تحریکِ انصاف سے معذرت کے ساتھ
پہلے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی جانب سے حکومت کو خبردار کیا گیا کہ اگر حکومت نے قومی اسمبلی کے چار حلقوں میں ووٹوں کی تصدیق نا کروائی تو تحریک انصاف 10 لاکھ لوگوں کیساتھ 14 اگست کو لاہور سے اسلام آباد لانگ مارچ کریگی۔
پھر افغانستان میں ہونے والی صدارتی انتخابات کا آڈٹ کروانے کے امریکی فیصلے کے بعد خان صاحب کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ اب بات چار حلقوں سے آگے نکل گئی ہے اور اب انتخابات کا مکمل آڈٹ ہونا چاہیے۔
آڈٹ کے مطالبے سے پہلے تحریک انصاف کا مؤقف تھا کہ مسلم لیگ نواز نے انتخابات میں دھاندلی کی ہے اور تحریک انصاف قومی اسمبلی کے صرف چار حلقوں میں ووٹوں کی تصدیق کروا کر نواز لیگ کی دھاندلی کو بے نقاب کرنا چاہتی ہے۔
اس مقصد کے لئے تحریک انصاف نے پنجاب کے چار حلقے منتخب کئے تھے۔ جہاں انھیں یقین ہے کہ نواز لیگ نے دھاندلی کی ہے۔
اس بلاگ کا عنوان "تحریکِ انصاف سے معزرت کے ساتھ" اس لئے رکھا گیا ہے تاکہ تحریک انصاف کے جیالے اور عظیم رہنما اسے پڑھ کر نالاں نا ہوں اور یوم آزادی تک اپنے مطالبے پر غور کرلیں۔ کیونکہ ماضی کے انتخابی حقائق اور انتخابی نتائج تحریک انصاف کو آرام سے ہضم نہیں ہونگے۔ جن کا خلاصہ حاضرِ خدمت ہے۔
جن چار حلقوں میں تحریک انصاف ووٹوں کی تصدیق کروانا چاہتی ہے۔ اُن میں قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 122 اور این اے 125 پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور میں آتے ہیں۔ جبکہ حلقہ این اے 110 سیالکوٹ اور حلقہ این اے 154 لودھراں دو مزید ایسے حلقے ہیں جو پنجاب میں ہی ہیں۔
اِن چار حلقوں میں سے دو حلقوں میں نواز لیگ کے دو ایسے رہنما منتخب ہوکر پارلیمنٹ ہاؤس پہنچے ہیں جو کشمیری ہیں. کشمیریوں کی مسلم لیگ نواز میں کیا اہمیت ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ نواز لیگ کی جانب سے چیف آف آرمی سٹاف کے عہدے کے لئے بھی ایک کشمیری کو ہی چُنا گیا۔ اس کے علاوہ وزارت دفاع جیسا اہم قلمدان بھی انہی حلقوں میں سے منتخب شُدہ ایک کشمیری کو سونپا گیا۔
اس کے ساتھ ساتھ ان چار حلقوں میں سے ہی ایک حلقے سے منتخب ہونے والے ایک اور کشمیری کو وزارتِ ریلوے کا قلمدان نوازا گیا جو اطلاعات کے مطابق ناصرف اچھا کام کر رہے ہیں بلکہ نواز لیگ کی جانب سے دوسری جماعتوں کے خلاف اشتعالی بیان بھی اسی قدرےِ نوجوان رُکنِ اسمبلی کی جانب سے داغے جاتے ہیں۔
پہلے ذرا جائزہ لیتے ہیں اُن دو حلقوں کا جہاں سے دو کشمیری منتخب ہوکر پارلیمنٹ میں پہنچے ہیں۔
سیالکوٹ NA 110
علامہ اقبال اور فردوس عاشق اعوان کے شہر سیالکوٹ کا پہلا حلقہ جہاں سے خواجہ محمد آصف 92848 ووٹ لیکر کامیاب ہوئے۔ تحریک انصاف کا ماننا ہے کہ اس حلقے میں مسلم لیگ نواز نے دھاندلی کی ہے۔ جس کی وجہ سے تحریک انصاف کے امیدوار محمد عمر ڈار کے حصّے صرف 71573 ووٹ آئے۔
اسی حلقے سے سابق وفاقی وزیر برائے پاپولیشن ویلفیئر فردوس عاشق اعوان نے بھی الیکشن میں حصّہ لیا مگر بد قسمتی سے صرف 2203 ووٹ اپنے انتخابی ڈبوں میں ڈلوانے میں کامیاب رہیں۔
اگر تحریک انصاف کے مطالبے پر اس حلقے میں ووٹوں کی تصدیق کروائی جاتی ہے اور خواجہ سیالکوٹی صاحب کی 21275 کی برتری شکست میں بدل جاتی ہے تو اُن خواجہ صاحب کا کیا مستقبل ہوگا۔ اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔
2008 کے انتخابات میں بھی خواجہ محمد آصف اس حلقے سے کامیاب ہوئے تھے اور انھیں 64% ووٹ پڑے تھے۔جبکہ دوسرے نمبر پر پیپلز پارٹی کے زاہد پرویز تھے جنھیں صرف 28% ووٹ پڑے تھے۔
سو اگر 2013 کے انتخابات میں خواجہ صاحب 21 ہزار سے زائد ووٹوں کی برتری سے سر فہرست ہیں تو اس میں اچنبھےکی کیا بات ہے؟
لاہور NA 125
لاہور کا وہ حلقہ جس میں شہر کا امیر ترین علاقہ ڈیفنس واقع ہے اور جس کی اکثریت بغیر کسی شک شبہہ کے تحریک انصاف کی شیدائی ہے۔
مگر، اسی حلقے میں والٹن روڈ، بیدیاں، برکی اور رنگ روڈ کے گِرد واقع چھوٹی بستیاں بھی شامل ہیں۔ جہاں کے رہائشی ہمیشہ سے مسلم لیگ نواز کو ہی ووٹ دیتے رہے ہیں۔
ڈیفنس کے مکینوں کے مطابق تو پولنگ سٹیشنز پر موجود تمام ووٹرز نے ہی اپنا ووٹ تحریک انصاف کو دیا اور ان کا کہنا درست ہے۔ اس کی وجہ یہ کہ ڈیفینس کے ووٹرز کے لئے بنائے گئے پولنگ سٹیشنز پر اکثریت ڈیفینس کے رہائشیوں کی تھی جو تحریک انصاف کے حامی تھے اور غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق تحریک انصاف کو ڈیفینس کے پولنگ سٹیشنز سے بھاری برتری بھی ملی۔
اس حلقے میں دھاندلی کا شور اس لئے بھی زیادہ ڈالا گیا کیونکہ ڈیفنس کے رہائشیوں نے لالک جان چوک پر انتخابی نتائج کے خلاف دھرنا دیا جس کو تمام میڈیا نے براہ راست نشر کیا۔ جس سے لوگوں میں تاثر پیدا ہوا کہ اس حلقے میں دھاندلی ہوئی ہے۔
مگر دھاندلی کے الزامات لگانے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ غریب بستیوں میں رہائش پزیر ووٹرز کا ایک ووٹ بھی ڈیفنس کے رہائشیوں کے ایک ووٹ کے برابر ہی ہوتا ہے۔ ہاں یہ بات ٹھیک ہے کہ غریب بستیوں کے رہائشی اتنے باشعور نہیں ہوتے کے وہ ٹی وی پر آکر دھاندلی کے الزامات لگا سکیں۔
اس کے علاوہ ڈیفینس کے ایک گھر میں ووٹوں کی تعداد چھ سے آٹھ ہے۔ جبکہ غریب بستیوں میں رہنے والوں کے ایک ایک گھر میں بارہ سے چودہ ووٹرز رہائش پزیر ہیں۔ اسی طرح ڈیفینس کے دو کنال بنگلے میں رہائش پزیر ووٹرز کی تعداد اور غریب بستیوں میں دو کنال پر واقع پانچ گھروں میں ووٹرز کی تعداد کا موازنہ آپ خود ہی کرلیں۔
2013 کے الیکشنز میں اس حلقے میں اصل مقابلہ نواز لیگ کے امیدوار خواجہ سعد رفیق اور تحریک انصاف کے امیدوار حامد خان کے درمیان تھا۔
نواز لیگ کے سعد رفیق نے یہ مقابلہ 123416 ووٹ حاصل کر کے جیتا اور تحریک انصاف کے امیدوار 84495 ووٹ حاصل کرکے دوسرے نمبر پر رہے۔ جبکہ پیپلز پارٹی کے محمد نوید چوہدری 6152 ووٹ لینے میں کامیاب ہوئے۔
اگر اس حلقے کے 2008 کے انتخابی نتائج پر نظر ڈالی جائے تو پتہ لگتا ہے کے اس حلقے سے خواجہ سعد رفیق ہی 70752 یعنی 64% ووٹ لیکر کامیاب ہوئے تھے اور پیپلز پارٹی کے امیدوار نوید چوہدری 24592 یعنی 22% ووٹ لیکر دوسری پوزیشن حاصل کرسکے تھے۔
لہزٰا اس حلقے میں بھی انتخابی تاریخ کو دیکھا جائے تو یہی اندازہ ہوتا ہے کے یہ حلقہ نواز لیگ کا ہی ہے۔
اِن دو کشمیریوں کے حلقوں کے علاوہ دِیگر دو حلقے بھی ہیں جہاں تحریک انصاف ووٹوں کی تصدیق کروانا چاہتی ہے۔
لاہور NA 122
مئی 2013 میں ہونے والے انتخابات میں لاہور کے اس حلقے میں ایچیسن کے دو کلاس فیلوز آمنے سامنے تھے۔ اس حلقے سے چیئرمین تحریک انصاف عمران احمد خان نیازی جو اس علاقے کے رہائیشی بھی ہیں 84517 ووٹ لینے میں کامیاب رہے۔ جبکہ مسلم لیگ نواز کے امیدوار سردار ایاز صادق 93389 ووٹ لیکر کامیاب ہوئے۔ اس طرح نیازی صاحب 8872 ووٹوں کے فرق سے الیکشن جیتنے میں ناکام رہے۔
اگر کچھ دیر کے لئے --نا چاہتے ہوئے بھی-- تحریک انصاف کے جیالوں کی سوچ کو اپنا لیا جائے اور یہ یقین کر لیا جائے کہ اس حلقے میں جعلی ووٹ ڈالیں گئے تھے تو فوراً ہی شیطانی دماغ میں یہ سوال آتا ہے کہ پھر خان صاحب کو اتنے بھی ووٹ کیسے ملے؟ اور اگر خان صاحب کے مقدر میں اس حلقے سے ہار ہی لکھی تھی تو پھر وہ صرف 8872 ووٹوں کے فرق سے کیوں ہارے؟
تحریک انصاف کی انتخابی حکمت عملی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اس حلقے سے مخدوم جاوید ہاشمی، خان صاحب کے کورنگ امیدوار کے طور پر بھی کھڑے تھے۔ شاید ایسا اس لئے بھی کیا گیا تا کہ اگر خان صاحب کسی اور حلقے سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کرتے تو جاوید ہاشمی اس حلقے سے اپنی قسمت آزماتے۔
اگر ایسا ہوتا تو میرا نہیں خیال کہ مخدوم صاحب اتنے ووٹ لینے میں بھی کامیاب ہوتے جتنے خان صاحب کو ملے۔ مخدوم جاوید ہاشمی کو اس حلقے سے صرف 56 ووٹ پڑے جو شاید ان کے لاہور میں رہائش پزیر مریدوں کے ہونگے۔
اگر اس حلقے کے 2008 انتخابات پر نظر ڈالی جائے تو پتہ لگتا ہے کہ نواز لیگ کے سردار ایاز صادق ہی اس سیٹ سے منتخب ہوئے تھے۔ جنھیں 79506 ووٹ ملے تھے اور دوسرے نمبر پر پیپلز پارٹی کے امیدوار مصباح شجاع الرحمان تھے۔ جو کے 24963 ووٹ حاصل کرسکے تھے۔ اس طرح سے اس حلقے میں بھی تحریک انصاف کو جتنے ووٹ ملے ہیں۔ اسے غنیمت جاننا چاہیے اور ووٹوں کی تصدیق کے مطالبے پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔
لودھراں NA 154 جنوبی پنجاب کے اس حلقے سے تحریک انصاف کے سیکریٹری جنرل جہانگیر خان ترین انتخابات میں حصّہ لے رہے تھے اور ان کا مقابلہ مسلم لیگ نواز کے امیدوار محمد صدیق خان بلوچ سے تھا۔ جو 86177 ووٹ لیکر کامیاب ہوئے۔ تحریک انصاف کے امیر ترین رہنما جہانگیر ترین 75955 ووٹ اپنے ڈبوں میں ڈلوا سکے۔
اس حلقے سے مسلم لیگ ق کے امیدوار سعید محمد خان بخاری بھی الیکشن میں حصّہ لے رہے تھے جنھیں 45634 ووٹ پڑے۔ یعنی، اگر ترین صاحب اپنی سابق جماعت مسلم لیگ فنکشنل جس کا مسلم لیگ ق سے سیاسی الحاق تھا چھوڑ کر تحریک انصاف میں شامل نا ہوتے تو انھیں یقیناً مسلم لیگ ق کے ووٹ بھی پڑتے اور اس طرح سے وہ جیت اپنے نام کر والیتے۔
تحریک انصاف کو یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ جہانگیر ترین کا ووٹ بنک مسلم لیگ اور تحریک انصاف میں بٹ گیا۔ جس کا فائدہ مسلم لیگ نواز کے امیدوار کو ہوا۔
