شکایتوں کا بن جو میرا دیس ہے

24 جولائ 2014
السٹریشن -- خدا بخش ابڑو
السٹریشن -- خدا بخش ابڑو

کل دوپہر کے کھانے پر ایک دوست سے ملاقات ہوئی۔ سیزر سلاد کھاتے ہوئے موصوف نے انکشاف کیا کے انھیں روانی سے اردو بولنے میں کافی دقت پیش آتی ہے۔ میں نے کہا اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے آپکی ساری زندگی ملک سے باہر گزری ہے۔

جواب آیا یہ تو کوئی بات نہ ہوئی، بہت سےایسے لوگ ہیں جو اپنے وطن سے دور پیدا ہوتے ہیں اور پروان چڑھتے ہیں مگر پھر بھی اپنی زبان فر فر بول لیتے ہیں۔

"نہیں، اصل میں یہ سارا قصور میرے والدین کا ہے،" اس نے کانٹا رکھتے ہوے کہا۔ "کیا انہیں یہ نہیں معلوم تھا کے انکے بچوں کو مستقبل میں کتنی تکلیف اٹھانی پڑے گی؟ اور اب اس عمر میں میں کیا خاک روانی لاونگا اپنی زبان میں۔"

یہ سن کر مجھے پہلےتو کچھ تعجب سا ہوا اور پھر اطمینان۔ ھمارے دوست کو زبان پر عبور ہو نہ ہو، اس بات کے بعد انکے پاکستانی ہونے پر کم از کم کوئی شک نہیں کر سکتا۔ ہم سب کی طرح، انہوں نے بھی اپنے مسئلہ کا حل تلاش کرنے کے بجاے شکایتوں کا سہارا لیا اور اپنی ناقابلیت کو ماں باپ کے زمہ ڈال دیا۔

چاہےٹی وی چینل ہو یا کوئی اخبار، سوشل میڈیا ہو یا انٹرنیٹ پہ کوئی بلاگ، ایسا لگتا ہے کے ہماری قوم کو شکایتیں کرنے کے سوا اب اور کچھ نہیں آتا۔ اگر آپ میری طرح خوش قسمتی سے کافی فارغ وقت کے مالک ہوں تو آپ بھی نوٹس کرینگے کے ہر دہائی میں ہماری شکایت لگانے کی سلاحیتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ہماری پر کیپیٹا انکم per capita income بڑھی ہو نا ہو، ہماری پر کیپیٹا per capita شکایتیں ضرور بڑھی ہیں۔

اب آپ کہیں گے کہ جس قسم کے حالات ملک کو درپیش ہیں، وہاں عام آدمی اگر شکایت نا کرے تو معصوم اور کرے بھی کیا؟ یہ بات بھی درست ہے۔ مگر جب آپ شکایتوں کے انبار پر نظر ڈالتے ہیں تو آپ کے سامنے سرکیولر ڈیَٹ کے قد و قامت کی سی ایک ہی حقیقت واضع ہوتی ہے اور وه یہ کے جتنےبھی شکایتی ٹٹو الکٹرونک، پرنٹ اور سوشل میڈیا پر شکایتوں کے پلندے کھولے بیٹھے ہیں ان میں سے اکثریت ان کی ہے جن کو یقین ہے کہ اس مملکتِ خداداد نے فقط ایک سبز پاسپورٹ اور اسکے ساتھ آنے والی پریشانیوں کے سوا انہیں اور کچھ نہیں دیا۔ یہ اس قوم کا سب سے کمزور اور لاچار طبقہ ہیں۔

اس گروپ میں بہت سے فرقے ہیں مگر چند ایسے ہیں جو قابلِ ذکر ہیں۔ اول نمبر پر وه ہیں جنہوں نے اپنا سب کچھ اس قوم پر قربان کردیا (یا شاید اس قوم کا سب کچھ اپنے پر قربان کر دیا) اور اُف تک نا کی۔ پر اب ریٹائرمنٹ کے بعد ان سےرہا نہیں جاتا اور ہائی توبہ کرتے نہیں تھکتے۔

خوش شکل، خضاب زدہ اور صابر، یہ صرف قوم کے مفاد میں اپنی آواز اٹھاتے ہیں کیونکہ انکو اس ملک کے علاوه کسی اور چیز میں دلچسپی نہیں ہے؛ نا ریل اسٹیٹ میں، نا کورن فلیکس میں، نا اچھی کھاد بیچنے میں، نا ٹرانسپورٹیشن کے کاروبار میں، اور آج کل تو فلمیں بنانے کا بھی انکو بلکل کوئی شوق نہیں ہے۔

روزانہ کسی نہ کسی ٹی وی چینل پر اور کسی نہ کسی اخبار کے اِداریے سے انکی معصوم شکایتیں چھلکتی نظر آتی ہیں۔ یہ سوال اٹھاتے ہیں اور بس اٹھاتے ہی چلے جاتے ہیں۔ انکو ہر ایک سے گلہ ہے: سیاستدانوں سے، تاجر برادری سے، صحافی بھائیوں سے، ادیبوں اور مصوروں سے، طالبِ علموں سے، اساتذه سے۔۔۔ حتی کہ پاکستان کی تاریخ میں شاید ہی کوئی ایسا طبقہ گزرا ہو جس نے انہیں شکایت کا موقع نا دیا ہو۔

پر شاید یہ کہنا درست نا ہوگا۔ کیونکہ ان سے بھی بڑھ کر ایک اور شکایتی ذات ہے جس کا نام انہوں نے بھی کبھی اپنی فہرست میں نہیں ڈالا۔ اور وه ہے ہمارا دوسرا گروه جو اس ملک کے ہر باشندے سے نالاں ہے۔ ہر مزہبی جماعت کے ہر لیڈر نے پچھلے 66 سالوں سے شکایتیں کر کر کے اس قوم کے کان لہولہان کر دیئے ہیں۔ شاید اس لیئے کے افواجِ پاکستان کے ہر بڑے افسر کی طرح، ان بیچاروں کی بھی آج تک کسی نے نہیں سنی۔ یہ زور زور سے چیختے رہتے ہیں اور ملک و قوم کو سیدھی راه پر چلنے کی ہدایت دیتے رہتے ہیں پر قوم ایسی ناہنجار ہے کے اسکے 40 کڑوڑ کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔

یہ مجبور، داڑھیوں سے بھرپور کلاس اب کرے بھی تو کیا؟ اپنی نیک نیتی کا اظہار کس طرح کرے؟ بم، بندوق اور ڈنڈے کے زریعے شکایت نا کرے تو اپنے ضمیر کو کیسے ہلکا کرے؟

ٹیلیویژن پر روزانہ شکایتوں کا بازار گرم کرنے والے اینکرپرسن وه تیسرا محبِ وطن طبقہ ہے جسکو آج تک اس قوم نے وه پزیرائی نہیں بخشی جس کا وه حقدار ہے۔ بے غرض، نازک سے یہ فرشتے ہر شام قوم کے مسکین ترین طبقات ۔۔۔ یعنی کہ وه دو گروه جنکا ذکر کچھ دیر پہلے کیا گیا ۔۔۔ کی آواز بن کر دنیا سے اپنے سوالوں کا جواب طلب کرتے ہیں۔

یہ ساده لکھپتی، صحافت کے پرانے دقیانوسی اصولوں کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں اور بلک بلک کر ہماری اور آپکی بھلای کی دعایں مانگتے ہیں۔ یہ دعایں عموماً خطرناک اور بھیانک قسم کی شکایتوں کی صورت اختیار کر لیتی ہیں۔ مگر یہ سچ کے محافظ کسی سے ڈرے بغیر ہر اس شخص کی پگڑی اچھالتے ہیں جس سے انکو کسی بھی قسم کا کوئی خوف نہیں۔ دوسرے شکایتی ٹٹوؤں کی طرح یہ بھی بہت لاچار اور کمزور ہیں مگر بلکل انہی کی طرح، یہ بھی وطن کی مٹی کی محبت میں گرفتار، دوسروں پر لعن طعن کرنے پر مجبور ہیں۔

صنعتکار اور سیاستدان ہمارے ملک کا وه حصہ ہیں جو نہ ایک دوسرے کے ساتھ رہ سکتے ہیں اور نہ ہی ایک دوسرے کے بغیر۔ اس ہی لیے کچھ سال قبل وه اس فیصلے پر پہنچے کہ بجائے ایک دوسرے کی شکایتیں کریں اور اپنے آپ کو خواه مخواه ہلکان کریں، کیوں نہ دونوں اپنے پیشوں کا فرق ہمیشہ کے لیئے مٹا دیں اور اپنی شکایتی توپوں کا منہ کسی اور رخ موڑ دیں؟ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا اور اب آپ، نہ ہم اور نہ ہی کوئی مائی کا لال اس ملک کے کسی سیاستدان اور بزنس مین میں فرق بتا سکتا ہے۔ آئی آئی چندریگر روڈ کی زبان میں اِسے سِنرجی کہا جاتا ہے۔

اکھٹے ہونے کا قطعا یہ مطلب نہیں کے انکی شکایتوں میں کوئی کمی آئی ہو۔ وه آج بھی اس ہی جوش و خروش سے کیچڑ اچھالتے ہیں جیسے ماضی میں اچھالا کرتے تھے۔ فرق صرف اتنا ہے کے اب وه ایک دوسرے کے کیچڑ سے لدے کپڑے خود ہئ دھوبی گھاٹ پہنچادیتے ہیں اور صفائی کا بلِ بھی خود ہی ادا کر دیتے ہیں۔

ایک آخری وه شکایتی کلاس ہے جس کا ذکر اگر یہاں نہ کیا گیا تو نا انصافی ہوگی۔ یہ ملک سے باہر مقیم وه پاکستانی ہیں جن کا تعلق ہمارے مزدور یا لیبر طبقے سے نہیں بلکہ اس کلاس سے ہے جسکے پاس ایک عدد MBA ، ایک مغربی پاسپورٹ، اور کم ازکم دو گھر ہیں، ایک یہاں اور دوسرا وہاں (یہاں اور وہاں اصل میں کہاں ہیں اسکا وه فرعونی انداز میں کبھی ذکر نہیں کرتے)۔

یہ ہمارے وه محنت کش، خشبودار، sanitizer-hand استمعال کرنے والے، خشکی سے پاک بھائی ہیں جو پچھلے برس بزنس کلاس میں سوار ہوکر اپنے پیارے ہرے پاسپورٹ والے وطن انقلاب لانے آئے تھے اور جب انکے مطلب کا انقلاب نہ آیا تو دل برداشتہ ہوکر اگلی فلائٹ سے واپس لوٹ گئے۔ واپس پہنچتے ہی ان میں سے اکثر نے اپنے غصے کا اظہار اس طرح کیا کہ اپنے دبئی کے چار بیڈروم ولا کو فروخت کر کے اس کے بدلے لندن میں ایک ڈیلکس فلیٹ خرید لیا۔

انکی مستقل شکایت یہ ہے کے صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ ساری مسلم دنیا اس قابل نہیں رہی جہاں وه اپنے (دوسروں کے) خون پسینے سے کمائے ہوئے سالانہ بونس کو محفوظ طریقے سے invest کر سکیں۔ انقلاب اپنی جگہ پر پر مغرب آخر مغرب ہے۔

شکایتیں لگانے والے مزید اور بھی بہت سے پاکستانی ہیں مگر وه ان سب کی طرح کمزور اور لاچار نہیں، لہٰذا ہماری ہمدردی کے مستحق نہیں۔ ان میں سے بہت سے تو اتنے طاقتور، مظبوط اور خوش باش ہیں کے پیدل ہی بلوچستان سے سندھ اور سندھ سے پنجاب کی سیر کر آتے ہیں۔ کئی تو 24 سالہ لطیف جوہر کی طرح اپنے آس پاس کے حالات سے اتنے مطمئن ہیں کے خوشی کے مارے کھانا پینا تک چھوڑ دیتے ہیں۔ ایسا ہی معاملہ ملک کی کچھ اقلیتوں کے ساتھ بھی ہے۔

انکی شکایتوں کی بھی آج تک ہمیں آواز نہیں آئی جس سے یہ بات صاف ثابت ہوتی ہے کے یا تو انکو کوئی شکایت نہیں ہے یا پھر وه خود ہی نہیں ہیں۔

شکایتی ٹٹو زنده قوم کی نشانی ہوتے ہیں۔ مستقل شکایت کرتے رہنا اب ہماری پہچان بن چکا ہے۔ ہمیں یہود و ہنود سے، صدر اوباما کے سوتیلے بھائی سے، آسٹریلیا کے کنگارووں سے، دبئی کی ثقافت سے مبّره زندگی سے، افریقہ کے گھنے جنگلات سے، رَوتسچایلڈ خاندان کے سب اراکین سے، چھوٹی بچیوں کے اسکولوں سے، لڑکیوں کے کالجوں سے، حتٰی کے پوری عورت ذات سے شکایت ہے۔ اور ہو بھی کیوں نہیں، آخر ہم ایک مسلمان قوم ہیں!

آئیے ہاتھ اٹھایں ہم،

ہم جنہیں رسمِ دعا یاد نہیں،

ہم جنہں سوزِ شکایت کے سوا

کوئی بت کوئی خدا یاد نہیں۔

-- فیض

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں