور کے بائیں ہاتھ میں ایک کتاب تھی اور وہ سر میں تیل لگائے ، صاف سُتھری لیکن بنا استری کے، کالج کی وردی پہنے ہوئے تھا۔

"تو چل میرے گھر بیٹھ، میں آتا ہوں" مانک نے اُسے ٹالنے کیلئے لیکن بظاہر اشتیاق کے ساتھ کہا۔ دن کے نو بجے وہ گاوں سے نکلے۔ مانک نے کارڈ بنوانے کیلئے مطلوبہ رقم سے اضافی بھی کچھ پیسے جیب میں ٹھونس لئے تھے۔ دراصل اُسے منظور نے جھانسہ دیا تھا کہ وہ شناختی کارڈ بنوانے کے بعد فیصل آباد کے بڑے سنیما میں مُجرا دیکھیں گے۔

سفر کے دوران پہلے تو وہ ادھر اُدھر کی گپیں ہانکتے رہے، پھر اچانک مانک کو خیال آیا؛

"یار مَنّے، یہ بتا کہ مُجھے کیا فائدہ ہوگا شناختی کارڈ بنوانے کا؟ بس ووٹ دینے کیلئے ہی ہوتا ہے؟؟" مانک نے منظور سے پوچھا۔

"نہیں یار، بڑے کام کی چیز ہوتا ہے یہ۔ اس کا مطلب یہ سمجھ لو کہ ایک بار تمہارا کارڈ بن گیا تو تم ملک کے پکے شہری ہو، اب حکومت پابند ہے کہ تمہیں تمہارا صحت کا حق، تحفظ اور انصاف فراہم کرے ۔ اب تم کسی بھی سرکاری اہلکار سے سر چڑھ کر بات کرسکتے ہو اور اپنے جائز کام کروا سکتے ہو، اس کا مطلب یہ ہے کہ تم ملک کے ایک معزز فرد ہو".

منظور کالج میں سوشیالوجی پڑھتا تھا لہٰذا پُر جوش ہو کر اُسے سمجھانے لگا۔ پہلے تو مانک کو کچھ سمجھ نہ آئی لیکن پھر اُس نے ذہن پر کچھ ذور دیا تو اسے خیال آیا کہ یہ تو بڑے اعزاز کی بات تھی۔

وہ 'نادرا' کے دفتر پہنچے تو باری آنے پر اُسے مختلف مراحل سے گذرنا پڑا جو کہ اس کے لئے بڑے خوشگوار تھے۔ وہ پہلی بار کسی اتنی شاندار، صاف ستھری اور ائر کنڈیشنڈ عمارت میں داخل ہوا تھا۔ اُسے سب سے زیادہ خوشی اور سرشاری اس لمحے ہوئی جب ایک مرحلے پر ایک حسیِن لڑکی نے اُس سے اس کے بنیاد ی کوائف اور اُس کے 'ب' فارم کے بارے میں چند باتیں کیں۔

"تمہارے نام کا مطلب کیا ہے مانک بابو؟"

لڑکی نے بظاہر بڑی دلنواز مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔

"پتہ نہیں جی، ابا نے رکھا تھا"، مانک نے مسکرا کر سادگی سے جواب دیا لیکن اُسے اپنے جسم میں ایک خوشگوار سی بجلی کوندتی محسوس ہوئی۔

"اور تمہارے ابّا کا نام، مٹکُو، تمہارے دادا نے رکھا تھا؟" لڑکی نے ہنستے ہوئے کہا تو وہ بھی شرما کر ہنس دیا۔

انگوٹھا لگوانے کا مرحلہ آیا تو اس لڑکی نے مانک کا ہاتھ پکڑ کر اسکیننگ کی مشین پر درست طریقے سے رکھا تو اگلے آٹھ پہر تک مانک کے من میں لڈو پھوٹتے رہے۔

گاؤں واپسی کے سفر میں وہ اسی کے سحر میں کھویا رہا۔ زندگی میں پہلی بار کسی حسینہ نے اور وہ بھی "افسر" حسینہ نے اُس سے یوں ہنس کر بات کی تھی۔ اُس کا خیال تھا کہ یہ شناختی کارڈ کی بدولت تھا ورنہ وہ تو ایک ایسی ذات سے تعلق رکھتا تھا جسے دیہی پنجاب میں کوئی بھی معزز نہیں سمجھتا۔

پنجاب کے ان دراوڑ نژاد باسیوں کو ہزاروں سال گزر جانے کے بعد بھی حملہ آور جہازیوں کی اولادوں نے کبھی انسان تک نہیں سمجھا۔ وہ خود کو کوس رہا تھا کہ پہلے شناختی کارڈ بنوانے کیوں نہیں آیا اور اس کے طفیل آنے والے اچھے دنوں کے سنہرے سپنے دیکھ رہا تھا۔


جاری ہے .......


زکی نقوی اردو لٹریچر میں گریجویٹ ہیں اور مختصر اردو کہانیاں، مضامین اور مزاحیہ کالمز لکھتےہیں. آج کل جسٹس پروجیکٹ پاکستان کے ساتھ بطور لیگل ایڈوائزر کام کر رہے ہیں.

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

آشیان علی Jul 19, 2014 12:51pm
میں نے دیکھا ہے بہاروں میں جلتے چمن کو ہے کوئی خواب کی تعبیر بتانے والا ؟
رضوان Jul 19, 2014 05:39pm
انداز بیاں دلچسپ ہے، تحریر میں روانی ہے۔ آخر میں "جاری ہے" دیکھ کر سارا موڈ خراب کردیا۔