سیالکوٹ کے لطیف کی آخری تصویر

اپ ڈیٹ 26 اگست 2014
محمد لطیف  23 اگست کو سیالکوٹ ورکنگ باؤنڈری کے قریب ایک گاؤں میں واقع اپنا تباہ حال گھر صحافیوں کو دکھا رہا ہے—۔فوٹو ڈان
محمد لطیف 23 اگست کو سیالکوٹ ورکنگ باؤنڈری کے قریب ایک گاؤں میں واقع اپنا تباہ حال گھر صحافیوں کو دکھا رہا ہے—۔فوٹو ڈان

سیالکوٹ: کہتے ہیں کہ موت کا ایک دن متعین ہے، اور واقعی سچ بھی یہی ہے۔ کسے خبر آج ہم کسی تصویر کا حصہ ہیں اور اگلے ہی لمحے، اگلے ہی پل ماضی کا حصہ بن جائیں۔

ایسا ہی کچھ سیالکوٹ کے ایک گاؤں میں رہنے والے موچی محمد لطیف کے ساتھ بھی ہوا۔

پینسٹھ سالہ محمد لطیف گاؤں باجرہ گڑھی میں 23 اگست کو ہندوستانی سرحد کے قریب سیکیورٹی فورسز کی بلا اشتعال فائرنگ سے تباہ ہونے والا اپنا گھر صحافیوں کو دکھا رہا تھا، لیکن اسے اس بات کی بالکل خبر نہ تھی کہ اس کہانی کا ایک المناک انجام ابھی باقی ہے۔

اور وہی ہوا۔ محض دو دن بعد ہی محمد لطیف ہندوستانی فوج کی جانب سے داغے گئے ایک شیل کا نشانہ بنا اور اس کی زندگی کا باب نہایت دردناک انداز میں ختم ہوگیا۔

محمد لطیف کے اہل خانہ انڈین فوج کی فائرنگ سے بچنے کے لیے محفوظ مقام پر منتقل ہوگئے تھے، لیکن محمد لطیف کی زندگی کا انجام شاید یوں ہی ہونا تھا، یہی وجہ تھی کہ وہ اپنے گاؤں میں موجود تھا۔

اپنی موت سے دو دن قبل اپنے گھر کے ملبے پر بیٹھے محمد لطیف نے ڈان کو ان تمام مشکلات کے بارے میں بتایا جو اسے اور سیالکوٹ کے قریب پاک و ہند سرحد کے اطراف واقع دیگر گاؤں کے لوگوں کو ہندوستانی فوج کی بلا اشتعال فائرنگ کے نتیجے میں اُٹھانی پڑتی ہیں۔

لطیف کا کہنا تھا کہ کچھ عرصے سے ہندوستانی فوج کی فائرنگ معمول کا حصہ بن گئی ہے۔

مقامی افراد کے مطابق غریب موچی لطیف نمازِفجر ادا کرنے کے لیے گاؤں کی مسجد جارہا تھا کہ ہندوستانی فوج کی فائرنگ کی زَد میں آگیا۔

فائرنگ کے نتیجے میں لطیف کے ہاتھوں اور ٹانگوں پر زخم آئے تھے۔

ریسکیو 1122 کے رضا کاروں نے زخمی حالت میں لطیف کو سیالکوٹ کمبائن ملٹری ہسپتال (سی ایم ایچ) منتقل کردیا تھا، تاہم پیر کو زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے وہ خالق حقیقی سے جا ملا۔

محمد لطیف کو اس کے آبائی گاؤں میں آہوں اور سسکیوں کے ساتھ دفن کیا گیا، تدفین میں لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

یوں محمد لطیف کی زندگی کا باب تو ختم ہو گیا لیکن اس کی آخری تصویر اب بھی محفوظ ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں