سستا خون: براۓ انقلاب

02 ستمبر 2014
اسلام آباد 31 اگست 2014 — فوٹو اے ایف پی
اسلام آباد 31 اگست 2014 — فوٹو اے ایف پی

پچھلے 48 گھنٹوں سے میں ٹی وی پر زخمیوں کو ریڈ زون سے باہر لے جائے جانے کے مناظر دیکھ رہا ہوں۔ ان کے خون سے شاہراہ دستور کو سرخ ہوتا دیکھ کر مجھے ایک تاریخی تقریر یاد آگئی۔

1944 میں دوسری جنگ عظیم کے دوران ہندوستان کے عظیم قوم پرست رہنما سبھاش چندر بوس نے برما میں آزاد ہند فوج (انڈین نیشنل آرمی) کے سپاہیوں کو یہ کہہ کر جوش دلایا؛

"تم مجھے خون دو، میں تمہیں آزادی دلاؤں گا"۔

انڈین نیشنل آرمی تو خون دینے کے لیے تیار تھی، لیکن اگر ایک وفادار اپنی جان دینے کو تیار ہے، تو اسکا مطلب یہ نہیں کہ لیڈر اس کی جان اپنی مرضی سے استعمال کرے۔

بوس کی فوج برٹش راج کے خلاف برسر پیکار تھی، جو ہندوستانی نا ہوتے ہوئے بھی ہندوستان پر قابض تھے۔ انہوں نے ہندوستانیوں پر اپنے قوانین، اپنی حکومت، اپنی تجارت، اور اپنا طرز زندگی نافذ کر کے مقامی لوگوں سے ان کی خودمختاری اور آزادی چھین لی۔

انڈیا کے رہنے والے لوگ برصغیر کا کنٹرول الیکشن کے ذریعے واپس حاصل نہیں کر سکے، تو انہیں اسکے لیے لڑنا پڑا۔ جب بوس نے اپنے سپاہیوں سے خون کا تقاضہ کیا، تو ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں تھا، اور نا ہی برٹش راج نے ان کے سامنے کوئی دوسرا آپشن چھوڑا تھا۔ اور جب 1947 میں پاکستان اور ہندوستان آزاد ہوئے، تو اس کی بنیادی وجہ دوسری جنگ عظیم میں برٹش راج کو پہنچنے والا نقصان تھا، جس نے اسے انتہائی کمزور کر دیا تھا۔

طاہر القادری بھی پچھلے 2 ہفتوں سے اپنے سپاہیوں سے ایسا ہی وعدہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے کارکنوں کو یقین دلایا، کہ اگر حکومت کی جانب سے انقلاب مارچ کے شرکاء کے خلاف کریک ڈاؤن کیا گیا، تو سب سے پہلے وہ اپنا سینہ گولیاں کھانے کے لیے حاضر کریں گے۔ اسی طرح انہوں نے اپنے کارکنوں سے بھی وفاداری کا حلف لیا، انہیں قربانی کے لیے تیار کیا۔ ان کی پارٹی کی جانب سے بچوں، بوڑھوں، عورتوں، اور مردوں میں کفن بھی تقسیم کیے گئے۔

سوال یہ اٹھتا ہے، کہ کیا یہ ضروری تھا کہ قادری اپنے وفادار کارکنوں کا خون بہاتے؟ سبھاش چندر بوس کے برعکس قادری کسی غیر ملکی حکومت کے خلاف نہیں لڑ رہے۔ انہوں نے اس نظام حکومت کو ہمیشہ ہی قبول کیا ہے۔ انہیں نے 1990 اور 1997 میں پی پی پی کے ساتھ اتحاد میں ایک سویلین نگران حکومت کے دور میں الیکشن میں حصہ لیا۔ اس کے بعد انہوں نے 2002 میں ایک ڈکٹیٹر کی جانب سے کرائے گئے انتخابات بھی قبول کیے، ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے، اور آئین کی حفاظت کا حلف اٹھایا۔

لیکن جب انہوں نے اپنے کارکنوں کو وزیر اعظم ہاؤس کی جانب مارچ کرنے کا حکم دیا، تو ایک طرح سے انہوں نے اپنے کارکنوں کو آئین کی خلاف ورزی کا حکم دیا۔

طاہر القادری ایک رجسٹرڈ سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں، جو کسی بھی الیکشن میں حصہ لینے کی اہل ہے۔ انہوں نے 2008 اور 2013 کے الیکشن کا بائیکاٹ کرکے سسٹم اور ملک سے باہر رہنے کو ترجیح دی۔ طاہر القادری کے مطابق ان کے پیروکاروں کی تعداد بہت بڑی ہے، لیکن وہ اسے انتخابی کامیابی میں تبدیل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے "لاکھوں پیروکاروں" کے مینڈیٹ کو کبھی استعمال بھی نہیں کیا، بلکہ ہمیشہ اسے دھرنوں کے لیے تیار فوج کے طور پر استعمال کیا۔

طاہر القادری نے عوامی حقوق کے لیے قانونی جنگ لڑنے کے بجائے تشدد کا راستہ اختیار کیا۔ ان کی جنگ ایک فریڈم فائٹرکی نہیں، بلکہ ایک غدار اور موقع پرست کی ہے۔ ان کا طریقہ بالکل لال مسجد کے مولانا عبدالعزیز کے جیسا ہے۔

مولانا عبدالعزیز بھی نا آئین کو اور نا اس کے تحت وجود میں آنے والی حکومت کو تسلیم کرتے تھے، قادری کے ساتھ بھی ایسا ہی ہے۔

مولانا عبدالعزیز نے بھی اپنے مطالبات کو پارلیمنٹ کے ذریعے اٹھانے کی ضرورت محسوس نہیں کی، اور نا ہی طاہر القادری نے۔

مولانا عبدالعزیز کے پیروکار، بشمول مرد اور عورتوں کے، بھی ڈنڈوں اور اسلحے سے لیس تھے، قادری کے پیروکار بھی اگر اسلحے سے نہیں تو کم از کم ڈنڈوں سے لیس ضرور ہیں۔

مولانا عبدالعزیز بھی طاقت کے زور پر اسلام آباد کو یرغمال بنانا چاہتے تھے، طاہر القادری نے بھی یہی کیا۔

مولانا عبدالعزیز اور طاہر القادری میں صرف ایک فرق ہے، اور وہ ہے وہ نظام، جو دونوں "نافذ" کرنا چاہتے تھے۔

خواتین اور اقلیتوں کے بارے میں ایک ترقی پسند نظریہ رکھنے سے کسی شخص کو اجازت نہیں مل سکتی، کہ وہ اس نظریے کو نافذ کرنے کے لیے انتہا پسند رویہ اختیار کرے۔ اس لیے جو لوگ مولانا عبدالعزیز کی مذمت کرتے ہیں، انہیں چاہیے کہ وہ طاہر القادری کی بھی مذمت کریں۔

بلٹ پروف کنٹینر کے اندر سے اپنے بیان، کہ ان کے ورکر پولیس کی فائرنگ اور شیلنگ کے باوجود پیچھے نہیں ہٹیں گے، سے انہوں نے ثابت کر دیا کہ وہ اپنے اور اپنے "انقلاب" کے لیے اپنے کارکنوں کی جانوں کو خطرے میں ڈالنے کو تیار ہیں۔

بدقسمتی سے یہی غلطی اس شخص نے بھی کی، جو بظاہر جمہوریت پر یقین رکھتا ہے۔

اس شخص نے یہاں تک کہا، کہ وہ طاہر القادری کو ان کے مطالبات کے حل کے لیے جمہوری راستہ اختیار کرنے کے لیے قائل کریں گے، لیکن پچھلی رات انہوں نے طاہر القادری کے ساتھ ہاتھ ملا لیا۔

عمران خان کے کریڈٹ پر اتنا ضرور ہے، کہ انہوں نے مکمل طور پر کنٹینر میں پناہ حاصل نہیں کیے رکھی، بلکہ وہ شدید شیلنگ کے دوران بھی بار بار اپنے کنٹینر کے اوپر بلٹ پروٹیکشن کے بغیر آتے رہے۔

لیکن ان کا مارچ تو الگ ہونا چاہیے تھا۔ انکے پاس یہ بنیاد تھی، کہ انہوں نے پچھلے 14 ماہ میں تمام جمہوری اداروں میں اپنی آواز پہنچائی، تاکہ انہیں مسلم لیگ ن کی انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف انصاف مل سکے۔ ان کی پارٹی میں صرف ایک نہیں بلکہ کئی سینئر سیاستدان شامل ہیں، جو پارلیمنٹ میں رہ چکے ہیں، اور جنہوں نے آئین کی حفاظت کا حلف بھی اٹھایا ہے۔

ایک پریشان کن بات یہ ہے، کہ عمران خان ہمیشہ امن پسند رہے ہیں۔ انہوں نے ڈرون حملوں اور آرمی آپریشن کی مخالفت کی۔ وہ پچھلے 12 سالوں سے حکومتوں سے اپیلیں کر رہے تھے، کہ پاکستان کے مسئلوں میں گھرے شمالی علاقوں کا پر امن حل نکالیں، اور وہ ظالم ترین دہشتگرد گروہوں کے ساتھ بھی مذاکرات کے حامی ہیں۔

عمران خان کو اپنے پچھلے موقف پر ہی قائم رہنا چاہیے تھا۔ انہیں پیچھے رہتے ہوئے اپنے مارچ کو طاہر القادری کے مارچ میں ضم نہیں کرنا چاہیے تھا۔ نیوز رپورٹس کے مطابق جاوید ہاشمی بھی یہی چاہتے تھے۔ لیکن اپنے کارکنوں کو طاہر القادری کے رحم و کرم پر چھوڑ کر اب وہ بھی اسلام آباد میں ہونے والے کشت و خون کے ذمہ دار ہیں۔

لیکن صرف طاہر القادری اور عمران خان ہی کیوں۔ اپنے لوگوں کو محفوظ رکھنے میں ان کی ناکامی کا ایک سبب یہ بھی ہے، کہ حکومت صحیح طریقے سے بحران کو حل کرنے میں ناکام رہی۔

دھاندلی کے الزامات، حلف اٹھانے کے بعد پارلیمنٹ کے فلور پر جھوٹ بولنے، اور پولیس کو مظاہرین پر طاقت کے استعمال کی اجازت دینے کے بعد نواز شریف میں اب وہ کچھ باقی نہیں رہا ہے، جس کی امید لوگ وزیر اعظم پاکستان سے کرتے ہیں۔

مظاہرین تحریک انصاف یا عوامی تحریک کے کارکن بعد میں، اور پاکستان کے شہری پہلے ہیں، جبکہ نواز شریف ان کے وزیر اعظم ہیں۔ انہوں نے ان لوگوں کی خدمت اور تحفظ کا حلف ان الفاظ میں اٹھایا تھا۔

"میں ہر حال میں، خوف یا طرفداری اور قربت یا مخاصمت کے بغیر ہر طرح کے عوام کے ساتھ قانون کے مطابق راست اقدام کروں گا"۔

دھرنوں کے دوران خالی کرسیوں کے بارے میں نواز شریف کے بے حس ریمارکس "ہر طرح کے عوام" کے بارے میں ان کی فکرمندی کو ظاہر کرتے ہیں۔ عوام کا ایک عزت دار اور مخلص خادم مارچ کے اپنے گھر تک پہنچنے سے پہلے ہی عوام کے پاس خود چل کر جاتا۔

نواز شریف کو کم از کم تحریک انصاف جیسی جمہوری قوت سے ذاتی طور پر بات کرنی چاہیے تھی۔ ان کی جانب سے سیاسی ہلچل کو ختم کرنے کے لیے مخلص اقدامات ہونے چاہیے تھے، اور انہیں مظاہرین کے جذبات کو سمجھنا چاہیے تھا۔ مظاہرین کا اتنا حق تو بنتا تھا۔ اس کے بجائے انہوں نے اسپیکر قومی اسمبلی کے سامنے اپنے جذبات کا اظہار کیا، اس ایوان میں جہاں وہ شاید ہی پہلے کبھی گئے تھے۔

پھر اس کے بعد جو ہوا، وہ ماڈل ٹاؤن واقعے سے زیادہ برا تھا۔ پنجاب میں ان کی حکومت پر پہلے ہی لاہور کے عوام کے خلاف طاقت کے استعمال کے داغ ہیں، اور اب انہوں نے اس ظالمانہ اقدام کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں کے خلاف اسلام آباد میں بھی یہی کیا۔

ایسا لگتا ہے کہ نواز شریف ان لوگوں میں سے ہیں، جو سبق نہیں سیکھتے۔ وہ یہ سوچ کر مطمئن رہتے ہیں کہ ان کے پاس ووٹ بینک موجود ہے۔ وہ ایسے شخص ہیں، جو ان تمام لوگوں سے چشم پوشی اختیار کر لیتے ہیں، جو ان کی سپورٹ نہیں کرتے، بھلے ہی وہ ان کی حفاظت کے ذمہ دار ہیں۔ شاید وہ پاکستان مسلم لیگ ن کی قیادت کے لیے تو موزوں ہیں، پر پاکستان کی قیادت کے لیے نہیں، کیونکہ اسلام آباد میں ہونے والے کشت و خون کے لیے وہ ہی ذمہ دار ہیں۔

اس تمام کا بوجھ ایک اور پارٹی پر بھی ہے، اور وہ ہے میڈیا، جس کو ریاست کا چوتھا ستون سمجھا جاتا ہے۔ اس انقلاب کے حامی اور حکومت کے حامی، دونوں طرف کے صحافی یہ بھول گئے کہ ان کا کام صرف حقائق پیش کرنا ہے۔ لیکن اس کے بجائے وہ اپنے پسندیدہ فریق کی وکالت میں مصروف رہے۔ جہاں ایک گروپ لوگوں کو باہر نکلنے اور زیادہ تشدد پر اکساتا رہا، تو دوسرا گروپ خون خرابے کو چھپاتا رہا، جس کی وجہ سے یہ سب طویل ہو گیا ہے۔

جو لوگ مارچ میں موجود نہیں تھے، وہ سوشل میڈیا پر اس بات پر لڑ رہے ہیں، کہ کس کا خون زیادہ بہا، اور کس کی زیادہ غلطی ہے۔ ایک دوسرے سے لڑنے والے سیاسی کارکن ہر جگہ موجود ہیں، پر شاید کچھ ہی پاکستانی ہیں جو اس پورے سانحے کی مکمل طور پر مذمت کر رہے ہیں۔

مظاہرین کا خون بہا۔ پولیس اہلکاروں کا خون بہا۔ پاکستان کا خون بہا۔ تمام لوگوں کے خاندان ہیں، چاہنے والے ہیں، اور سب ہی کو اس سب ظلم و تشدد، اور اسکے ذمہ دار لوگوں کی وجہ سے تکلیف پہنچی ہے۔

آج انقلاب اپنی سیاست چمکانے کے لیے ایک خوشنما لفظ بن چکا ہے، اور اسے مزید چمکانے کے لیے اپنے کارکنوں کا سستا خون بھی دستیاب ہے۔

میں کسی کی کامیابی کے لیے دعا گو نہیں ہوں۔ میں صرف امن کی دعا کرتا ہوں۔

انگلش میں پڑھیں۔


جبران ناصر وکیل، سماجی کارکن، اور آزاد سیاستدان ہیں۔ 2013 میں فارن پالیسی میگزین کی جانب سے انہیں فرقہ وارانہ تشدد کے خلاف متاثر کن کام کرنے والے تین پاکستانیوں میں سے قرار دیا گیا۔ وہ ٹوئٹر پر MJibranNasir@ کے نام سے لکھتے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

saqib Sep 03, 2014 12:16am
dear sir. I am a student of psychology have a deep eye at pakistani politics.want to write for your online blogger kindly help how i can participate.i will wait for your humble reply thanks