کوئٹہ : بلوچستان کے ضلع خضدار میں دریافت ہونے والی اجتماعی قبروں کی تحقیقات کے لیے قائم عدالتی کمیشن نے اس کیس میں مسلح فورسز اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ملوث ہونے کے امکان کو مسترد کردیا ہے۔

وزیراعلیٰ ڈاکٹر مالک بلوچ نے ضلع تربت کے علاقے توتک میں دریافت ہونے والی اجتماعی قبروں کے معاملے کی تحقیقات کے لیے بلوچستان ہائیکورٹ کے جسٹس نور محمد مسکانزئی کی سربراہی میں عدالتی کمیشن تشکیل دیا تھا۔

عدالتی کمشین کے فیصلے کی خبر سامنے آنے کے بعد انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپس، سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کے اراکین کی جانب سے تنقید کی جارہی ہے۔

کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے" کسی نے بھی مسلح فورسز اور سیکیورٹی ایجنسیوں کے خلاف کوئی بیان ریکارڈ نہیں کرایا، جبکہ انٹیلی جنس اداروں کے خلاف اجتماعی قبروں کے معاملے میں ملوث ہونے کے کوئی شواہد بھی نہیں ملے"۔

تاہم کمیشن نے رپورٹ میں کہا ہے کہ یہ انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ عوام کی زندگیوں اور جائیدادوں کا تحفظ کریں اور اجتماعی قبروں کی دریافت سول انتظامیہ کی غفلت کا نتیجہ ہے۔

رپورٹ میں صوبائی حکومت سے خطے میں امن و امان کو برقرار رکھنے کے لیے اقدامات کا مطالبہ کرتے ہوئے تجویز دی گئی ہے کہ "علاقے میں کوئی بھی پرائیویٹ چیک پوسٹ نہیں ہونی چاہئے"۔

عدالتی کمیشن نے اپنی رپورٹ اس سانحے کی تحقیقات کے بعد حکومت کو جمع کرادی ہے۔

محکمہ داخلہ و قبائلی امور کے مطابق اجتماعی قبر سے سترہ لاشیں برآمد ہوئی تھیں۔

بلوچ قوم پرست رہنماءڈاکٹر حئی بلوچ نے ڈان کو بتایا" توتک میں اجتماعی قبروں سے ملنے والی لاشوں کی تعداد سرکاری اعداووشمار سے کہیں زیادہ ہے"۔

جنوری 2014 میں ایک چرواہے نے توتک کے علاقے میں اجتماعی قبر کو دریافت کیا تھا جس کے بعد عدالتی کمیشن نے ستاون افراد کے بیانات ریکارڈ کیے اور اس کا کہنا ہے کہ 38 گواہوں نے انٹیلی جنس اداروں کے خلاف بیانات ریکارڈ کرائے تاہم وہ اپنے الزامات کو ثابت کرنے میں ناکام رہے۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز نے کمیشن کی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے اسے حقائق چھپانے کی کوشش قرار دیا ہے۔

اس تنظیم کے چیئرمین نصر اللہ بلوچ نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا" سیکیورٹی ایجنسیاں بلوچ عوام کو قتل کرنے اور ان کی لاشوں کو پھینکنے میں ملوث رہی ہیں"۔

خضدار کو بلوچستان کے حساس ترین اضلاع میں سے ایک مانا جاتا ہے جہاں ٹارگٹ کلنگ، بم دھماکوں اور راکٹ حملوں میں متعدد ہلاکتیں ہوچکی ہیں جبکہ بڑی تعداد میں افراد صوبے کے دیگر علاقوں اور سندھ منتقل ہونے پر مجبور ہوگئے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں