انقلاب معافی چاہتا ہے

29 اگست 2014
ڈی چوک وہ سیاسی چراغ ہے جس کو اگر ضدی شہزادے کافی حد تک رگڑ دیں تو کچھ پتا نہیں اس میں سے انقلاب کا جن نکل ہی آئے — فوٹو اے ایف پی
ڈی چوک وہ سیاسی چراغ ہے جس کو اگر ضدی شہزادے کافی حد تک رگڑ دیں تو کچھ پتا نہیں اس میں سے انقلاب کا جن نکل ہی آئے — فوٹو اے ایف پی

پاکستانی عوام نعروں کے ان تازہ جھونکوں میں بھول گئے ہیں، کہ تحریر اسکوائر میں ایک نہیں دو انقلاب آئے اور دوسرے کا منطقی انجام وہی ہوا تھا جو پاکستان کی تاریخ کے ساتھ ببل گم بن کر چپکا ہوا ہے۔ جنرل سیسی اب جو کچھ مصر میں کر رہے ہیں وہ ان انقلابیوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا، البتہ ہمارا سب سے بڑا وہم یہی ہے۔

میرا خیال ہے کہ تحریر اسکوائر کے اس منطقی انجام کو دیکھ کر کم از کم اس کو انقلاب کا استعارہ نہیں بنانا چاہے۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کوئی مائی کا لال ڈی چوک اور ریڈ زون کو رگید رگید کر اسے نیا تحریر اسکوائر نہیں بنا سکتا۔ یہ وہ سیاسی چراغ ہے جس کے بارے میں گمان ہے کہ اگر اس کو ضدی شہزادے کافی حد تک رگڑ دیں تو کچھ پتا نہیں اس میں سے انقلاب کا جن نکل ہی آئے۔

سوال یہ نہیں ہے کہ انقلاب آئے گا یا نہیں سوال صرف یہ ہے کہ کیا اس انقلاب اور عوام میں کوئی مقناطیسی رابطہ ہے یا یہ کچھ افراد ہیں جو یہ انقلاب قوم پر تھوپنا چاہتے ہیں؟ البتہ اسمیں کوئی شبہہ نہیں ہے کہ فیس بک پر انقلاب آچکا ہے اور جیسے وہاں پر ہزاروں پاکستانیوں نے فلسطین کو اسرائیلی شکنجے سے آزاد کروا دیا تھا ویسے ہی انقلاب بھی لے آئے ہیں۔ یہاں یہ بھی یاد رہے کے مصر میں بھی فیس بک تھا مگر تحریر اسکوائر میں عوامی مینڈیٹ جمع ہوگیا تھا مگر ریڈ زون میں عوامی مینڈیٹ آج بھی جمع نہیں ہوا۔ لگتا ہے انقلاب ہم سے معافی چاہتا ہے۔

چلیے کچھ لمحوں کے لیے مصری انقلاب کے خوفناک خدوخال بھول جاتے ہیں اور پاکستان کے اس زبردستی کے انقلاب کو پاکستان کے اندر بیٹھ کر دیکھ لیتے ہیں۔ ایک طرف وہ کئی ہزار لوگ ہیں جو اب ریڈ زون کی پوتر سڑکوں اور باغوں کو بیت الخلا بنا کر بیٹھے ہیں اور روزانہ کم از کم اس انقلابی مہم میں تو اضافہ کر رہے ہیں، مگر دوسری طرف اس انقلاب کی اصل جنگ میڈیا پر جاری ہے اور وہیں یا تو اسکو وضو کروایا جا رہا ہے یا یہ کفر و انتشار کے فتوے بھگت رہا ہے۔ ہمارا میڈیا ایک بے لگام مکینک ہے جو ایک طرف اس انقلابی قافلے سے یا تو ہوا نکال رہا ہے یا پھراس کے پنکچر لگا رہا ہے۔ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ اس انقلاب کی جنگ میڈیا پر ہی لڑی جا رہی ہے اور پاکستانی عوام پاپ کارن لیے اپنی اپنی سکرینوں سے چپکے بیٹھے ہیں اور کوئی اس اونٹ کے حق میں آواز نہیں اٹھا رہا کہ اس کو ایک نوزائیدہ بچے کی طرح زبردستی کروٹ کیوں دلوائی جا رہی ہے۔ عوامی فیصلہ کہاں ہے؟

ایک اور بات جو سمجھ نہیں آتی وہ یہ ہے کہ یہ کیسے ممکن ہوا کہ اس تحریک میں انقلاب اور پرامن جیسی دو اضداد ایک ساتھ کیسے آ بیٹھی ہیں۔ تعداد کا جھگڑا جاری تھا کہ اس انقلاب کی مٹی سے اصلی جھگڑوں کی کونپلیں بھی پھوٹنی شروع ہو گئی۔ سو اگر آپ انقلاب کو انقلاب نہیں بنا سکتے تو وہ خود یہ ڈیوٹی انجام دے لے گا اور پرامن صرف کنٹینروں کے اوپر کھڑے خدا رسول کے واسطے دینے والے رہ جایئں گے جو ان اضافی چارجڈ دھرنا گردوں کو اکیلے 18 کروڑ عوام کے مستقبل کی اینٹ سے اینٹ بجاتے دیکھتے رہیں گے۔

اور پھر ذمہ دار کون ہوگا؟

تاریخ کس کو کوسے گی؟ آپ ہزاروں نام لکھ دیں مگر ہیں صرف دو ہی، عمران خان اور شہباز شریف۔ ان دو حضرات کی ضد آج ملکی سالمیت کے تناظر میں ایک طرف کھڑی ہے اور پوری دنیا کے پاکستان کے بارے میں خطرناک عزائم دوسری طرف کھڑے ہیں۔

اگلا سوال یہ ہے کہ یہ انقلاب ہے کس کا؟ دھرنوں کی کال کی جاتی ہے تو لاہور میں لالک چوک ڈیفنس میں دھرنا دیا جاتا ہے اور کراچی میں سی ویو ڈی ایچ اے میں۔ ان دھرنیوں کے بانی دھرنے کو دیکھیں تو وہاں بھی اپر مڈل کلاس اور ایلیٹ کلاس زیادہ ہے۔ یہ نئی کلاس وار ہے جس میں تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ لوگ تیسری دنیا میں جمہوریت کی نئی تشریح کر رہی ہیں جہاں غیر تعلیم یافتہ آدھا آدمی ہے اور تعلیم یافتہ پورا آدمی ہے۔ گمان یہی ہے کہ ریاست اور حکومت پڑھے لکھے لوگوں کا مسئلہ ہے اور جاہلوں کو اس عالمی فاشزم کے آگے سر جھکا دینا چاہیے۔ گو تحریک انصاف اب کچھ نرمی دکھا کر لاہور کے لبرٹی چوک پر بھی جلسہ کر نے لگی ہے تاکہ کہیں یہ جہلاء زیادہ ہی تنہا محسوس نہ کرنے لگیں۔ عوامی تاریخ کا یہ سلیکٹو انقلاب اپنی گھٹی میں غیر انقلابی ہے۔حکومت کی طرف سے پانچ نکات مان لینے کے بعد نہ تو اس میں کوئی اخلاقی جواز باقی بچا ہے اور نہ اس میں اشتعال کا وعدہ ہے۔ پاکستانی قوم نے پاپ کارن پر ناحق وقت اور پیسا برباد کیا۔ ایسے ایکشن کے لیے ہماری پنجابی فلم ہی کافی تھی اور وہاں ملکی سالمیت اور جمہوری فضا بھی فٹ بال نہ بنتی۔

دوسری جانب ہیں وہ نادیدہ جرائم جن کو عمران خان صاحب شائقین کے پرجوش مطالبہ پر مکّا لہرا کر دکھاتے ہیں اور ساتھ ساتھ ان شائقین کی اس جمہوری فضا میں کھل کر اخلاقی تربیت بھی فرما رہے ہیں جس سے شہباز شریف کا پچھلا دور یاد آجاتا ہے۔ اس سب کے باوجود ضد یہ بھی ہے کہ وہ سٹیٹس کو کے خلاف بغاوت کر رہے ہیں۔ اب یہ تو مانا بھی جاسکتا تھا اگر اسد عمر اور شیریں مزاری کے ساتھ کھڑے ہو کر بولتے مگر شیخ رشید کی انگلیوں کی تھاپ پر یہ الفاظ پورے انقلابی نغمے کو گرا دیتے ہیں۔ وہاں قادری صاحب بھی کچھ ایسی ہی بات کر رہے ہیں اور وہ بھی چودھری برادران کے ساتھ کھڑے ہو کر۔ اب نواز شریف الطاف حسین کا بدل ہیں کیونکہ عمران خان بغیر کسی دشمنِ اکبر کے اپنی ناؤ پار نہیں لگا پاتے مگر قادری صاحب جو گریبانوں کو آبیٹھے ہیں ان کو کسی صورت نظرانداز نہیں کیا جاسکتا اور یہیں وہ واحد حماقت حکومت سے سرزد ہوئی ہے جس کی وجہ سے عوام کو زبردستی انقلاب کا تحفہ تھمایا جا رہا ہے۔

اگر شہباز شریف نے اپنے نام کا پاس رکھتے ہوئے شرافت سے استعفیٰ دے دیا ہوتا جو کہ انصاف کی بات تھی کیوںکہ جو ماڈل ٹاؤن میں مارے گئے وہ گاۓ بھینسیں نہیں بلکہ جیتے جاگتے انسان تھے اور بحث جتنی بھی چھیڑ لیں ذمہ دار شہباز شریف ہی ہیں، اور اگر نہیں بھی ہیں تو بنیادی سیاسی اور انسانی اخلاقیات کا پاس رکھتے ہوئے استعفیٰ دے دینا چاہیے تھا۔ ایک تو اس سے قادری صاحب ٹھنڈے ہو جاتے دوسری طرف عمران خان اپنی منطقی تنہائی تک پہنچ جاتے اور عزت اور پارٹی بچانے کے لیے پانچ نکات منوا کر پیچھے ہٹ جاتے۔ اب وہ بڑی عید سے پہلے ہی یہ قربانیاں کر چکے ہیں جب کہ بقایا پی ٹی آئی کے 75 لاکھ ووٹر اس انتظار میں ہیں کہ جب ٹیڑھی انگلیوں سے گھی نکال ہی لیا ہے تو پراٹھے کب بننا شروع ہوں گے۔ لیکن ایسا نہیں ہورہا اور قادری صاحب عمران خان صاحب کے انقلاب کا ایندھن بنے ہوئے ہیں۔ جب تک ایک نہیں ہٹے گا دوسرا بھی نہیں ہٹے گا اور عمران خان کا علاج تو ممکن نہیں ہے مگر قادری صاحب کو ہٹایا جا سکتا ہے۔ آخر میں یہی کہہ سکتا ہوں کے ایک طرف انقلاب عمران خان سے معافی چاہتا ہے اور دوسری طرف شہباز شریف کو انقلاب کو معافی دینی پڑے گی۔

تبصرے (2) بند ہیں

سمیع Aug 29, 2014 03:12pm
کیا ہی بات کر دی. ٰ
Muhammad Shahbaz Aug 29, 2014 05:33pm
سعد منیر صاحب ۔ بہت خوبصورت اور ہلکے پھلکے انداز میں آپ نے اس خطرناک ، منطق سے خالی اور ہمارے معاشرے کے کھوکھلے پن کو ظاہر کرتی مداری کا تجزیہ کیا ہے ۔ اللہ جزائے خیر دے۔