ایک طرف جوش، دوسری جانب تھکن

اپ ڈیٹ 26 اگست 2014
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ ایک بار پھر حکومت پر خوب گرجے اور برسے۔ —. فوٹو اے ایف پی
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ ایک بار پھر حکومت پر خوب گرجے اور برسے۔ —. فوٹو اے ایف پی

اسلام آباد: پیر کے روز پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے انتخابی دھاندلی کے حوالے سے اپنے الزامات کو جذباتی انداز میں دوہرایا۔

تاہم پیر کے روز سابق کرکٹر نے ایک انٹرویو کے دوران قابل غور انتخابی مسائل پر بات کرنے کے لیے سابق انتخابی اہلکار کا شکریہ ادا کیا۔

یاد رہے کہ الیکشن کمیشن سابق عہدے دار نے اتوار کی رات اپنے انٹرویو میں مئی 2013ء کے انتخابات میں دھاندلی کا الزام عائد کیا تھا۔

اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ عمران خان نے کہا کہ انہیں مئی 2013ء کے انتخابات میں دھاندلی کے حوالے سے کوئی شک نہیں کہ یہ مسلم لیگ ن کی قیادت کی جانب سے کی گئی تھی۔

انہوں نے اپنے اس عزم کو دوہرایا کہ وہ ’آزادی مارچ‘ کو چھوڑ کر نہیں جائیں گے، جب تک کہ وزیراعظم نواز شریف استعفٰی نہیں دے دیتے۔

تاہم استعفے کے بعد بھی وہ حکمران جماعت کو معاف کرنے پر آمادہ نہیں تھے۔

’’گو نواز گو‘‘ کے نعرے لگاتے ہوئے جذباتی ہجوم سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے الزام عائد کیا کہ ملک بھر میں ریلیوں کے انعقاد کے لیے مسلم لیگ ن اور جمیعت علمائے اسلام-ف کی قیادت اپنے حامیوں کو رقم تقسیم کر رہی ہے۔

پی ٹی آئی کے سربراہ نے ان افواہوں کا تذکرہ بھی کیا، جو پیر کو سارا دن گردش کرتی رہی تھیں، کہ حکومت کانسٹیٹیوشن ایونیو کو خالی کروانے کے سپریم کورٹ کے حکم کی پیروی میں ہجوم پر کارروائی کرے گی۔

انہوں نے تشدد کے استعمال پر حکومت کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ جمہوریت کی روح کے خلاف ہوگا۔‘‘

انہوں نے گرجتے ہوئے کہا ’’میرے پیارے کارکنوں، میں یہاں آپ کے لیے موجود ہوں، میں نواز شریف کے استعفے تک یہاں موجود رہوں گا۔‘‘

چاہے یہ اچانک بارش کے برسنے کا نتیجہ تھا کہ جس کی وجہ سے اسلام آباد کا موسم بہتر ہوگیا تھا، یا پھر اس کی وجہ اتوار کی رات کیے جانے والے انکشافات کی وجہ سے اس ڈرامے میں حالیہ ٹوئسٹ اس کی وجہ تھی کہ یہ ہجوم جوش اور توانائی سے بھرپور ہوگیا تھا۔

تاہم اس ہجوم کی تعداد گزشتہ رات سے کم لگ رہی تھی۔

عمران خان نے کہا ’’الیکشن کمیشن کے سابق ایڈیشنل سیکریٹری افضل خان کے انکشافات کے بعد یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی ہے کہ مئی 2013ء کے عام انتخابات دھاندلی کے واقعات سے بھرپور تھے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال کے انتخابات میں دھاندلی کے حوالے سے پی ٹی آئی کے الزامات کی ای سی پی کے سابق اہلکار نے تصدیق کردی۔

اس کے بعد انہوں نے ’’ان الزامات کے ثابت ہونے ‘‘ کے لیے اللہ کا شکر ادا کیا۔

عمران خان نے پنجاب سے الیکشن کمیشن کے رکن ریٹائرڈ جسٹس ریاض کیانی پر بھی الزام عائد کیا کہ انہیں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی جانب سے مقرر کیا گیا تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ افضال خان نے یہاں تک تصدیق کی ہے کہ ریٹرننگ افسران الیکشن کمیشن کی نگرانی میں کام نہیں کررہے تھے۔

