عید پر ان کو نہ بھولیں

اپ ڈیٹ 18 جولائ 2015
اے ایف پی فوٹو
اے ایف پی فوٹو

رمضان کے بابرکت مہینے کا اختتام ہوا- ایک ماہ کے روزوں نے مسلمانوں کو صبر و استقامت اور صلہ رحمی کا درس ایک بار پھر یاد دلایا-

عید کا دن ہماری مہینے بھر کی عبادت و ریاضت کا انعام ہے- سب ہی کو اس دن کا بے صبری سے انتظار ہوتا ہے اور اس کی تیاریاں بھی خوب کی جاتی ہیں- نۓ کپڑے، جوتے، عزیز و اقارب کے لئے تحائف، مہندی، چوڑیاں، لذیذ پکوان و میٹھا عید کے خاص لوازمات ہیں- ان میں سے ایک بھی چیز اگر کم ہو تو ہماری عید روکھی پھیکی محسوس ہوتی ہے …. ہے نا؟

نسیمہ کا تعلق پنجاب کے ایک گاؤں سے ہے، یہ ہر سال رمضان سے کچھ ماہ پہلے کراچی آتی ہے تاکہ یہاں گھروں میں کام کر کے زکوٰة اکھٹی کرلے، اس طرح کچھ عرصے کے لئے اسکی گزر اوقات ہوجاتی ہے اور ضروری کام ہوجاتے ہیں-

اس سال وہ اپنی شادی شدہ بیٹی بلقیس کو بھی ساتھ لے کر آئی ہے- دونوں ماں بیٹی صبح آٹھ بجے گھر سے نکلتی ہیں اور رات نو بجے تک مسلسل بنا آرام مختلف گھروں میں کام کرتی ہیں- تمام کاموں سے فارغ ہونے کے بعد انکا آخری پڑاؤ ہمارا گھر ہوتا ہے-

یہاں دونوں ماں بیٹی تھوڑی دیر سستاتی ہیں میری والدہ سے باتیں کرتی ہیں پھر رات کا کھانا اور برف لے کر رخصت ہوجاتی ہیں- پچھلے دنوں اتفاق سے جب دونوں ماں بیٹی ہمارے گھر آئیں تو ٹی وی پر ایک پرائیویٹ چینل سے کوئی رمضان انعام پروگرام آرہا تھا، جس میں شریک لوگوں میں قیمتی انعامات تقسیم کیے جارہے تھے-

بلقیس تھوڑی دیر تک یہ پروگرام دیکھتی رہی پھر میری والدہ سے بولی؛

"امّی (بلقیس میری والدہ کو امی کہہ کر مخاطب کرتی ہے) ان لوگوں کے پاس کتنا پیسہ ہے جو موبائل، گاڑی، سونا اس طرح لوگوں میں بانٹ رہے ہیں- ایک ہم لوگ ہیں دن رات محنت کرتے ہیں پھر بھی عید پر اپنے بچوں کو نۓ کپڑے تک نہیں پہنا سکتے-"

اس نے بتایا کہ گاؤں میں اکثر ان کے گھر چار پانچ دن تک کھانے میں سبزی یا دال تک نہیں پکتی، گوشت صرف بقرعید پر نصیب ہوتا ہے- عید پر جو کمائی ہوتی ہے اس سے وہ لوگ گھر کی مرمّت، سردیوں کے لئے انتظامات یا علاج معالجے پر خرچ کرتے ہیں-

اس مہنگائی کے دور میں پورا کنبہ مل کر کماتا ہے تب بھی بس اتنا ہی بنتا ہے کہ ایک وقت روٹی کا آسرا ہوجاۓ- اس بار وہ اداس تھی کیونکہ اب اس کی دو بیٹیاں بھی ہیں اور لاکھ محنت کے باوجود دونوں کو عید پر پہنانے کے لئےاس کے پاس نۓ کپڑے نہیں تھے، نا ہی اتنی رقم کہ عید کے دن گھر میں کچھ اچھا پکا سکے-

یہ سب بتاتے ہوۓ بلقیس کے لہجے سے حسرت صاف جھلک رہی تھی- وہ مسلسل ٹی وی کی جانب دیکھ رہی تھی جہاں چینل پر دکھاۓ جانے والے افراد میں سے کوئی بھی اتنا ضرورت مند نظر نہیں آرہا تھا-

یہاں صرف ایک بلقیس ہی نہیں، اگر اپنی سوشل نیٹ ورک کی دنیا سے باہر نکل کر اطراف میں نظر دوڑائیں تو آپ کو کتنے ہی ایسے ضرورتمند نظر آئیں گے جن کے پاس آج عید کے دن اپنے بچوں کو دینے کو کچھ نہیں- جن کی دن رات کی محنت انہیں بمشکل دو وقت کی روٹی ہی دے سکتی ہے-

جس وقت ہم اپنے عزیز و اقارب میں قیمتی تحائف، مٹھائیاں اور عیدیاں بانٹ رھے ہونگے، یہ گھرانے اپنے بچوں کو صبر کی تلقین کر رہے ہونگے اور اگلی عید کا وعدہ کر رہے ہونگے-

آپ کو ایسے لوگوں کی تلاش میں زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں پڑے گی، ممکن ہے ان میں سے کچھ آپ کے رشتہ دار ہی ہوں یا کوئی دوست یا شاید پڑوسی، بات صرف یہ ہے کہ دیکھنے والی نگاہ اور دوسروں کا کرب محسوس کرنے والا چاہیے-

عید موقع ہے خوشیوں کا، ایک دوسرے کے دکھ درد بانٹنے کا تاکہ زندگی سے حسرتوں اور محرومیوں کا درد کچھ وقت کے لئے کم ہو سکے- اس موقع پر ایسے گھرانوں کو نہ بھولیں- خوشیاں انکا بھی حق ہے-

خوشیاں ان آئی ڈی پیز کا بھی حق ہے جو اپنا گھر بار چھوڑ کر میدانوں میں پڑے، موسم کی سختیاں جھیل رہے ہیں- انہیں نہ کھانے پینے کا آسرا ہے نہ ہی علاج معالجے کا-

خوشیاں تھر کے ان قحط کے شکار خاندانوں کا بھی حق ہے- انکو اپنی دعاؤں میں بھی یاد رکھیں اور ان کے لئے مقدور بھر امداد بھی کیجیے-

رمضان میں انسانی ہمدردی کا جو جذبہ آپ کے دلوں میں پیدا ہوتا ہے اسے محض وقتی ابال ثابت نہ ہونے دیں- سال میں صرف ایک مہینہ انسانی خدمت کے لئے مخصوص نہیں ہوتا یہ صرف ایک مشق ہے جس سے آپ کو غریبوں کے دکھ درد کا احساس کرایا جاتا ہے-

اس احساس کو اگلے مہینوں میں معدوم نہ ہونے دیں- کسی خاندان کی کفالت کا ذمہ اٹھائیں، یا کسی غریب اسٹوڈنٹ کی تعلیم کا خرچ- اگر یہ بھی ممکن نہیں تو کسی قابل بھروسہ ٹرسٹ سے رابطہ کریں وہ اس سلسلے میں آپ کی رہنمائی کریں گے-

اگر اس ملک کا ہر گھر کسی ایک محتاج کی کفالت کا ذمہ اٹھالے تو ہمارے وطن سے غربت کا نام و نشان مٹ جاۓ ضرورت بس پکّے ارادے کی ہے- اس عید پر اپنا دل بڑا اور جیبیں کھلی رکھیں، کوشش کیجیے جتنے محتاجوں کی ممکن ہو مدد کریں یقین کیجیے جتنی خوشی اور اطمینان آپ کو یہ سب کر کے ملے گا کسی ڈیزائنر ڈریس یا قیمتی تحفے سے نصیب نہیں ہوگا-

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں