وہ بہت دیر سے سڑک کنارے کھڑی ٹریفک کم ہونے کا انتظار کر رہی تھی تاکہ روڈ کراس کر کے دوسری جانب کھڑی بس پر سوار ہوسکے لیکن ٹریفک کا ریلا تھا کہ ایک کے بعد ایک آتا ہی چلا جارہا تھا-

آگے سپیڈ بریکر ہونے کے باوجود گاڑیوں کی رفتار خاصی تیز تھی اسی لئے سڑک کے کنارے اس طرح کھڑے رہنے میں بھی ڈر لگ رہا تھا. جہاں پر فٹ پاتھ ہونا چاہیے وہ جگہ دکانداروں نے تجاوزات کر کے گھیر رکھی تھی، نتیجتاً ادھر ادھر نظر دوڑانا بھی خطرناک تھا کہ کہیں کوئی گاڑی تیز رفتاری میں اسے ہی نہ ٹکر مار دے- بس نکل جانے کی بھی فکر لاحق تھی کہ اگر یہ بس چھوٹ گئی تو مزید بیس منٹ تک اگلی کا انتظار کرنا ہوگا-

اسے گھر کو دیر ہو رہی تھی اور گرمی بھی عذاب کی تھی- بلآخر ٹریفک کا زور تھوڑا کم ہوا تو اس نے سڑک پار کرنے کے لئے قدم بڑھاۓ- ابھی پہلا قدم اٹھایا ہی تھا کہ مخالف سمت سے ایک زوردار ہارن کی آواز پر گڑبڑا کر رہ گئی- اس کے چہرے پر حیرانی اور ملامت کے ملے جلے جذبات صاف نظر آرہے تھے کیونکہ سڑک 'ون -وے' تھی اور ہائی-روف کا ڈرائیور 'رانگ -وے' سے گاڑی لے کر آرہا تھا، مزے کی بات یہ کہ بڑی ڈھٹائی کے ساتھ ہارن پہ ہارن بجا کر اسے راستے سے ہٹنے کا اشارہ بھی کر رہا تھا-

وہ تھوڑی دیر تک ڈرائیور کو گھورتی رہی لیکن اس شخص کے چہرے پر ندامت کا پسینہ تو دور، آنکھوں میں شرمندگی کے آثار تک نہ تھے- یوں لگ رہا تھا جیسے سامنے کوئی پتھر کی مورت ہو جذبات اور احساسات سے عاری-

تھوڑی دیر تک گھورنے کے بعد اس نے ڈرائیور کو جانے کا راستہ تو دے دیا لیکن خود تمام راستے خون کے گھونٹ پیتے گزار دیے- تمام راستے وہ رانگ-وے پر گاڑیاں چلاتے ہوۓ لوگوں کو دیکھتی رہی اور سوچتی رہی کہ لوگ کتنے بے حس ہو گۓ ہیں، قانون تو یوں آرام سے توڑتے ہیں جیسے کوئی کچی مٹی کا گھڑا توڑ دے، آخر کوئی کچھ کرتا کیوں نہیں!

یہ کسی گاؤں دیہات یا چھوٹے شہر کا واقعہ نہیں ہے بلکہ پاکستان کے سب سے بڑے اور روشنیوں کے شہر کراچی کا قصّہ ہے- کراچی کو درپیش مسائل میں ٹریفک کا مسئلہ سر فہرست ہے- ٹریفک لائٹس کا احترام کرنا تو ویسے بھی کراچی والوں کی شان کے خلاف تھا، اب تو یہ ون-وے روڈ پر رانگ-وے سے آنا اپنے لئے فخر کا باعث سمجھنے لگے ہیں-

ایسے حضرات کو اس بات کی بھی پروا نہیں ہوتی کہ انکی اس حرکت سے ٹریفک کتنا زیادہ متاثر ہوتا ہے یا کسی قسم کا حادثہ بھی ہو سکتا ہے، انہیں خود کو تھوڑا دور موجود یو-ٹرن تک جانے کی زحمت سے بچانا ہوتا ہے اس کے لئے اگر دوسروں کو تکلیف پنہچے تو کیا فرق پڑتا ہے-

مزے کی بات یہ کہ رانگ-وے سے آنے والی ان گاڑیوں میں ایک بڑی تعداد مہنگی کاروں کی ہوتی ہے جن کے دیکھنے میں ایجوکیٹڈ، ڈرائیور خواتین و حضرات بڑے اہتمام کے ساتھ آنکھوں پر دھوپ کے چشمے چڑھاۓ اور بلیو ٹوتھ ڈیوائس کانوں میں لگاۓ، اپنے حال میں مگن، اے سی کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہواؤں میں قطار در قطار الٹی جانب سے چلے آرہے ہوتے ہیں-

بھلے سامنے سے آتی ہوئی گاڑیاں لاکھ ہارن پہ ہارن دیں، ملامت آمیز نگاہوں سے ان کی جانب دیکھیں مگر مجال ہے صاحب جو انکی رفتار میں کوئی فرق آۓ یا سٹیئرنگ ادھر سے ادھر ہو!! نگاہیں سامنے جماۓ، دنیا سے بیگانہ یہ پڑھے لکھے کراچی والے الٹی جانب سے روڈ کے کنارے کنارے چلتے رہتے ہیں جب تک منزل مقصود تک نہ پنہنچ جائیں-

نا نا!! ابھی افسوس سے سر نہ ہلائیں اس نیک کام میں ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی پیش پیش ہوتے ہیں- اکثر ان گنہگار آنکھوں نے پولیس موبائلز کو الٹی جانب سے آتے ہوۓ دیکھا ہے اور اسی قانون کے ساۓ تلے دیگر گاڑیاں بھی پیچھے پیچھے، خراماں خراماں چلتی چلی آتی ہیں-

ظاہر ہے جب قانون کا ہاتھ ان کے سر پر ہوگا تو کون مائی کا لال انہیں للکارنے کی جرّت کر سکتا ہے؟ ہم آپ جیسے شریف لوگ گردن جھکاۓ چپ کر کے آگے نکل جاتے ہیں-

سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب شہر کی پڑھی لکھی عوام اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ٹریفک اصولوں کی پابندی نہ کریں تو ہم رکشہ چلانے والوں یا وین ڈرائیوروں کو کس بات کا الزام دیں؟

مانا کہ قانون کی پاسداری سب پر لازم ہے لیکن جب ملک کا پڑھا لکھا طبقہ اور وہ جن پر قانون نافذ کرنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے وہی ایسی مثالیں قائم کریں گے تو کیا ان پڑھ اور کم پڑھی لکھی عوام بھی انہی کے نقش قدم پر نہیں چلے گی؟

ملک میں لاقانونیت کا رونا رونے والوں کو یہ دیکھنا چاہیے کہ کہیں وہ خود تو قانون شکنی کے مرتکب نہیں ہو رہے- رانگ-وے ڈرائیونگ کرنا، ٹریفک سگنل کا احترام نہ کرنا، سڑکوں کے کنارے ڈبل، ٹرپل پارکنگ کر کے اچھی بھلی چوڑی روڈ کو اتنا کم کردینا کہ فقط ایک گاڑی گزرنے کی گنجائش بچے، اس پر رونا یہ کہ شہر کا ٹریفک دن بدن خراب ہوتا جا رہا ہے- ظاہر ہے جب ہر دسواں شخص ٹریفک قوانین توڑے گا تو سدھار کیسے ممکن ہے؟

کراچی کے ٹریفک کو لاحق دیگر بیماریوں پر ہم اگلی بار بات کریں گے، تب تک کے لئے ٹریفک جام کا رونا رونے سے پہلے سوچئے گا کہ کہیں اس کے پہل کرنے والے آپ ہی تو نہیں؟

تبصرے (2) بند ہیں

آشیان علی Jul 19, 2014 02:41pm
یہ تو کوئی مسلہ نہیں ہے کہ ٹریفک سینس ہماری سوسائٹی میں ہے ہی نہیں ہے ناہید جی. مسلہ یہ ہے کہ ہم ٹریفک نان سینس قوم ٹریفک سینس قوموں کو گھٹیا تصور کرتے ہیں ! .لندن مین آدھی رات کوپب سے نکلنے والے جوڑے شراب کے نشے میں دھت ایک دوسرے کی کمر میں ہاتھ ڈالے ٹیکسی سٹینڈ پر قطار میں کھڑے ہو جائیں .اورٹیکسی کی آمد پر پہلے آنے والا جوڑا ٹیکسی میں بیٹھ جائے اور دیگر قطار میں کھڑے رہیں . پاکستان میں بس سٹاپ پر بس کی آمد پر ایک دوسرے کو کچلتے دھکے دیتے بس میں سوار ہوتے لوگ جب یورپ پر لعنت ملامت کرتے ہیں تو مسلہ ہو جاتا ہے میرے جیسے عاقبت نا اندیشوں کو جناب. جب یورپ کا کتا زیبرا کراسنگ پر کھڑا ہو کر ٹریفک رکنے کی توقع کرتا ہے اور کافروں کا ٹریفک رک بھی جاتا ہے!. جبکہ پاکستان میں سڑک کے بیچ 8 فٹ کے جنگلے کے اوپر سے کوئی پھلانگ کر گاڑی کے آگے سے سڑک پار کرنے کی کوشش کرتا ہے تو ٹریفک بھی رواں رہنے کی کوشش کرتا رہتا ہے. کتے کو زیبرا کراسنگ پر کھڑے دیکھ کر رکنے والا یورپی معاشرے کا ٹریفک دیکھ کر ہم سے کبی یہ سوچنے کا گناہ بھی سرزد ہو جاتا ہے کہ ان کے کتے کی اہمیت ہمارے انسان سے ذیادہ ہے یاعقل؟. (ایڈیتر صاحب ایڈیٹ کر دینا آپ کا اختیار ہے مگر آپ شائع نہ کرنے کا اختیار زرا زیادہ استعمال کرتے ہیں افتخار چوہدری کی از خود نوٹس کے اختیار کی طرح )
Kala Ingrez Jul 20, 2014 04:37am
Indeed, I agree with this very well and sincerely written article discussing the real issue faced by the Nation on a daily basis. Mind you, one of my nieces was a victim of an accident with the perpetrator never being punished by the corrupt traffic police. The law enforcement agencies need to be shaken up to enforce traffic laws.