'درست ایف آئی آر اور شریف برادران کے استعفوں پرکوئی سمجھوتہ نہیں'

اپ ڈیٹ 29 اگست 2014
سربراہ پاکستان عوامی تحریک ڈاکٹر طاہر القادری ۔۔۔ فوٹو ۔۔۔ رائٹرز۔
سربراہ پاکستان عوامی تحریک ڈاکٹر طاہر القادری ۔۔۔ فوٹو ۔۔۔ رائٹرز۔

اسلام آباد: پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی درج ایف آئی آر کو بددیانتی پر مبنی قرار دیتے ہوئے کہا کہ درست ایف آئی آر اور شریف برادران کے استعفیٰ پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔

چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف سے ملاقات کے بعد اسلام آباد میں دھرنے کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ صبح آرمی چیف پرانی ایف آئی آر منسوخ کراکے نئی ایف آئی درج کرائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ایف آئی آرد یکھ کر آرمی چیف بھی حیران رہ گئے جبکہ ایف آئی آر کے معاملے میں بددیانتی کی گئی اور آرمی چیف کو بھی دھوکا دیا۔

ڈاکٹر قادری کا کہنا تھا کہ اگر نواز شریف اور شہباز شریف نے استعفی نہیں دیا تو 'دما دم مست قلندر' ہوگا۔

تقریباً تین گھنٹے 20 منٹ جاری رہنے والے اس ملاقات کے بارے میں طاہر القادری کا کہنا تھا کہ یہ خواشگوار ماحول میں ہوئی اور آرمی چیف کے صبر اور تحمل سے بات سننے پر شکریہ ادا کرتا ہوں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ آرمی چیف نے ثالثی اور ضامن بننے کی ذمہ داری لی ہے۔


نوازشریف نے آرمی چیف کو ضامن مقرر کر دیا، طاہرالقادری


پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ نے انقلاب مارچ دھرنے کے شرکاء سے خطاب میں کہا کہ نواز شریف نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو ثالث اور ضامن مقرر کر دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آرمی چیف نے ہمارے اور وفاقی حکومت کےدرمیان ثالث بننا منظورکرلیا اور انہوں نے مطالبات کیلئے 24 گھنٹےکا وقت مانگا ہے۔

طاہر القادری نے دھرنے کے شرکاء سے کہا کہ میں آپ سے اس کی اجازت لینا آیا ہوں انہوں نے شرکاء سے پوچھا کیا آپ کو منظور ہے شرکاء نے ہاتھ اٹھا کر اس پر اپنی رضامندی کا اظہار کیا۔

انہوں نے کہا کہ تمام مطالبات کا فارمولا بنا کر دیں گے جس پرضامن کےدستخط بھی ہوں گے۔

طاہر القادری نے کہا کہ مطالبات منظور نہ ہوئے تو پھر دمادم مست قلندر ہو گا۔

انہوں نے اپنے خطاب میں آرمی چیف اورپاک فوج کا شکریہ ادا کیا۔

اس سے پہلے پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری نے کہا ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ایف آئی آر مسترد کرتے ہیں، سانحے کی ایف آئی آر تو کاٹ لی گئی ہے مگر اس میں وزیر اعظم کا نام شامل نہیں۔

طاہر القادری کی جانب سے اعلان کردہ ’’یوم انقلاب‘‘ پر کارکنان سے خطاب میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کے مقدمے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ جبکہ ہم پر کاٹے جانے والے مقدمات میں دہشت گردی کی دفعات شامل ہیں، حکومت کے خلاف کاٹی جانے والی ایف آئی آر میں اس کو بھی شامل نہیں کیا گیا، اس مقدمے میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کے دفعہ سات کو شامل کیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ صرف نواز شریف اور شہباز شریف ہی مستعفی نہ ہوں بلکہ حکومت بھی ختم ہو، یہ حکومت دھاندلی سے آئی ہے، الیکشن کمیشن غیر آئینی تھا اسی لیے یہ حکومت بھی غیر آئینی ہے۔ ہم چاہتے ہیں ایک قومی حکومت بنے جو منصفانہ نظام آئے، غریبوں کو ان کی بنیادی ضروریات ہمارے چارٹر کا حصہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج قوم کے ظلم اور جبر سے آزاد ہونے کا وقت ہے، آج ملک سے سماجی ومعاشی استحصال کے خاتمے کا دن ہے، آج کا لمحہ پاکستان کے نئے دور کی تاریخ بننے جا رہا ہے، آج انقلاب کےمرحلےمیں داخل ہوچکےہیں، بہت جلدانقلاب کی خو ش خبری ملنےوالی ہے۔

پی اے ٹی کے سربراہ نے کہا کہ ہم ایک آزاد جمہوری معاشرہ چاہتے ہیں جبکہ خواتین کو ان کے حقوق اور اقلیتوں کو برابری کی بنیاد پر شہریت دی جائے، حکومتی اختیار نچلی سطح پر منتقل کرنا چہاتے ہیں جس سے عوام کو ان کے حقوق گھر کی دہلیز پر ملیں، انتخابی اور دیگر اصلاحات کے بعد انتخابات کی حمایت کرتے ہیں تاکہ صاف کردار کے لوگ سامنے آئیں۔


عوامی تحریک اور تحریک انصاف کے ایک ہونے کا اعلان


پی اے ٹی کے سربراہ طاہر القادری نے عوامی تحریک اور تحریک انصاف کے ایک ہونے کا اعلان کر دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ عوامی تحریک اورتحریک انصاف کے کارکنان آپس میں کزن ہیں، دو بھائیوں کی اولاد ہیں، بڑا بھائی میں اور چھوٹا بھائی عمران خان ہے، عمران خان عمر میں مجھ سے چھوٹا اور قد میں بڑا ہیں، یہ دونوں مل جائیں تو کوئی ان کو شکست نہیں دے سکتا۔

طاہر القادری نے کہا کہ ملک کے کروڑوں غریب عوام ظلم و نا انصافی کی زنجیروں میں جکڑے ہیں، پاکستان حکمرانوں کے لیے عیاشی کا سمندر ہے۔

کارکنان سے خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ بانیان پاکستان نےآئین میں لکھا تھا کہ غریبوں کو بنیادی حقوق دیئے جائیں گے ہم یہاں انسانی حقوق اور انصاف لینے کے لیے آئے ہیں، ہم اپنے حقوق لیے بغیر واپس نہیں جائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ عوامی تحریک نے سات سے آٹھ بار حکومت سے مذاکرات کیے، بعض اوقات مذاکرات میں چار سے پانچ سینیئر وزراء بھی شریک تھے، اور ان کا کہنا ہوتا تھا کہ وہ بااختیار نہیں ہیں وہ کسی قسم کا فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں رکھتے، پانچ بار مذاکرات کے بعد کہا گیا کہ شریف خاندان کا کوئی فرد طاہر القادری سے ملنا چاہیں گے اس کے بعد فیصلہ ہوگا، وہ بھی ملنے آگئے مگر صرف مقدمہ درج کرنے کا مطالبہ تک نہیں مانا گیا، کیا یہ جمہوریت ہے؟

تبصرے (0) بند ہیں