مزید یہ کہ 2008 کے انتخابات میں جہانگیر ترین نے الیکشن این اے 195 سے لڑا تھا اور مسلم لیگ فنکشنل کے ٹکٹ پر 84577 ووٹ لیکر کامیاب ہوئے تھے۔
2008 کے انتخابی نتائج کی روشنی میں اگر ترین صاحب نے حلقہ اور جماعت تبدیل کر لی تھی تو وہ کیسے ایک اور حلقے میں ایک نئی جماعت کی ٹکٹ پر الیکشن جیت سکتے تھے؟
تحریک انصاف کی جانب سے کئے گئے مطالبے پر سابق صدر آصف علی زرداری نے بھی چُپ کا روزہ توڑتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ چار حلقوں میں دوبارہ گنتی سے آسمان نہیں ٹوٹ پڑے گا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر ضرورت پڑے تو چار کی بجائے چالیس حلقوں میں بھی دوبارہ گنتی کروائی جائے۔
زرداری صاحب شاید یہ بیان دیکر نواز لیگ کے ذخموں پر نمک چھڑک رہے ہیں۔ کیونکہ انھیں بخوبی اس بات کا اندازہ ہوگا کہ ان چار حلقوں میں دوبارہ گنتی کروانے سے کونسا نیا پنڈورا باکس کھل سکتا ہے۔ایسا بیان دیکر زرداری صاحب صرف گونگلؤں سے مٹّی جھاڑ رہے ہیں۔
بار حال ماضی کی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے خان صاحب نے اپنے سابقہ مطالبات کو بھولتے ہوئے اب مطالبہ کیا ہے کہ 2013 کے انتخابات کا مکمل آڈٹ کروایا جائے۔
تاہم، خان صاحب نے یہ نہیں بتایا کہ وہ یہ آڈٹ کس سے کروانا چاہیں گے؟
پاکستانی اداروں پر تو انہیں یقیناً اعتبار ہوگا نہیں۔ شاید وہ بھی یہی چاہتے ہیں کہ امریکی سیکریٹری آف سٹیٹ جان کیری پاکستان کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کرتے ہوئے انٹرنیشنل آڈٹ کروانے کے انتظامات کریں۔ جیسا انھوں نے افغانستان میں کیا ہے۔
پاکستانی انتخابی نظام کی سب سے بڑی خرابی شاید یہ ہے کہ یہاں ہمیشہ ووٹ یا تو ذات برادری کی بنیاد پر دیا جاتا ہے یا پھر اُسے دیا جاتا ہے جو وقت ضرورت تھانوں میں سفارش کرسکے۔ سرکاری نوکری دلوا سکے۔ پٹواریوں سے ذمین کے لین دین میں رعائت دلوا سکے اور سب سے بڑھ کر ووٹ اُسے دیا جاتا ہے جو کچی گلیاں پکی کروا سکے۔
بد قسمتی سے تحریک انصاف ابھی تک ایک مرتبہ بھی حکومت نہیں بنا سکی۔ صرف ایک مرتبہ خان صاحب پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے اور وہ بھی عوام کی کوئی خاطر خواہ خدمت نہیں کرسکے۔ سو ایسے حالات میں ووٹرز کیسے تحریک انصاف کو ووٹ دیتے جبکہ انھیں ماضی میں تحریک انصاف کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔
البتہ جو لوگ اس ملک میں تیسری جماعت کو اقتدار میں دیکھنا چاہتے تھے۔ انھوں نے تحریک انصاف کو خوب ووٹ دیئے۔ مگر بد قسمتی سے ان کے خواب شرمندہ تعبیر نا ہوپائے۔
اختتامی التماس: قارئین سے التماس ہے کہ مجھے نواز لیگ کے پِٹّھو کا خطاب دینے سے پہلے الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ کے درشن ضرور کرلیں۔
بلاگرکا تعلق الیکٹرانک میڈیا سے ہے۔ مگر لکھاری اخراجِ جزبات وخیالات کے لئے ذریعہ بلاگ کا استعمال بہتر سمجھتا ہے
[email protected] Twitter: @navidnasim
تبصرے (6) بند ہیں