ایک عہد ساز فیصلہ

24 جولائ 2014
مذہب کا مطلب صرف بے لچک پن اور سخت گیری نہیں ہوتا، مذہبی آزادی میں ضمیر، خیالات، احساسات، عقیدہ سب شامل ہونا چاہئے-  -- فائل فوٹو
مذہب کا مطلب صرف بے لچک پن اور سخت گیری نہیں ہوتا، مذہبی آزادی میں ضمیر، خیالات، احساسات، عقیدہ سب شامل ہونا چاہئے- -- فائل فوٹو

جسٹس تصدق حسین جیلانی نے چیف جسٹس کے عہدہ پر سات مہینے کی اپنی مدت کے اخری دنوں میں ایک معرکۃ لارا فیصلہ دیا تھا جو مذہبی اقلیتوں کے حقوق سے متعلق تھا- یہ فیصلہ جو 19 جون 2014ء کو ایک ایسے مقدمے میں سنایا گیا جو 2013ء میں پشاور میں ایک چرچ کو بمباری کا نشانہ بنانے کے بعد سپریم کورٹ کے سوو موٹو ایکشن کی بنا پر شروع کیا گیا تھا- اس واقعہ میں 100لوگوں کی ہلاکت ہوئی تھی- قانون اور آئین کی حکمرانی اورپاکستان کی عالمی انسانی حقوق کیلئے ذمہ داری کا تقاضہ ہے کہ حکومت اس فیصلہ کو اس کی روح کے مطابق نافذ کرے-

ریاستی اور غیرریاستی ایکٹروں کی جانب سے مذہبی اقلیتوں کا استحصال انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں میں ہے جس کا آج پاکستان کے لوگوں کو سامنا ہے- پاکستان کے انسانی حقوق کے کمیشن HRCP کی حالیہ رپورٹ کے مطابق 2013ء میں 200 فرقہ وارانہ پرتشدد حملوں میں 687 افراد مارے گئے تھے، ہیومن رائٹس واچ نے 2014ء میں 52 شیعہ زائرین کے قتل کا دستاویزی ثبوت پیش کیا ہے- اور پچھلے مہینے میں، اقوام متحدہ کے مذہب اورعقائد کی آزادی کے خصوصی نمائندہ، مسٹر ہائینر بائلیفیلٹ، نے احمدی فرقہ پر حملوں کے تعلق سے اپنی تشویش کا اظہار کیا اور حکومت پاکستان پر زور دیا کہ وہ مذاہب اور عقائد کی آزادی کو یقینی بنانے کی ضمانت دے-

یہ اعدادوشمار ایک نہایت گمبھیر تصویر پیش کرتے ہیں، جسے سپریم کورٹ کے فیصلہ نے صاف صاف واضح کردیا ہے اورپرزور طریقے سے اس کی مذمت کی ہے- لیکن جس وجہ سے اس فیصلہ کا شمار پاکستان کے اہم ترین فیصلوں میں ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اس میں پاکستان کے حالیہ انسانی حقوق کی قانون سازی میں مذہبی آزادی کو فوقیت دینے کی بات کی گئی ہے، اور اس کو عالمی انسانی حقوق کے قوانین سے متصل کرکے، ایک بالکل واضح ہدایت حکومت کیلئے ہے کہ پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کا استحصال مکمل طور پر ختم ہونا چاہئے-

جہاں سپریم کورٹ نے حالیہ سالوں میں آرٹیکل 184(3) کے تحت انسانی حقوق کےحوالے سے اپنے دائرہ اختیار کو کافی بڑھایا ہے، ایسے فیصلے جو آئین میں بنیادی حقوق کے خدوخال کو واضح کرتے ہیں وہ پاکستان کی موجودہ سماجی حقیقتوں اور عالمی قومی ذمہ داریوں کی مناسبت سے حیرت انگیز طور پر کم ہیں اور کبھی کبھی کئے جاتے ہیں- مثال کے طورپر سابق چیف جسٹس افتخار چودھری کے زمانے میں، سپریم کورٹ نے اکثر مقدموں میں مختصر حکم نامے کی بنیاد پر فیصلے کئے ہیں، جس میں کوئی قانونی بحث موجود نہیں ہوتی تھی، بجائے اس کے کہ بنیادی حقوق کے بارے میں قانونی نقطہ نظر سے تفصیلی فیصلہ دیا جاتا-

اس کے برخلاف 19جون کا فیصلہ آئین کے آرٹیکل 20 کی روح کو واضح کرتا ہے اور اس کے دائرے کو بڑھاتا ہے، جس کا مطلب مذہبی آزادی کے حق کی ضمانت دینا ہے- عدالت تفصیل سے یہ بیان کرتی ہے کہ مذہب کا مطلب صرف بے لچک پن اور سخت گیری نہیں ہوتا ، اور پھر بتاتی ہے کہ مذہبی آزادی میں ضمیر، خیالات ، احساسات، عقیدہ اور دھرم سب ہی شامل ہونا چاہئے- عدالت اس کی بھی تفصیل بتاتی ہے کہ فرد کی آزادی اور معاشرتی گروہوں کی آزادی بھی اسی آزادی کا حصہ ہے- اور اس تشریح کی بنا پرپاکستان کا ہر شہری اپنے مذہبی عقائد کی تبلیغ، تشہیر اور تصریح کرنے کیلئے آزاد ہے، چاہے وہ انکے اپنے موجودہ مذہبی فرقہ کے نظریات کے بھی خلاف ہو-

یہ بڑی اہمیت کے حامل اور طاقتور فیصلے ہیں جنہیں سپریم کورٹ کے سابقہ فیصلوں مثلاً ظہیرالدین بنام ریاست 1993 کو چیلنج کرنے کیلئے بھی استعمال کرسکتے ہیں جو کسی طور پرسپریم کورٹ کے آرٹیکل 20 کے موجودہ فیصلے سے مطابقت یا مفاہمت نہیں رکھتے ہیں، یعنی کہ مذہب اور ضمیر کی آزادی کا مطلب ہے کہ اکثریتی مذہب والے اقلیتوں پر اپنی مرضی نہیں تھوپ سکتے-

سپریم کورٹ کے فیصلے کا ایک خوش آئیند پہلو یہ ہے کہ آئین میں مذہبی آزادی کی شقوں کی تشریح بین الاقوامی انسانی حقوق کے معیار اور قانون کی روشنی میں بھی ہے- سپریم کورٹ نے نوٹ کیا کہ یہ معیار" ایک طرح سے اخلاقی بندش کا کام دیتے ہیں اور یہ کوشش مسلسل جاری ہے کہ یہ حقوق گھریلو قوانین کے دائرے میں آجائیں"-

سپریم کورٹ نے طے کردیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 20 میں مذہبی آزادی کے دائرہ عمل میں ضمیر اور عقیدے کی بنیادی آزادی بھی شامل ہے، عدالت کے فیصلے نے ( International Covenant on Civil and Political Rights) کے آرٹیکل 18 اور ہر قسم کے عدم برداشت اور مذہب اور عقیدے کی بنیاد پر ترجیح کے مکمل خاتمہ کا ذکر کیا ہے، جو صاف لفظوں میں خیالات، ضمیر اور مذہب کی آزادی کی ضمانت دیتا ہے-

سپریم کورٹ کا عالمی انسانی حقوق کے قانون اور معیار کو عدالتی اعلانات کے ذریعے گھریلو قوانین کے ساتھ شامل کردینے کا عمل ایک مستحسن قدم ہے، اور امید کی جاسکتی ہے کہ اس کی وجہ سے قانونی حلقوں میں عالمی انسانی حقوق کی مخالفت ختم ہو جائے گی جو انہیں ایک غیرضروری مغربی طرز فکر کہتے ہیں-

اس فیصلے کو مزید استقامت پہنچانے والی بات یہ ہے کہ اس نے واضح اور ضروری ہدایات اس سلسلے میں دی ہیں جس کی دوسری مثال حالیہ پاکستانی عدالتی احکامات میں نہیں نظر آتی ہے، بلکہ جہاں اعلیٰ تصورات کا تاثرکم ہوجاتا ہے جو کمزور فیصلوں کے پیچھے ہوتے ہیں-

بہت ساری عدالتی ہدایات میں HRCP اور دوسری انسانی حقوق کے گروپوں کی سفارشات کی بازگشت سنائی دیتی ہے جو وہ پچھلے کئی سالوں سے مسلسل کرتے آ رہے ہیں, جن میں کچھ تو: مذہبی رواداری کو رائج کرنے کیلئے ٹاسک فورس کا قیام؛ اسکول کے لیول پرمذہبی ہم آہنگی کے تصور کو متعارف کرانے کی یقین دہانی؛ اقلیتوں کے تحفظ کیلئے ایک نیشنل کونسل کا قیام جو مذہبی اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے پالیسی کی سفارشات مہیا کرنے کا کام کرے؛ ایک اسپیشل پولیس فورس کا قیام بھی عمل میں لایا جائے جو مذہبی اقلیتوں کی عبادت گاہوں کی حفاظت کا کام انجام دے؛ اور اس کی یقین دہانی کرائے کہ مجرمانہ کارروائیوں کی صورت میں مرتکب لوگوں کے خلاف فوراً کارروائی کی جائیگی- جس میں جرائم کے واقعات کا رجسٹریشن بھی ہے، تاکہ ان کوجو مذہبی اقلیتوں کے خلاف جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں انصاف کے دائرے میں لایا جائے؛ ور سپریم کورٹ کے ایک اسپیشل بنچ کی تعیناتی جس کا کام اس فیصلے کے نفاذ کی نگرانی اور اقلیتوں کے انسانی حقوق سے متعلق شکایات کا سد باب کرنا ہو-

اس بات کی امید کرنا، کہ سریم کورٹ کا ایک فیصلہ ان تمام ناانصافیوں کی تلافی یا مداوا کردینے کیلئے کافی ہے جومذہبی اقلیتوں کو پاکستان میں آجتک پیش آئی ہیں، نادانی ہے، اور جس کی جڑیں پیچیدہ اورتاریخ میں پیوست ہیں-

بہرحال، سول سوسائیٹی کی مدد اوراس کی حمایت کے ساتھ حکومت کا عدالتی فیصلے کا نفاذ، یقیناً سوچنے کی آزادی، عقائد اور مذہبی آزادی کی سمت میں ایک بہت اہم پیش رفت ہوگی-

انگلش میں پڑھیں


ترجمہ: علی مظفر جعفری

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں