اسلام آباد: الیکشن کمیشن آف پاکستان نے عام انتخابات 2013ء میں دھاندلی کے حوالے سے لگائے گئے الزامات کو مسترد کردیا ہے۔

قائم مقام چیف الیکشن کمشنر جسٹس انور ظہیر جمالی کی زیرِ صدارت گزشتہ روز اہم اجلاس ہوا، جس میں الیکشن کمیشن کے سابق رکن افضل خان کی جانب سے حال ہی میں لگائے گئے الزامات کی مذمّت کی گئی۔

اس موقع پر کمیشن کو بتایا گیا کہ عام انتخابات کے شفاف ہونے کی غیر ملکی مبصرین نے بھی تعریف کی تھی۔

اجلاس کے دوران جسٹس انور نے انتخابات میں دھاندلی اور اس کے اراکین کو برطرف کرنے کے مطالبے کو غیر آئینی قرار دیا۔

سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے یہ اجلاس الیکشن کمیشن کے ہیڈکوارٹر کے بجائے ایک ہوٹل میں منعقد ہوا۔

اجلاس میں کہا گیا کہ ای سی پی کے اراکین کی برطرفی کا طریقۂ کار صرف آئین میں موجود ہے اور کسی بھی غیر آئینی طریقے سے انہیں عہدے سے معطل نہیں کیا جاسکتا۔

یاد رہے کہ الیکشن کمیشن کے سابق ایڈیشنل سیکریٹری افضل خان نے ایک ٹی وی انٹرویو میں دعویٰ کیا تھا کہ 2013ء کے عام انتخابات کے دوران سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی دھاندلی میں ملؤث تھے اور اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر اس صورتحال سے خوفزدہ تھے، جبکہ جسٹس (ر) ریاض کیانی نے انتخابات میں منظم طریقے سے دھاندلی کی اور نظام کو تباہ کرکے رکھ دیا تھا۔

ریٹرننگ افسران کی تقرری کے حوالے سے کمیشن کا کہنا تھا کہ ستمبر 2012ء کے دوران ہونے والے مشاورتی اجلاس میں سیاسی جماعتوں کی اکثریت نے اس بات پر زور دیا تھا کہ جوڈیشل افسران کی تقرری الیکشن کمیشن کے ایکٹ ڈی آر او کے تحت کی جائے۔

اجلاس میں یہ بھی کہا گیا کہ جوڈیشل پالیسی 2009ء میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ عدلیہ انتخابات کے عمل میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کرے گی۔

تاہم اس وقت ای سی پی کی درخواست پر چاروں صوبوں کے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس پر مشتمل ایک نیشنل جوڈیشل فورم نے جوڈیشل افسران کو ہدایت کی تھی کہ وہ انتخابات کے عمل میں اپنا کردار ادا کریں۔

نو مئی کو اضافی بیلیٹ پیپر سے متعلق الزامات پر کمیشن نے کہا کہ اس الزام میں کسی قسم کی صداقت نہیں ہے اور پی سی سی پنجاب محمد انور پہلے ہی اس کی تردید کرچکے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں