اسلام آباد: الیکشن کمیشن آف پاکستان نے انتخابی عمل کو مزید شفاف اور قابل اعتماد بنانے کے نکتہ نظر کے ساتھ ریٹرننگ افسران، ضلعی ریٹرننگ افسران اور پریزائڈنگ افسران کے سمیت پولنگ کے تمام عملےپر مؤثر کنڑول کے حصول کی درخواست کی ہے۔

متفقہ انتخابی قانون 2014ء کے مسودے پر نظرثانی کے لیے قائم انتخابی اصلاحات کی پارلیمانی کمیٹی کے سامنے الیکشن کمیشن کے سیکریٹری اشتیاق احمد خان نے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ اس سلسلے میں ایک بل کا مسودہ پہلے ہی وزارتِ قانون کو بھیج دیا گیا ہے۔

یہ معاملہ ان حالات میں سامنے آیا ہے، جبکہ 2013ء کے انتخابات میں انتخابی عملے کے کردار کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

بہت سے لوگ حیرت زدہ ہیں کہ آخر یہ معاملہ اس وقت کسی نے کیوں نہیں اُٹھایا تھا، جبکہ مختلف انتخابی حلقوں میں نادار کی جانب سے ووٹروں کے انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق کے دوران یہ انکشاف ہوا تھا کہ لوگوں کی جانب سے ایک سے زیادہ ووٹ ڈالے گئے تھے، جو کہ انتخابی عملے کی ملی بھگت کے بغیر ناممکن تھا۔

فوری قانون سازی کی ضرورت سے متعلق اہم سفارشات پر روشنی ڈالتے ہوئے الیکشن کمیشن کے سیکریٹری نے تجویز پیش کی کہ نئی مردم شماری کی بنیاد پر جیوگرافک انفارمیشن سسٹم (جی آئی ایس) کا استعمال کرتے ہوئے انتخابی حلقوں کی نئی حدبندی کی جائے۔

انہوں نے کہا کہ نئی مردم شماری پہلے ضروری تھی، اس لیے کہ 1998ء سے اب تک بہت بڑی جغرافیائی تبدیلیاں رونما ہوچکی ہیں۔

اسمبلیوں کی مدت کی تکمیل یا مدت کی تکمیل سے قبل تحلیل کیے جانے کی ہر دو صورت میں انتخابات کے انعقاد کے لیے انہوں نے 120 دنوں کے ٹائم فریم کا مشورہ دیا۔

انہوں نے کہا کہ انتخابی پروگرام کی ہر طرح کی انتخابی سرگرمیوں کے لیے ٹائم فریم میں اضافہ کیا جانا چاہیٔے، اور پولنگ اسٹیشنوں اور انتخابی عملے کی فہرست کو انتخابات سے 60 دن پہلے حتمی صورت دی جانی چاہیٔے۔

اشتیاق احمد خان نے کہا کہ بایو میٹرک سسٹم اور الیکٹرانک مشین متعارف کراونے کے لیے قانون سازی کی جانی چاہیٔے۔

مختلف ملکوں میں مقیم پاکستانیوں کو بیرون ملک سے اپنے ووٹ کا حق استعمال کرنے کے قانون سازی کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے ایک بل سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے سامنے زیرِ التواء پڑا ہوا ہے۔

اشتیاق احمد خان نے کہا کہ اورسیز پاکستانی کی وزارت کی جانب سے پہلے سے پیش کیے گئے ایک بل پر بھی یہ کمیٹی غور کرسکتی ہے، جس میں تجویز دی گئی تھی کہ تارکین وطن پاکستانیوں کی قومی و صوبائی اسمبلیوں میں نمائندگی کو یقینی بنایا جائے۔

انہوں نے قومی و صوبائی اسمبلیوں میں خواتین اور غیرمسلموں کی محفوظ نشستوں کے موجودہ نظام کا جائزہ لینے کا مشورہ بھی دیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ دیکھا جائے کہ سیاسی جماعتوں کو نشستوں کی تقسیم کا موجودہ طریقہ کار جس میں ہر سیاسی جماعت کو عام نشستوں کی تعداد کی بنیاد پر مخصوص نشستیں دی جاتی ہیں، اس کو زیادہ بہتر جمہوری طریقہ کار سے تبدیل کیا جاسکتا ہے اور سیاسی جماعت کو حاصل ہونے والے ووٹوں کی بنیاد پر اس طرح کی نشستیں تقسیم کی جاسکتی ہیں۔

الیکشن کمیشن کے سیکریٹری نے کہا کہ مجوزہ طریقہ کار کے تحت مخصوص نشستوں کے لیے نامزد امیدواروں کی فہرست ہر سیاسی جماعت کا پارٹی لیڈر ریٹرننگ آفیسر یا صوبائی الیکشن کمیشن کے پاس جمع کراسکتا ہے۔

اس اجلاس کے شرکاء میں سے ایک نے ڈان کو بتایا کہ یہ پارلیمانی پینل حیرت زدہ رہ گیا کہ آخر نادرا کی جانب سے ووٹوں کی اس قدر بڑی تعداد کی تصدیق کیوں نہیں کی جاسکی۔

الیکشن کمیشن کے سیکریٹری نے کہا کہ مقناطیسی سیاہی کی تفصیلات نادرا کی جانب سے دی گئی تھی، اور اس سیاہی کو وزارتِ سائنس اور ٹیکنالوجی کے ایک ذیلی ادارے پاکستان کونسل آف سائنٹیفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ (پی سی ایس آئی آر) نے تیار کیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں