نابینا مکینیک، محنت و عظمت کی اعلیٰ مثال

آصف پٹیل کے ہاتھ لگتا ہے کہ گاڑی کے انجن پر کام کرنے کے لیے ہی بنے ہوئے ہیں، پسٹنز اور والو کے ساتھ ان کی وابستگی ان کے ارگرد موجود چیزوں کے مقابلے میں زیادہ گہری نظر آتی ہے۔

اپنے گرد تاروں کو محسوس کرکے آصف پٹیل اپنے سر کو ایک طرف جھکا لیتے ہیں اور بات چیت کے دوران وہ انجن کے بہت قریب ہوجاتے ہیں، آخرکار درست تاریں ان کے ہاتھ میں آگئیں اور ایک جھماکے کے ساتھ انجن میں زندگی دوڑ گئی۔

یہ دیکھ کر اس ہوشیار کار مکینک کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئی مگر جو لوگ ان کے قریب ہوتے ہیں ان کے لیے یہ کوئی 'کرشمہ' نہیں۔

آصف اس طرح کی کامیابی پر ہمیشہ ہی حیران ہوجاتے ہیں حالانکہ وہ یہی کام دس سال سے زائد عرصے سے کررہے ہیں۔

پیدائشی طور پر بنیائی سے محروم 43 سالہ آصف کی کراچی کے علاقے لسبیلہ میں اپنی گاڑی مرمت کرنے والی دکان ہے اور وہ مقامی افراد کی نظر میں ایک ہیرو سے کم نہیں۔

آصف پٹیل اس وقت صرف پندرہ سال کے تھے جب انہوں نے اپنے والد کی گاڑی پر تجربات شروع کیے اور بعد میں اپنی فیاٹ خرید لائے، مگر وہ گاڑی زیادہ عرصے تک اصل شکل میں برقرار نہ رہ سکی، کیونکہ آصف پٹیل نے نئی کراچی کے اتوار بازار سے پرزے اٹھائے اور اس میں اپنے مزاج کے مطابق تبدیلیاں کردیں۔

وہ اپنے کامیاب موسیقار بھائی کے ساتھ رہتے ہیں، جو خود بھی نابینا ہے، ان دونوں بھائیوں کو کبھی بھی اپنی معذوری پر محرومی کا احساس نہیں ہوا اور وہ ایسے معاشرے جہاں معذور افراد کو قبول نہیں کیا جاتا، میں جدوجہد کے باوجود اپنی زندگیاں تبدیل کرنے میں کامیاب رہے۔


بچپن سے ہی آصف کے اندر کھلونے، گھریلو مصنوعات وغیرہ کو توڑنے کی عادت تھی، یہاں تک کہ ایک بار تو اس نے مشینری کی ' تحقیق' کے لیے پنکھے کو بھی گرا دیا تھا۔

گاڑیوں کے لیے ان کا جوش وہ راستہ ثابت ہوا جو انہیں درست سمت میں لے گیا اور اب وہ اپنی ورکشاپ میں کام کرکے لطف اندوز ہورہے ہیں۔

ان کے کاروبار کے آغاز کی وجہ ایک دوست کی حیرت انگیز درخواست بنی تھی۔


آصف نے بتایا" میرے دوست نے مجھے چیلنج کیا تھا کہ میں اس کی پرانی سوزوکی ایف ایکس کے ساتھ کچھ ایسا کروں جو اس سے پہلے کسی نے کبھی نہیں کیا ہو"۔

اس چیلنج کو قبول کرکے آصف پٹیل نے ایک آٹو میٹک گیئر نصب کیا اور اس کے انجن کی طاقت بڑھا دی، جس سے گاڑی کو نئی زندگی مل گئی اور وہ اس وقت اس علاقے بلکہ شہر کی اس طرح کی واحد ایف ایکس ہے۔

اس وقت کے بعد سے ان کی صلاحیت پڑوسیوں اور دوستوں کے حواس پر چھا چکی ہے، بہت ہی کم وقت میں ان کے گھر کے ارگرد درجن بھر گاڑیاں مرمت کے لیے پہنچ گئیں ، شوروم مالکان ضرورت پڑنے پر انہیں غیر رجسٹرڈ گاڑیاں انجن لگانے یا تبدیل کرنے کے لیے دینے لگے، وہ خرابی کی شناخت کے لیے بریکوں کو ٹیسٹ کرتے، گاڑی کو اسٹارٹ کرتے، سسپنشن چیک کرتے اور شور کو بہت توجہ سے سنتے۔

مقامی کلینک کی ایک فزیشن ڈاکٹر سائرہ فرحان کے مطابق" جو لوگ پیدائشی طور پر نابینا ہوتے ہیں، وہ اپنی سننے اور چھونے کی حسوں کو دماغ کے ویژول حصوں کو استعمال کے بہت زیادہ بہتر بنالیتے ہیں"۔

اور اسی صلاحیت نے آصف پٹیل کو اپنے علاقے میں ایک عجوبہ بنا دیا ہے۔

گاڑیوں کو سنبھالنے کے بڑھتے ہوئے تجربے کے بعد آصف نے سولجر بازار میں بارہ افراد کی ٹیم کے ساتھ کرائے پر اپنا ورکشاپ کھول لیا، جو کہ ان کی قسمت کا تحفہ تھا۔

محمد آصف جس کو اس ورکشاپ میں کام کرتے ہوئے دس سال سے زیادہ عرصہ ہوچکا ہے، کا کہنا ہے کہ آصف پٹیل زبردست تجربہ رکھتے ہیں اور وہ اس میں کسی کو شریک نہیں کرتے۔

آصف نے بتایا" انہوں نے ہمارے ساتھ کبھی ورکرز جیسا سلوک نہیں نہیں، ہر ایک نے اس کاروبار کو اپنا سمجھ کر محنت کی ہے"۔

مگر چھ سال بعد اس کامیاب کاروبار کو کچھ بحران کا اس وقت سامنا کرنا پڑا جب آصف پٹیل کو اپنی دکان سولجر بازار سے لسبیلہ منتقل ہونے پر مجبور ہونا پڑا۔

وہ خود وہ وقت یاد کرتے ہین جب ان کی دکان گاڑیوں سے بھری رہتی تھی" دکان کے مالک نے مجھے چلے جانے کا کہا کیونکہ وہ ایک ہسپتال تعمیر کرنا چاہتا تھا، میں نے اپنی آدھی ٹیم کے ساتھ ورکشاپ لسبیلہ منتقل کردی، مگر یہاں میرا کام پہلے جیسا نہیں رہا"۔

وہ بتاتے ہیں" وہ ہسپتال بھی کبھی تعمیر نہیں ہوسکا"۔

اس تنزلی کے باوجود پٹیل ورکشاپ کا جوش بلند ہے اور سیکھنے کی طلب ابھی بھی موجود ہے، اس ٹیم نے حال ہی میں ہائی برڈ گاڑیوں کو جانچا ہے اور الیکٹرونک فیول انجکشن سسٹم پر کام کیا ہے، ایک حیرت انگیز امر یہ ہے کہ یہاں کام کرنے والے بیشتر ملازمین ابھی سیکھ ہی رہے ہیں۔

آصف کے گاڑیوں کے تجربے کے ساتھ ایک اہم چیز ٹیکنالوجی کی جانب ان کا رجحان بھی ہے، اور انہیں فیس بک اور واٹس ایپ پر بھی دیکھا جاسکتا ہے، جن کے اکاﺅنٹس وہ خود ہی چلاتے ہیں۔

پرمطمئن آصف کہتے ہیں" میں خود کو ایک متاثرہ شخص کی نظر سے نہیں دیکھتا، میں نے اپنے کام سے لوگوں کا احترام حاصل کیا ہے، الفاظ کچھ نہیں ہوتے عمل ہی سب کچھ ہوتا ہے"۔


کریڈٹس


تحریر

یمنیٰ رفیع

فوٹوگرافی

یمنیٰ رفیع

پروڈیوسرز

شامین خان

تیمورسکندر

منظرالہٰی

فیصل ظفر