ان کا کہنا تھا ’’انتخابات کے دوران سابق چیف جسٹس نے دھاندلی میں اہم کردار ادا کیا تھا، اور ن لیگ کی انتخابی کامیابی میں مدد کی تھی۔‘‘

عمران خان نے اس بات پر دوبارہ زور دیا کہ ’’اگر ایک آزاد کمیشن اس سلسلے میں انکوائری شروع کردے‘‘تو سابق چیف جسٹس کے کردار کو ثابت کیا جاسکتا ہے۔

ان کی اس بات پر ہجوم مسحور ہوگیا۔


تھکن بڑھ گئی


پاکستان عوامی تحریک کے کارکنان پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے آرام کررہے ہیں۔ —. فوٹو اے ایف پی
پاکستان عوامی تحریک کے کارکنان پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے آرام کررہے ہیں۔ —. فوٹو اے ایف پی

قریب میں ہی پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) کا مجمع مقابلتاً تھکن سے دوچار دکھائی دیا، باوجود اس کے کہ ان کے رہنما نے اپنی انتہائی جذباتی تقریر میں حکومت کو 48 گھنٹوں کی ڈیڈلائن دی تھی۔

گوکہ پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ کی تقریر سے ان کے پیروکاروں کے آنسو نکل آئے، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ شہادت کے لیے تیار ہیں۔ لیکن اس سے بھی دھرنے سے متعلق شکوک و شبہات کو روکا نہیں جاسکا۔

یہاں تک کہ ان کے پیروکاروں میں سے چند سرگوشیوں میں ایک دوسرے سے دھرنے میں شرکت پر اپنے افسوس کا اظہار کر رہے تھے۔

لاہور کی ایک رہائشی ثوبیہ خان کی ہی مثال لے لیجیے، وہ ڈی چوک پر اپنے سات ماہ کی بیٹی اور اپنے شوہر کے ہمراہ آئی تھیں۔

وہ محسوس کرتی ہیں کہ یہ امر نہایت دشوار دکھائی دے رہا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف استعفٰی دے دیں گے۔

انہوں نے کہا ’’میری بیٹی کے لیے گرمی برداشت کرنا بہت مشکل ہوگیا ہے۔‘‘

ثوبیہ نے کہا ’’میں اس کے بارے میں بہت فکرمند ہوں۔‘‘

حنا نصراللہ، گوجرانوالہ سے تعلق رکھتی ہیں اور انگریزی ادب میں ماسٹر کررہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ لڑکیوں کے لیے گھاس پر سونا نہایت مشکل ہے۔

’’میرا موبائل فون بھی یہاں کھو گیا ہے، اور اب مجھے اپنی والدہ کے ساتھ رابطہ کرنا مشکل ہوگیا ہے۔‘‘

یہ بائیس برس کی لڑکی اپنی والدہ کی خواہش کے برخلاف تنہا یہاں آئی ہے، ان کے والد بیرون ملک کام کرتے ہیں۔

لیکن اب حنا سوچتی ہیں کہ ان کی والدہ کا خیال درست تھا۔

حنا کے برعکس چودہ برس کی نور فاطمہ کو ان کے والد یہاں احتجاج کے لیے اپنے ساتھ لائے ہیں، جو پی اے ٹی کے سربراہ کے حمایتی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا ’’اگرچہ کھانے پینے کا کوئی مسئلہ نہیں ہے، ہم باتھ رومز جانے کے لیے پارلیمنٹ لاجز چلے جاتے ہیں۔‘‘

حنا نے ڈان کو بتایا ’’پی ٹی آئی کے کارکنوں کی طرح یہاں تین سے چار گھنٹے گزارنا آسان ہے، لیکن کھلے آسمان کےنیچے سارا دن اور ساری رات گزارنا آسان نہیں ہے۔‘‘

لیکن اپنی تھکن اور تحفظات کے باوجود ان میں سے چند افراد ہی ایسے ہیں جن کا کہنا ہے کہ وہ یہاں سے جانا چاہتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں