احتیاطی نظربندی کا غلط قانون

01 ستمبر 2014
لکھاری انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹس کی قانونی مشیر ہیں۔
لکھاری انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹس کی قانونی مشیر ہیں۔

**حکومت کی جانب سے حالیہ کچھ روز میں پاکستان عوامی تحریک اور پاکستان تحریک انصاف کے سینکڑوں کارکنوں کو نظر بند کیے جانے کے اقدام نے ایک بار پھر پاکستان میں احتیاطی نظر بندی کے نقصانات، اور بنیادی انسانی حقوق سلب کرنے کی اس قانون کی طاقت کو واضح کر دیا ہے۔

احتیاطاً کسی کو نظربند کرنا نہ صرف انسانی حقوق کے قوانین سے متصادم ہے، بلکہ اس قانون کے غلط استعمال کی بہت پرانی تاریخ ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ حکومت پاکستان کو اس قانون کے بارے میں فوری نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے-**

اس طرح کی قید ایک طرح کا انتظامی اقدام ہوتا ہے، جو اعلیٰ حکام کی جانب سے عموماً قیدی کے بارے میں اس تصور کی بناء پر کیا جاتا ہے، کہ وہ مستقبل میں قومی تحفظ اور عوامی سلامتی کے لیے خطرہ ہو سکتا ہے- فوجداری قانون کے قیدی سے مختلف، اس قید کا فوری مقصد اس شخص کے خلاف مجرمانہ الزامات لگانا نہیں ہوتا اور نہ ہی اسے عدالت کے سامنے پیش کرکے مقدمہ چلانا ہوتا ہے-

برصغیر میں، احتیاطی نظربندی کی تاریخ نوآبادیاتی دور کے زمانے سے چلی آرہی ہے- برطانوی راج میں، اعلیٰ حکام کے پاس مختلف وجوہات کی بناء پرلوگوں کی احتیاطی نظربندی کے وسیع اختیارات ہوتے تھے جس میں عوامی مفادات سے لیکر نیشنل سیکیورٹی سب شامل تھے- 1947ء میں اس کی تخلیق کے بعد، پاکستان نے بنیادی حقوق اور آزادی کی قربانی اور امن و قانون کی حفاظت کے نام پر سیکیورٹی پر منحصراسی حکمت عملی کو جاری رکھا جو آزادی کے بعد کے تشدد اورعدم استحکام کی وجہ سے تھا-

اس وقت ان غیرمعمولی حالات کی وجہ سے غیرمعمولی اقدام کا جواز تھا، لیکن احتیاطی نظربندی، جو کہ حکومت کے اختیارات میں ایک عارضی اضافہ اور انفرادی حقوق میں کمی تھی، وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ حکمرانی کا عام طریقہ بن گیا-

احتیاطی نظربندی کا قانون آزادی کے بعد کے تمام دستوروں کا حصہ رہا ہے: 1954، 1962، اور1973، سب میں، کئی قوانین وضع کئے گئے گئے ہیں جس میں الزامات کے بغیر حراست کا قانون پاس کیا گیا، جس میں 1952ء میں Security of Pakistan Act, اور 1960ء میں West Pakistan Maintenance of Public Order Ordinance، اور 1997ء میں Anti-Terrorism Act اور بالکل حالیہ دنوں میں Protection of Pakistan Act 2014 بھی تھا-

احتیاطی نظربندی عموماً، عالمی انسانی حقوق کے قوانین کی رو سے ممنوع ہے- آزادی کا حق انسانی حقوق کا سب سے اٹل معیار ہے اور International Covenant on Civil and Political Rights کے آرٹیکل 9 کے ذریعے اس کی شناخت کی گئی ہے- جسے حکومت پاکستان نے 2010ء میں تسلیم کیا، جبکہ دوسرے تمام عالمی انسانی حقوق کی دستاویزات اور قوموں کے آئین میں اسے تسلیم کیا گیا ہے- عالمی انسانی حقوق کے قوانین اور معیار احتیاطی نظربندی کی اجازت صرف اس صورت میں دیتے ہیں جب حالت ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد کسی غیر قانونی عمل کا ارتکاب ہوا ہو- اور اس وقت بھی، نظربندی کا عمل محدود وقت کے لیے، انتہائی ضرورت کی بنا پر، اورعدالتی احکامات کے تابع ہونا چاہئے-

یہ بات بہت غیرمعمولی ہے، کہ 1973ء کے پاکستانی آئین کا آرٹیکل 10 پارلیمنٹ کو اس بات کی اجازت دیتا ہے، کہ حالت امن میں بھی مختلف وجوہات کی بناء پر، جس میں پاکستان کی سالمیت، تحفظ اور دفاع کو خطرہ، پاکستان کے خارجی معاملات اورعوامی حالات شامل ہیں، احتیاطی نظربندی کے قوانین بنائے جاسکتے ہیں، اور نظربند کیے جانے والے شخص کو حاصل فوری عدالتی مداخلت اور قانونی مدد جیسے تحفظ بھی اس سے لیے جا سکتے ہیں-

اور اسی آرٹیکل 10، کی بناء پر، پارلیمنٹ نے غیرمعمولی جابرانہ قوانین بنائے ہیں جیسے کہ حالیہ نافذ ہونے والا Protection of Pakistan Act 2014، جو افراد کی نامعلوم جگہوں پرخاندان سے ملاقات اور وکیل کے حصول کے بغیر قید کی اجازت دیتا ہے، نتیجتاً وہ تشدد، غلط رویے اور گمشدگی کا شکار ہوسکتے ہیں-

ایک کے بعد دوسری فوجی اور سویلین حکومتوں نے باقاعدگی سے احتیاطی نظربندی کے قانون کو اپنے مخالفین اورنقادوں کو خاموش کرنے اور دھمکانے کے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے، اور اس کے استعمال کے جواز کی وجہ سیکیورٹی اور امن و امان بیان کیا ہے-

اس کے بےجا استعمال کے کچھ سب سے بڑے شکار قوم پرست و علیحدگی پسند تحریکوں کے سرگرم کارکن، کمیونسٹ پارٹی کے ممبران، حکومت وقت کے سیاسی مخالفین، انسانی حقوق کے حامی، اور حالیہ دنوں میں مشتبہ ' دہشت گرد' ہیں- قانون کے اس ناجائز استعمال نے بنیادی حقوق جیسے کہ آزادی اظہار، مل بیٹھنے کی آزادی اور سیاسی عمل میں حصہ لینے کی آزادی کو بہت زیادہ دھچکا پہنچایا ہے-

ستم ظریفی یہ ہے، کہ جہاں پاکستان نے امریکہ کے مشتبہ دہشت گردوں کی طویل اور من مانی نظربندی کے قانون کی ( خاص طور پر گوانتاناموبے میں) سخت مذمت کی ہے، خود پاکستان کا اپنا سیکیورٹی کا قانون بڑی حد تک ان ہی کے نظربندی کے قانون کا چربہ ہے۔ یہ اس حقیقت کے باوجود ہے کہ امریکہ کی نظربندی کی پالیسی کو خصوصاً جو قانون گوانتاناموبے میں لاگو ہے، وسیع پیمانے پر قانون سے باہر گردانا جاتا ہے-

مثلاً، اس بات کا ثبوت موجود ہے کہ، سینکڑوں لوگ جو غیرقانونی اورمن مانے طریقوں سے دہشت گردی (اکثر بغیر کسی ثبوت کے) یا دہشت گرد گروپوں سے تعلق کے شبہ میں گوانتاناموبے میں طویل عرصے سے نظربند ہیں۔ یہاں تک کہ گوانتاناموبے کے عہدیداروں نے بھی اسے "امریکہ کا بدنام ترین جیل خانہ، ایک ایسا جیل خانہ جو کبھی ہونا ہی نہیں چاہئے تھا"، اور ایک ایسی غلطی جس نے امریکہ کے بارے میں ایک بےحد منفی تاثرکو جنم دیا ہے، قرار دیا-

سیکیورٹی کی ایسی حکمت عملی جو انسانی حقوق کے ساتھ سمجھوتے کا موجب ہو اکثر ناپسندیدہ عمل سمجھی جاتی ہے، جو موجودہ مخاصمتوں کو اور زیادہ بڑھاتی ہے، جس کی وجہ سےاحساس محرومی اور بڑھتا ہے، نتیجتاً انسانی حقوق کی پامالی کا ایک موذی چکر، جو قانون کی حکمرانی، امن اور سلامتی کو مزید نقصان پہنچائے، شروع ہو جاتا ہے- جیسا کہ International Commission of Jurist کے سرکردہ قانون دانوں کا پینل Panel of Eminent Jurists اپنی رپورٹ، جو 9/11 کےواقعہ کے بعد سیکیورٹی کے حوالے سے قانون سازی کے بارے میں تین سال پر محیط ایک عالمی سروے کے بعد تیار کی گئی تھی، میں کہا گیا تھا کہ انسانی حقوق مشکل ترین حالات میں بھی کسی طور ہرگز نظرانداز نہیں کیے جاسکتے- اس کے بجائے، سیکیورٹی مہیا کرنا اورانسانی حقوق کی پاسداری کرنا دونوں کام ریاست کی ذمہ داری کے فرائض کا ایک اٹوٹ حصہ ہے-

پاکستان کا سیکیورٹی پر منحصر موجودہ نظریہ کسی تبدیلی کے بغیر آزادی کے بعد سے اب تک چلا آرہا ہے- مبہم اور وسیع معنوں میں بیان کردہ قومی سلامتی کی ترجیحات کی بناء پر انسانی حقوق کی پامالی کا سلسلہ مسلسل جاری ہے اور کیونکہ نظریہ اب تک تبدیل نہیں ہوا ہے، جس کے نتیجے میں سیکیورٹی کی صورت حال بد سے بدتر ہوئی ہے- اب وقت آگیا ہے کہ ریاست پاکستان اپنی سیکیورٹی کی حکمت عملی میں بنیادی تبدیلی لاکر اس بات کو تسلیم کرے، کہ انسانی حقوق اور سیکیورٹی سے متعلق ان کے خدشات ثانوی حیثیت رکھتے ہیں، اور ایک دوسرے کے خلاف نہیں ہیں-

انگلش میں پڑھیں۔

ترجمہ: علی مظفر جعفری

لکھاری انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹس کی قانونی مشیر ہیں۔ وہ ٹوئٹر پر @reema_omer کے نام سے لکھتی ہیں۔

[email protected]

یہ مضمون ڈان اخبار میں 25 اگست 2014 کو شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں