ریاستی تنہائی اور اجتماعی مہاجرت

25 جولائ 2014
جب تک سوچنے اور سوچ کے اظہار کے لیے ممکنہ حد تک ازادی موجود نہ ہو تب تک سماج میں تکثیریت پروان نہیں چڑھ سکتی -- السٹریشن -- خدا بخش ابڑو
جب تک سوچنے اور سوچ کے اظہار کے لیے ممکنہ حد تک ازادی موجود نہ ہو تب تک سماج میں تکثیریت پروان نہیں چڑھ سکتی -- السٹریشن -- خدا بخش ابڑو

بظاہر ریاستی تنہائی اور اجتماعی مہاجرت جیسی حرکیات کے درمیان کوئی تعلق نظر نہیں اتا مگر زرا غور و فکر کے بعد یہ ربط واضح ہوکر سامنے آجاتا ہے۔

کسی درجہ یقین کے ساتھ یہ دعوٰی کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان کی بقا اور ترقی کے لیے تین بنیادی عوامل کی ضرورت ہے؛

پہلا، سیاسی و سماجی استحکام

دوسرا، اقتصادی ترقی اور معاشی خوشحالی

تیسرا، قانون کی بالادستی اور سماجی انصاف۔

پہلے عامل کی تکمیل کا انحصار اس بات پر ہے کہ پاکستان میں جمہوری روئیے اورجمہوری نظام کی جڑیں کس حد تک مضبوط ہوسکتی ہیں- جمہوری رویوں کی بنیادی شرط یہ ہے کہ سماجی طور پر فرد کے لیے سوچ اور اظہار کی ازادی کا دائرہ کتنا وسیع ہے، کیا سوچ کی لہریں دماغ کی خلیوں سے سے نکلتے ہی پھڑپھڑا کر دم توڑ دیتی ہیں یا پھر آزاد فضاؤں میں پرواز کرنے کا حوصلہ رکھتی ہیں؟

کیا اظہار کی گوناگوں شکلیں مختلف النوع پھولوں کا گلدستہ بن جاتی ہیں یا پھر قدغنوں کا شکار ہوکر گلے سڑے پانی کا تالاب بن جاتی ہیں؟

جب تک سوچنے اور سوچ کے اظہار کے لیے ممکنہ حد تک ازادی موجود نہ ہو تب تک سماج میں تکثیریت پروان نہیں چڑھ سکتی اور جس سماج میں تکثیریت کو قید کرنے کی کوشش کی جاتی ہے وہاں تشدد، عدم برداشت اور عدم توازن کے لیے راہیں ہموار ہوجاتی ہیں اور آزادئی فکر و اظہار کے متوالے اس قسم کے سماج سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔

پر تشدد، عدم برداشت اور عدم توازن جسے رجحانات رکھنے والا سماج چونکہ تہذیب کے ساتھ متصادم ہوتا ہے اس لیے دوسرے معاشروں سے کٹ کر رہ جانا فطری نتیجہ ہوتا ہے-

جمہوری رویوں کے مثبت ارتقاء سے جمہوری ادارے وجود میں اتے ہیں۔ جمہوری اداروں اور جمہوری رویوں کے تین بنیادی نتائج ہوتے ہیں-

پہلا نتیجہ یہ ہے کہ سوچ وفکر کی ازادی نئے علم کی تخلیق کا باعث بنتی ہے- نیا علم وسائل، پیداوار اور پیداوار کی منصفانہ تقسیم کے لیے نت نئے طریقے ڈھونڈنے میں مدد دیتا ہے۔

اقتصادی ترقی اور معاشی خوشحالی کے لیے یہ بنیادی شرط ہوتی ہے- یہ اقتصادی ترقی بین الاقوامی منڈی میں کسی بھی ریاست کا حصہ بڑھا دیتی ہے اور اس طرح ریاست سرمایہ کاری کے لیے عالمی مارکیٹ کا اعتماد بھی حاصل کر لیتی ہے اور ساتھ ساتھ سماجی طور پر افراد کے لیے سہولتوں کی بہتات بھی حاصل کر لیتی ہے۔ دوسرا نتیجہ یہ ہے کہ جمہوری رویوں اور جمہوری اداروں کے استحکام سے عام لوگوں کی ضروریات، تقاضے اور سہولیات ریاستی نظام اور سماجی اقدار میں اولیت حاصل کر لیتے ہیں- جس کی وجہ سے ایک طرف سماجی خدمات جیسے تعلیم، صحت اور مواصلات کا دائرہ اور فعالیت بڑھ جاتی ہے اور دوسری طرف منصفانہ تقسیم کے لیے اجتماعی خواہش تقویت حاصل کر لیتی ہے-

انصاف کے نظام تک عام آدمی کی رسائی قانون کی بالادستی کا باعث بنتی ہے- سماجی انصاف کا حصول آسان ہوجاتا ہے اور افراد کی مایوسیاں امیدوں میں تبدیل ہوجاتی ہیں-

تیسرا نتیجہ یہ ہے کے ریاست کے داخلہ و خارجہ پالسیوں کے بنانے میں عام لوگوں کے منتخب اداروں کا آئینی اور اخلاقی جواز کی بنیاد پر موجود کردار کی اہمیت اور ضرورت بڑھ جاتی ہے۔ منتخب ادارے آیئنی دائرے میں رہ کر ایسی پالسیاں بنانے پر مجبور ہوتی ہیں جو عام لوگوں کی اقتصادی ترقی اور سیاسی اختیار پر منتج ہوتی ہیں۔

ریاست کے اندر غیر منتخب اداروں کی پالیسی پر اجارہ داری کے خاتمے کے ساتھ ریاست کا خطے میں سیاسی تنازعات کے حل کے لیے سیاسی مکالمے کے راستے ہموار ہوجاتے ہیں۔

کوئی بھی ریاست اگر اقتصادی عدم فعالیت کا شکار ہوجاتی ہے تو عین ممکن ہے کہ خطے کے اندر اور بین الاقوامی طور پر اعتماد کھو ڈالے۔ دوسرے ممالک کی طرف سے سرمایہ کاری میں کمی واقع ہو اور ساتھ ساتھ نئی ٹیکنالوجی اور جدید ہنر کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہوگا-

یہ صورتحال اگر برقرار رہتی ہے تو ایک طرف سماج کے زہین افراد ریاست سے ہجرت کر جاتے ہیں اور دوسری طرف ریاست تنہائی کے راستے پر گامزن ہوجاتی ہے۔

اگر عام لوگوں کی ضروریات، تقاضے اور سہولیات ریاستی نظام کا حصہ نہیں بن پاَئیں تو غربت اور معاشی بدحالی کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ زہنی اور جسمانی بیماریوں میں بھی اضافہ ہوگا۔ یہ بیماریاں وبائی شکل اختیار کر سکتی ہیں اور عین ممکن ہے کہ خطے کے ممالک اور بین الاقوامی برادری ریاست کے لوگوں کے لیے اپنے دروازے بن کر دیں-

اس طرح اگر ہوجاتا ہے، جسے پاکستان کے حوالے سے پولیو کی شکل میں ہوا، تو ایک طرف ریاست تہذیبی تنہائی کے راستے پر جاسکتی ہے اور دوسری طرف ملک کے اندر مہاجرت کا عمل شروع ہوسکتا ہے۔ اس طرح کی مہاجرت ملکی ابادی کے غیر فطری ارتکاز کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے۔

سرکاری اعداد وشمار کے مطابق دیہاتوں سے شہروں کی طرف اور چھوٹے شہروں سے بڑے شہروں کی طرف نقل مکانی کی سالانہ تعداد لاکھوں میں ہے۔ اسی طرح عقیدے اور فرقے کی بنیاد پر نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے۔

اگر منتخب اداروں کی پالیسی سازی اور فیصلہ سازی کے آئینی اور اخلاقی حق کو تسلیم کرنے میں تأمّل ہوگا تو عین ممکن ہے کہ غیر منتخب ادارے ایسی داخلہ اور خارجہ پالیسیاں ٹھوسنے میں کامیاب ہوجائیں جو ملک، ریاست اور سماج کے عام شہریوں اور عام افراد کے سیاسی، ثقافتی اور اقتصادی تقاضوں کے مطابق نہ ہوں-

مثال کے طور پر پاکستان کے اندر ایسی داخلہ پالسی اپنائی گئی جسکے زریعے اختیار اور وسائل کا ارتکاز عمل میں آگیا۔ یہ رجحان اشرافیت اور آمریت کا باعث بنا- عام لوگ نہ صرف سیاسی فیصلہ سازی میں شرکت سے روک دئیے گئے بلکہ ان کی ضروریات اور تقاضوں کو بھی مد نظر نہیں رکھا گیا. اس کا نتیجہ ایک طرف فرقہ پرستی اور عدمِ برداشت کی شکل میں ظاہر ہوا اور دوسری طرف سماجی اور معاشی جمود کی شکل میں نمودار ہوا-

خارجہ پالسی کے بعض مقاصد کے حصول کے لیے ایسی پالیسی اپنائی گئی جس میں نجی ملیشیا کا کردار اہمیت اختیار کرگیا ۔ نخی ملیشیاؤں کے جواز کے لیے ایسی مذہبی توجیہات کا دروازہ کھل گیا جسکی بنا پر مسلح گروہوں نے اپنی پسند کی توجیہہ سماج پر نافذ کرنے کے لیے کھلم کھلا جنگ شروع کردی- ایک نہ ختم ہونے والی مذہبی جنگی توجیہہ نے نہ صرف سماج کا شیرازہ بکھیر دیا، پاکستان کو خطے اور بین الاقوامی برادری میں اکیلا کر دیا بلکہ پچھلے کئی برسوں سے ان فاشسٹ قوتوں کے ساتھ پاکستانی افواج کی لڑائی کے باعث لاکھوں لوگ اپنے علاقوں سے نقل مکانی کرنے پر مجبورہو گئے۔

پندرہ جون 2014 کو شمالی وزیریستان میں ملکی اور غیر ملکی عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی عملیات کے نتیجے میں تقربیا پانچ لاکھ افراد بے گھر ہوئے- ان بے گھر پاکستانیوں کے ہر خاندان کے ہر فرد کے اندوہ پر کئی لائبریریاں لکھی جاسکتی ہیں۔

ان پاکستانیوں کے لیے پانی، خوراک, جائے پناہ اور بیماری سے بچاؤ کی تدابیر ریاست، وفاقی حکومت، صوبائی حکومتوں اور سول سوسائٹی کی زمہ داری ہے اور اس زمہ داری سے فرار حاصل کرنے کی کوشش اس ریاست کو مزید اندھیروں میں دھکیل سکتی ہے۔

جس طرح عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں کو تباہ کرنے، پاکستان کے اندر پھیلا ہوا انکا دہشت گرد جال توڑنے اور بے گھر افراد کی دیکھ بھال ضروری ہےعین اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ انتہا پسند بیانئے کا متبادل بیانیہ تشکیل دے کر نظامِ تعلیم، نظام سیاست اور نظامِ ابلاغ کا حصہ بنایا جائے۔

یہ تب ممکن ہے جب پاکستان تنہائی اور مہاجرت کی گہری کھائی سے نکل کر سیاسی و سماجی استحکام، اقتصادی ترقی، معاشی خوشحالی، قانون کی بالادستی اور سماجی انصاف کا راستہ اپنائے

شاعر نے کیا خوب کہا ہے؛

یک رنگیء افکار ہے مرگِ دل و دانش

لہریں نہ مٹا، بحر کی زینت نہ رہے گی

تبصرے (2) بند ہیں

اعجاز Jul 25, 2014 01:46pm
نفس مضمون ، وکییبلری اور طرزِ بیان سب بہت اعلی۔۔۔
نوید Jul 26, 2014 03:40am
آخر میں شعر نے پورے مضمون کا خلاصہ بیان کردیا۔ بہت خوب۔