لاہور: لاہور پولیس نے ہفتے کے روز ہلاک ہونے والے ستائیس سالہ کانسٹیبل کے قتل کا 'جھوٹا' مقدمہ ڈاکٹر طاہر القادری اور ان کے حمایتیوں کے خلاف درج کیا۔

ایک پولیس اعلامیے میں اتوار کے روز کانسٹیبل کو 'شہید' ٹہرایا گیا اور پولیس کے گارڈ آف آنر کے ان کا نماز جنازہ قلعہ گجر سنگھ پولیس لائینز میں ادا کیا گیا۔

تاہم کانسٹیبل محمد اشرف آٹھ اگست کی شام کو عارفہ کریم ٹاور کے قریب ایک ٹریفک حادثے میں جاں بحق ہوئے۔ انہیں لاہور کے جنرل ہسپتال منتقل کیا گیا تاہم وہ سر پر آئی چوٹوں کے باعث ہفتے کے روز چل بسے۔

ان کے جاں بحق ہوتے ہی پولیس افسران ان کی ہلاکت کو پاکستان عوامی تحریک کے ساتھ جھڑپوں سے جوڑنے لگے اور بعدازاں نصیر آباد پولیس نے ڈاکٹر قادری اور ان کے کارکنوں کے خلاف مقدمہ درج کرلیا۔

تاہم یہ انکشاف بعد میں سامنے آیا کہ نارووال کا رہائشی اشرف حادثے کے دوران سر پر لگنے والی چوٹوں سے مارا گیا تھا۔

جنرل ہسپتال کے ذرائع نے بتایا کہ اشرف کو جب ہسپتال لایا گیا اس وقت ان کے سر پر متعدد چوٹیں لگی ہوئی تھیں۔

انہوں نے ڈان کو بتایا کہ اشرف کے جسم پر تشدد کے کوئی نشانات موجود نہیں تھے جبکہ ان کی رپورٹ بھی حادثے سے متعلق ہی جاری کی گئی تھی۔

پنجاب حکومت پہلے ہی کانسٹیبل کے لیے ایک کروڑ روپے معاوضے کا اعلان کرچکی ہے جبکہ انہیں 'شہید' بھی قرار دیا جاچکا ہے۔

ڈی آئی جی حیدر اشرف نے کہا ہے کہ اشرف کے والد محمد اسلم نے ابتدائی طور پر پولیس کو بتایا تھا کہ ان کے بیٹے پر عوامی تحریک کے کارکنان نے حملہ کیا ہے اور انہیں ایل جی ایچ منتقل کی گیا ہے۔ بعد میں انہوں نے ڈاکٹر طاہر القادری اور ان کے حمایتیوں کے خلاف مقدمہ درج کروایا۔

قائم مقام کیپیٹل سٹی پولیس آفیسر ذوالفقار حمید کا کہنا ہے کہ اشرف کے والد کے کہنے پر مقدمہ درج کیا گیا تھا تاہم پوسٹ مارٹم رپورٹ اور تحقیقات کے بعد معلوم ہوگا کہ موت کی وجہ کیا تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں