توانائی، تعلیم اور صحت ہمارے ملک کے تین بنیادی مسائل ہیں- توانائی کا مسئلہ ہنگامی نوعیت کا ہے کیونکہ گرمیوں کے اس شدید موسم میں جیسے جیسے درجہ حرارت بڑھتا جارہا ہے سیاسی دباو میں بھی اضافہ ہورہا ہے-

حکومت سیاسی دباو پر اس وقت تک قابو نہیں پاسکتی جب تک کہ طویل گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ میں نمایاں کمی نہ ہو، اور حکومت اس معاملے میں اس حد تک بے بس نظر آتی ہے کہ اس کے ایک اہم وزیر کو یہ کہنا پڑگیا کہ قوم دعا کرے کہ پارہ نیچے آئے اور لوڈ شیڈنگ خودبخود کم ہونے لگے-

صحت اور تعلیم ہمارے ملک کے دو ایسے شعبہ ہیں جنھیں حل کرنے کے لئے نہ تو وفاقی حکومت میں عزم نظر آتا ہے اور نہ ہی صوبائی حکومتوں میں- رواں سال کے بجٹ میں صحت کی مد میں جو رقومات مختص کی گئی ہیں وہ گزشتہ سال کے مقابلے میں یقیناً زیادہ ہیں-

لیکن محض بجٹ میں اضافہ مسئلہ کا حل نہیں ہے کیونکہ یہ دیکھا گیا ہے کہ جو رقومات مختص کی جاتی ہیں وہ مقررہ مدت کے دوران پورے طور پر استعمال نہیں ہوتیں اور دوسرے یہ کہ حکومتوں کی توجہ کا مرکز 'علاج معالجہ' کی جانب زیادہ ہے نہ کہ اس جڑ کو اکھاڑنے کی جانب جو بیماریاں پھیلانے کا سبب ہے-

یوں تو کراچی کی سڑکوں پر اور ملک کے دوسرے حصوں میں بھی ہمیں جگہ جگہ چھوٹے بڑے بورڈ آویزاں نظر آتے ہیں جو ہمیں بتاتے ہیں کہ 'صفائی نصف ایمان ہے'- لیکن عوام کو اس کا شعور دینے میں کوئی خاص کامیابی دکھائی نہیں دیتی- ہم شاید ان کے وجود کے اسقدر اس قدر عادی ہوچکے ہیں کہ انھیں دیکھے بغیر ہی گزرجاتے ہیں اور یہ ہمارے ذہن میں کسی سوچ کو بیدار کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں-

ایسی صورت میں کیا زیادہ بہتر یہ نہ ہوگا کہ جو تنظیمیں یہ بورڈ آویزاں کرتی ہیں وہ اس رقم کو کسی 'عملی قدم' کی شکل دیں- مثلاً جگہ جگہ کوڑے دان رکھوائے جائیں اور محلوں میں اپنی مدد آپ کے تحت لوگوں کو تربیت دی جائے کہ وہ اپنی گلیوں اور سڑکوں پر کوڑا نہ پھیلائیں- اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں ڈرینیج کے مسئلہ کو اپنی مدد آپ کے اصول کے تحت حل کیا گیا-

حقیقت تو یہ ہے کہ ملک کو کوڑے کرکٹ سے صاف رکھنا، اس کے لئے انفرا اسٹرکچر بنانا کھی بھی ہماری حکومتوں کا ---خواہ وہ مقامی حکومتیں ہوں، صوبائی حکومتیں یا وفاقی حکومت--- کسی کے ایجنڈے میں شامل نہیں رہا- ان کی توجہ میگا پروجیکٹوں کی طرف ہوتی ہے جو ان کی سیاسی پبلسٹی کا ذریعہ ہوتے ہیں- یوں بھی صفائی غریب بستیوں کا مسئلہ ہے جن کی طرف دیکھنے کی انھیں فرصت نہیں-

"مالز" کا ایک نمایاں فائدہ یہ نظر آتا ہے کہ یہاں صفائی کی ذمہ داری ان کی انتظامیہ کی ہے جو چوبیسوں گھنٹے چاق و چوبند نظر آتی ہے اور ماننا ہوگا کہ ان کا "ایمان" بیحد پختہ ہے- لیکن ملک کے بڑے بڑے تجارتی مراکز کو دیکھیئے (کراچی کی طارق روڈ، صدر، بندر روڈ وغیرہ) کوڑے کرکٹ کا انبار نظر آتا ہے- یہاں دن رات کروڑوں کا کاروبار ہوتا ہے- کیا ان مراکز کے لئے یہ ممکن نہیں کہ اپنی مدد آپ کے تحت صفائی کا انتظام کریں- ویسے بھی اب ان کا مقابلہ "مالز" کے کلچر سے ہے- ایک صاف ستھرا ماحول خوشگوار تاثر چھوڑتا ہے- آج شاپنگ کرنا محض ایک ضرورت نہیں، امیر ہوں یا غریب وہ اس سے لطف اٹھانا چاہتے ہیں-ایک صحت مند ماحول کاروباری مفاد میں ہے-

کراچی، جسے ملک کی شہہ رگ کہنے سے ہماری زبان نہیں تھکتی، چند ایک پوش علاقوں کو چھوڑ کر آپ کہیں بھی چلے جائیں کوڑے کرکٹ کے انبار، غلاظت کے ڈھیر، کھلے نالے اور نالیاں اور تعفن سے بھری فضا آپ کو مجبور کردیگی کہ آپ بھاگ کھڑے ہوں-

سیاسی جماعتیں یوں تو وقتاً فوقتاً اپنے حامیوں کو نعرے لگوانے، بھیڑ اکٹھا کرنے اور اس طرح کے کاموں کے لئے سرگرم رہتی ہیں انھیں تعمیری سرگرمیوں کے لئے کیوں متحرک نہیں کرتیں؟

یہ سماجی بہبود کا حصہ ہیں اور ان کا پھل براہ راست عوام کو ملےگا- ان کی بستیاں صاف رہینگی اور ان کے سامنے ان جماعتوں کی خدمات کے عملی ثبوت ہونگے جو ان جماعتوں کے لئے مقناطیسی کشش ثابت ہونگے، ان کے حامیوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا- اسکی وجہ سے مقابلہ بھی ہوگا اور 'روشن پاک صاف پاکستان' ٹی-وی کے اسکرینوں پر ہی نہیں آپ کی نظروں کے سامنے ہوگا-

بجٹ میں ہمیں کہیں نظر نہیں آتا کہ حکومتیں (وفاقی اور صوبائی) صحت کے لئے بنیادی انفرا اسٹرکچر فراہم کرنے کے لئے کونسے منصوبے فراہم کررہی ہیں-

کبھی ہم نے سنا تھا کہ کوڑا اٹھانے کی خودکار مشینیں درآمد کی جاینگی، کبھی دیگر ممالک سے معاہدوں کی بات ہوتی ہے، لیکن ابھی تک کوئی جامع منصوبہ نظر نہیں آتا-

بلوچستان سے تازہ ترین خبر یہ ہے کہ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں 22000 ٹن کوڑا کڑکٹ جو پچھلے دس سال سے جمع تھا "ایک دفعہ کے صفائی پروجیکٹ" کے تحت گزشتہ چند دنوں کے دوران صاف کردیا گیا-

یہ پروجیکٹ کوئٹہ میٹرو پولیٹن کارپوریشن سینیٹری ورکرز اور پرائیویٹ کنٹریکٹرز کی مدد سے مکمل کیا گیا- کارپوریشن کے ایڈمنسٹریٹر نے بتایا کہ کارپوریشن 400 ٹن تک کوڑا کرکٹ اٹھا سکتا ہے جبکہ یہاں روزانہ ایک ہزار ٹن تک کوڑا پھینکا جاتا ہے- سینیٹری ورکرز کی تعداد اور فنڈز میں اضافہ کیا جائے تو کارپوریشن اپنے ہدف کو پورا کرسکتا ہے-

دلچسپ بات یہ ہے کہ صفائی کا عملہ ایک ہزار افراد پر مشتمل ہےجس میں سے تقریباً 400 مسلمان ہیں جو عموماً کوڑا اس لئے نہیں اٹھاتے کہ ان کے کپڑے 'ناپاک' ہوجاتے ہیں- ان مسلمان کارکنوں کو مذہبی اور قوم پرست سیاسی پارٹیوں نے ملازمتیں دی تھیں جن کا تعلق پشین، چمن، قلعہ سیف اللہ، مسلم باغ وغیرہ سے تھا- یہ اور بات ہے کہ ان میں سے بیشتر لوگ تنخواہیں تو لیتے تھے لیکن کام نہیں کرتے تھے-

باقی 600 افراد میں سے ڈھائی سو کی ڈیوٹی تو گورنر ہاوس، وزیر اعلیٰ، چیف سکریٹری، صوبائی وزراء، سکریٹریوں اور دیگر سینیئر اہلکاروں کی رہائش گاہوں پر ہوتی ہے، سو افراد کارپوریشن کی صفائی کی مشینوں اور گاڑیوں پر کام کرتے ہیں- باقی رہ گئے 250 سے تین سو افراد تو وہ تیس لاکھ آبادی کے شہر کی صفائی کے ذمہ دار ہیں- آپ خود ہی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ صفائی کس حد تک ممکن ہے-

کوئٹہ کی یہ خبر دوسرے شہروں کے لئے قابل تقلید ہے- لیکن یہ کوئی مستقل حل نہیں- دس سال تک کوڑا کیوں جمع ہوتا رہے کہ ہنگامی اقدامات کی ضرورت پڑے اور دوبارہ وہی مسئلہ سامنے آئے- توانائی کے سرکیولر قرضوں کی ادائیگی کے معاملے میں یہی ہوا- افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم میں ویژن کی کمی ہے اور مسائل کا مستقل حل تلاش کرنے کی عادت ہی نہیں-

صحت عامہ کا مسئلہ صرف علاج معالجہ کی سہولتوں سے حل نہیں ہوسکتا- ضرورت اس بات کی ہے کہ اس جڑ کو کاٹا جائے جو امراض کا سبب بنتی ہے- اس کے لئے صاف ستھرے ماحول، پینے کا صاف پانی اور دیگر حفاظتی اقدامات کی ضرورت ہے-

تبصرے (0) بند ہیں