اسلام آباد : پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کی جانب سے اپنے حامیوں کو پارلیمنٹ کی عمارت کی جانب بڑھنے اور محاصرہ کرنے کی ہدایت ایک بھیانک خواب ثابت ہوسکتا تھا تاہم صورتحال میں کسی سنگین نقصان سے پہلے ہی بہتری آگئی۔

اس اقدام سے ریڈ زون میں واقع حکومتی اداروں کے تمام ملازمین میں خوف کی لہر پھیل گئی، وزیراعظم سیکرٹریٹ کے اسسٹنٹ پرائیویٹ سیکرٹری عبدالطیف تو پیدل ہی ریڈیو پاکستان کی جانب چلے گئے۔

انہوں نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا" اگرچہ پی اے ٹی کے حامیوں نے وزیراعظم سیکرٹریٹ کے دروازے تو نہیں گرائے، مگر ملازمین اس لیے خوفزدہ ہوگئے کیونکہ انہیں اندازہ نہیں تھا کہ ان کے ساتھ کیا ہوسکتا ہے، مجھے توقع ہے کہ اس معاملے کو دوستانہ انداز میں حل کرلیا جائے گا اور ہر چیز ٹھیک ہوجائے گی"۔

عبدالطیف اس صورتحال سے پریشان ہونے والے واحد فرد نہیں، لگ بھگ ریڈ زون میں کام کرنے والے تمام ملازمین پی اے ٹی کی جانب سے پارلیمنٹ ہاﺅس کے ارگرد قبضہ کرنے کے فیصلے پر دہشت زدہ ہوگئے تھے۔

ریڈ زون میں ایک پٹرول پمپ پر کام کرنے والے منظر حسین تنولی کا کہنا تھا کہ اسٹیشن کی انتظامیہ نے اسے ایک دن کے لیے بند کرنے کا فیصلہ کیا۔

اس نے بتایا" یہ فیصلہ مشینری کو کسی قسم کے نقصان سے بچانے کے لیے کیا گیا۔

ریڈ زون سے نکلنے والے عدنان احمد نامی شخص نے ڈان کو بتایا کہ گزشتہ ایک ہفتے سے علاقہ بند ہونے کے باعث ریڈ زون میں کام کرنے والے افراد کو مشکلات کا سامنا تھا، تاہم جب سے مظاہرین اندر داخل ہوئے ہیں، یہاں آنا جانا ہر ایک کے لیے آسان ہوگیا ہے۔

اس کا کہنا تھا" ملازمین دفاتر تک پہنچنے کے لیے مرگلہ روڈ استعمال کررہے تھے جو نہ صرف مالی بوجھ کا سبب تھا بلکہ وقت کا ضیاع بھی ہوتا تھا، مجھے یقین ہے کہ یہ معاملہ جلد حل ہوجائے گا اور اس بعد حکومت عوام کی بہتری کے لیے کام کرے گی"۔

عدنان احمد نے کہا" پی اے ٹی کے کارکنوں نے پارلیمنٹ ہاﺅس کے دروازے بلا کردیئے ہیں، مگر ان کے اس اقدام سے صرف ملازمین ہی متاثر ہوئے ہیں، اراکین اسمبلی اور دیگر اہم شخصیات پارلیمان سے ایوان صدر کے راستے نکل گئے مگر ملازین وہیں پھنسے رہ گئے، جو لوگ ایوان صدر سے نکلنے میں کامیاب بھی ہوئے انہیں کئی کلومیٹر تک پیدل چلنا پڑا"۔

پی اے ٹی کے میڈیا کوآرڈنیٹر غلام علی نے ڈان کو بتایا کہ طاہر القادری نے اپنے حامیوں کو پارلیمنٹ کے دروازے بلاک کرنے کی ہدایت کی تھی۔

انہوں نے مزید بتایا" مگر کچھ دیر بعد جب ہمیں یہ معلوم ہوا کہ ایوان صدر سے بھی اخراج کا راستہ موجود ہے جہاں سے بیشتر افراد باہر نکلنے میں کامیاب رہے"۔

انہوں نے کہا کہ پارٹی ورکرز ڈاکٹر طاہر القادری کے مزید احکامات تک اپنا دھرنا جاری رکھیں گے۔

ریڈیو پاکستان چوک کی بندش

ریڈ زون میں مظاہرین کے داخلے کے بعد اس علاقے سے لوگوں کی آمدورفت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے، سیکیورٹی حکام کی جانب سے منگل کی شب مارچ کے شرکاءکی پیشرفت پر کوئی مزاحمت نہیں کی گئی تھی۔

بارہ کہو پولیس سٹیشن کے سب انسپکٹر محمد عثمان عباسی نے ڈان کو بتایا کہ لوگوں کی آمدورفت کے اضافے کے بعد ہم نے ریڈیو پاکستان چوک کو کنٹینرز کی مدد سے بند کرنے کا فیصلہ کیا۔

سب انسپکٹر کا کہنا تھا" پولیس کو ہدایت کی گئی ہے کہ کسی کو بھی ریڈ زون میں ریڈیو پاکستان چوک سے داخل ہونے کی اجازت نہیں جائے، تاہم لوگ ڈپلومیٹک انکلیو کے اطراف سے آسکتے ہیں"۔

پھولوں کی کیاریوں پر ورکرز کا ڈیرا

اپنے خوبصورت لانز، کھلے ہوئے پھولوں سے سجی زمین اور دیگر کی بدولت شارع دستور وفاقی دارالحکومت کا ایک خوبصورت ترین علاقہ سمجھا جاتا ہے۔

بدقسمتی سے ریڈ زون کے تمام باغات ہزاروں افراد کے دھرنے کے باعث خطرے کی زد میں ہے۔

منگل کی شب شارع دستور پہنچنے والے ورکرز گرین بیلٹس کو بستر کو طور پر استعمال کررہے ہیں، پی اے ٹی کے ورکرز نے نہ صرف پھولوں کو نقصان پہنچایا ہے بلکہ وہ ان پر بیٹھ بھی جاتے ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کے سینکڑوں ایسے کارکن جن کے پاس شہر میں رہنے کے لیے کوئی جگہ نہیں وہ پندرہ اگست سے دھرنے کے مقام پر مقیم ہیں، خاص طور پر نادرا ہیڈکوارٹرز کے پاس موجود گرین بیلٹس ان کا ٹھکانہ ہیں۔

اگرچہ نادرا آفس کے قریب ایک نالہ سیوریج کا پانی لے کر جاتا ہے مگر کچھ پی ٹی آئی ورکرز اسی پانی میں نہاتے بھی نظر آتے ہیں۔

سی ڈی اے کے ایک اہلکار نے بتایا کہ ہم لوگ ہر موسم میں زمین کو تبدیل کرنے کے لیے بہت محنت کرتے ہیں، ہماری ایک نرسری چک شہزاد میں ہے جہاں پودوں کی افزائش کی جاتی ہے اور پھر انہیں گرین بیلٹ میں لگایا جاتا ہے۔

اس کا کہنا تھا" ایک واٹر ٹینکر خاص طور پر ان پودوں کو پانی دینے کے لیے مختص ہے، دونوں پارٹیوں کے ورکرز کو اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ پودوں کو کوئی نقصان نہ پہنچے"۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں