سیاست اور اخلاقیات

01 ستمبر 2014
— فوٹو اے پی
— فوٹو اے پی

آجکل نواز لیگ سے تعلق نا رکھنے والا ہر سیاستدان یہی بات کرتا ہے کہ اخلاقیات کے تقاضوں کو مدّ نظر رکھتے ہوئے شریف برادران کو وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کے عہدوں سے فوراً مستعفی ہو جانا چاہیے۔

پاکستانی سیاست کو اگر دیکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان بننے سے اب تک سیاستدانوں کی جانب سے متعدد بار اخلاقیات کے پرخچے اڑائے گئے اور اب تو یہ حالات ہوگئے ہیں کہ کسی بھی سیاستدان کی طرف سے اخلاقیات کے تناظر میں کوئی حتمی اقدام کی امید رکھنا بھی بیوقوفی سے کم نہیں ہوگا۔ ہاں اس میں ہمارے عوام کا بھی قصور ہے جو ماضی قریب کے واقعات کو جلد ہی بھول جاتے ہیں اور کچھ ہی عرصہ بعد ماضی میں کسی سیاستدان کی اخلاق سے گری ہوئی حرکتوں کو بھلا دیتے ہیں۔

چاہے امریکی ایبٹ آباد پر حملہ کرکے دنیا کے مطلوب ترین شخص کو اڑا لیجائیں یا لاہور کے ماڈل ٹاؤن میں نہتے لوگوں پر گلو بٹوں کو چھوڑ دیا جائے، کبھی بھی کسی بھی عہدیدار کی سوئی ہوئی اخلاقیات نہیں جاگی اور گدھے گھوڑے بیچ کر سوتی رہی۔

پتہ نہیں وہ کون سے ملک یا قومیں ہوتی ہیں جن کے عہدیداران کسی بھی ناکامی کی صورت میں فوراً اپنے عہدے سے مُستعفی ہوجاتے ہیں۔ مگر معاف کیجیئے گا میں تو کسی ملک یا اس سے بھی بڑھ کر کسی قوم کا ذکر کر رہا ہوں اور ہمیں ابھی یہ طے کرنا ہے کہ ہم زمین کے ایک خطے میں رہائش پذیر کسی ملک کے شہری ہیں یا ایک نظریے کے تحت زندگی بسر کرنے والی ایک قوم۔ اس بحث میں نا ہی پڑیں تو بہتر ہے۔

تو خیر ہم بات کر رہے تھے اخلاقیات کی۔

آجکل شریف برادران سے مستعفی ہونے کے مطالبہ کرنے والوں میں سر فہرست عمران خان اور مولانا ڈاکٹر طاہرالقادری ہیں جو اخلاقیات کے بُلند ترین مرتبوں پر فائز ہیں۔

ویسے بھی ان میں سے ایک مولانا طاہرالقادری اپنے کپڑوں پر کسی پرندے یا جانور کا خون لگانے کی وجہ سے عدالت سے فرسٹ ڈگری میں اعلیٰ سزا یافتہ ہیں اور اس کے علاوہ ان کے خوابِ مبارکہ میں عظیم ترین شخصیت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لاچکے ہیں۔ لہٰذا ان کی شخصیت کے بارے میں تو اخلاقیات کا ذکر کرنا سورج کو چاند دکھانے کے مترادف ہوگا۔

اور دوسرے ہیں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان صاحب، جو آئے روز اپنے وعدوں سے مکر جانے کی وجہ سے اخلاقیات کے اعلیٰ ترین عہدے پر براجمان ہیں۔ آجکل تو خان صاحب اسلام آباد کے دھرنے میں روز ایک ایسے اعلان کا اعلان کرتے ہیں جو پہلے کبھی انہوں نے نہیں کیا ہوگا۔ اس کے علاوہ ہر روز دھرنے میں شریک جم حقیر کو مطلع کیا جاتا ہے کہ آج بس ہماری محنت رنگ لانے والی ہے اور اب ہمارا مقصد دور نہیں ہے۔ کل ہمارے دھرنے کا آخری دن ہوگا اور پھر ہم آزادی کا جشن منائیں گے۔ پتہ نہیں وہ کل کب آئے گا جب خان صاحب اس دھرنے کو ختم کرنے کا اعلان کریں گے۔ جس کی وجہ سے پہلے ہی اربوں روپے کا نقصان ہوچکا ہے۔

عمران خان صاحب کے ساتھ اخلاقیات کے اعلیٰ ترین عہدے پر فائز لوگوں میں سر فہرست شیخ صاحب ہیں جو کہ اعلٰی ترین اخلاقیات کا مظاہرہ کئی دہائیوں سے کر رہے ہیں اور ہر بدلتے سیاسی ماحول میں اپنا سیاسی سرپرست تلاش کرتے رہتے ہیں۔

ان شیخ صاحب کی طرف سے کبھی اعلان کیا جاتا ہے کہ اگر ڈالر کی قدر سو روپے سے کم ہوگئی تو وہ پارلیمنٹ سے مستعفی ہوجائیں گے۔ مگر خوش قسمتی سے موجودہ حکومت کا کوئی وعدہ پورا ہوا بھی تو یہ شیخ صاحب اپنی اخلاقی تربیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے وعدے سے مُکر گئے اور ابھی تک رکن پارلیمان ہیں۔

اور تو اور جب خان صاحب کی جانب سے اراکین پارلیمان سے استعفے مانگے گئے تو شیخ صاحب نے بڑی چالاکی سے کہہ دیا کے وہ استعفیٰ عمران خان کے ساتھ دیں گے اور جب کہ اب خان صاحب بھی اپنا استعفیٰ سپیکر اسمبلی کو بھجوا چکے ہیں تو پھر بھی شیخ صاحب اخلاقی مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا استعفیٰ نہیں دے رہے۔

ڈاکٹر طاہرالقادری کے ہم نواؤں میں مسلم لیگ ق کے چوہدری برادران بھی ہیں جو شیخ صاحب کی طرح اپنے سیاسی باپ کی تلاش میں ہیں۔ 2002 کے انتخابات سے قبل چوہدری برادران شریف برادران کو دھوکا دیتے ہوئے مشرف سے جا ملے اور اپنی اعلیٰ اخلاقی پرورش کا ثبوت دیتے ہوئے چوہدری برادران نے نئی بننے والی جماعت کے سربراہ میاں اظہر کو بھی دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال باہر پھینکا۔

پھر 2013 میں ہونے والے انتخابات سے قبل چوہدری برادران نے نواز لیگ میں شمولیت کی سر توڑ کوششیں کیں مگر کامیاب نا ہوسکے۔ جس کی وجہ سے ق لیگ کو انتخابات میں شکست کی سیاہی اپنے منہ پر ملنا پڑی۔

اب جبکہ چوہدری برادران ابھرتے ہوئے انقلابی کو اپنا سیاسی باپ مان چکے ہیں تو چوہدری برادران اخلاقیات کی بنیاد پر شریف برادران سے استعفیٰ مانگ رہے ہیں اور مطالبہ کرہے ہیں کہ حکومت فوراً مستعفی ہوکر نئے انتخابات کا اعلان کرے تا کہ وہ پھر سے کسی نازل ہونے والے ڈکٹیٹر کی مدد سے اقتدار میں آسکیں۔

مولانا قادری کے کنٹینر میں سوار ایک اور چہرہ دکھائی دیتا ہے وہ غلام مصطفیٰ کھرکا ہے جو کہ عمر کے اس حصّے میں بھی سیاسی یتیم ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ کبھی جلا وطنی کے بعد نواز شریف کے ساتھ سعودیہ سے آنے والی پرواز میں ساتھ دکھائی دیتے ہیں اور کبھی آصف زرداری کے کان میں کھسر پھسر کرتے نظر آتے ہیں۔

کھر صاحب کی حیثیت کا اندازہ ذوالفقار علی بھٹو کے اس اقدام سے بھی لگایا جا سکتا ہے کے بھٹو نے اپنا سیاسی جانشین غلام مصطفیٰ کھر اور معراج محمد خان کو بنایا تھا اور اب ان میں سے ایک کنٹینر کنٹینر پھر کر بھٹو کا متبادل ڈھونڈ رہا ہے۔

اگر اس بے لاگ بلاگ میں ایم کیو ایم کا ذکر نا کیا جائے تو یہ پڑھنے والے کے ساتھ زیادتی ہوگی۔ ایم کیو ایم کی جانب سے تو اخلاقیات کا مظاہرہ سندھ حکومت میں شامل ہوکر اور سندھ حکومت سے علیحدہ ہوکر متعدد بار کیا جاچکا ہے اور اس کا خوب مظاہرہ پیپلز پارٹی کے پچھلے دور حکومت میں دیکھا جاسکتا ہے۔

جب بھی کبھی ماضی میں ایم کیو ایم نے اپنی شرائط منوانا چاہی، تو کراچی کی اس سب سے بڑی جماعت نے ایسے اخلاقی داؤ پیچ کھیلے کہ سارا ملک حیران ہوگیا، اور پھر بڑی خوبصورتی سے اخلاقیات کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہی ایم کیو ایم حکومت سے علیحدہ ہوتی رہی اور مطالبات منوانے یا منسٹریاں ملنے پر حکومت میں شامل ہوتی رہی۔

ایسے ہی کچھ حالات جمیعت علما اسلام فضل الرحمان گروپ کے بھی ہیں۔ پتہ نہیں مولانا صاحب کے پاس کیا گیدڑ سنگھی ہے کہ کوئی بھی حکومت وفاق میں ان کی وزارتوں کے بغیر چل ہی نہیں سکتی اور ماضی میں دیکھا گیا کہ جب بھی مولانا فضل الرحمان حکومت سے ناراض ہوئے تو ایک عام پاکستانی کو اندازہ ہوگیا کے اب حکومت مولانا صاحب کو کچھ منسٹریاں دے گی اور وہ ہنسی خوشی حکومت کے گن گانے لگیں گے۔

میاں برادران کی جانب سے بھی اخلاقیات کا حسین مظاہرہ مشرف سے دس سال کا معاہدہ کر کے سامنے آیا اور ان کی اخلاقی جرات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ نواز لیگ کے رہنما آج بھی اس معاہدہ سے انکاری ہیں اور بڑے دھڑلے سے اس معاہدہ کو ڈیفینڈ کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔

اس کے علاوہ اخلاقیات کی اعلٰی مثال شریف برادران کی جانب سے تب دی گئی جب تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے دھرنوں سے نمٹنے کے لیے وزیر اعظم نے سابق صدر آصف علی زرداری کو جاتی عمرہ ظہرانے پر بلایا اور زرداری صاحب بھی اخلاقی دھاگے سے بندھے کھنچے چلے آئے۔

لیکن چھوٹے میاں صاحب ماضی میں دیے گئے بیان "میں زرداری کو لاہور اور کراچی کی سڑکوں پر گھسیٹوں گا"، کو یاد رکھتے ہوئے اس ظہرانے میں شریک نا ہوئے۔ ویسے اگر وہ ہو بھی جاتے تو کیا فرق پڑتا۔ سیاستدانوں کے لیے عزّت آنی جانی چیز ہوتی ہے۔ بندے کو بس ڈھیٹ ہونا چاہیے۔ خیر۔

اسلام آباد میں جاری دھرنوں کے بارے میں جو بھی کہیں۔ ان دھرنوں کی وجہ سے ایک ایسا باغی سامنے آیا ہے جو کہ بنا کسی شک کے اخلاقیات کا علمبردار ہے اور اس کا نام جاوید ہاشمی ہے۔ جو ہمیشہ اپنے جمہوری خیالات کی وجہ سے پہلے نواز لیگ اور پھر تحریک انصاف سے ناراض ہوتا رہا اور آخر میں بھی اخلاقی تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اپنے آپ کو تحریک انصاف سے الگ نہیں کیا۔ بلکہ عمران خان کی جانب سے انھیں تحریک انصاف سے الگ کیا گیا۔

اگر میری ذاتی رائے پوچھیں تو چھوٹے میاں صاحب کو ماڈل ٹاؤن سانحہ کے بعد اگر ان کی سوئی ہوئی اخلاقیات جاگے تو فوراً مستعفی ہوجانا چاہیے۔ مگر صرف چند ہزار لوگوں کے اسلام آباد میں دھرنا دینے پر بڑے میاں صاحب کے مستعفی ہونے کا مشورہ دینے کو میرا دل مانتا نہیں اور اس کی وجہ یہ کہ اس کے بعد تو کسی کی بھی حکومت نہیں چل سکے گی۔ کوئی بھی للو پنجو چند ہزار لوگوں کے لیے میوزیکل کنسرٹ کروا کر وزیر اعظم کے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرنے لگے گا۔ کسی بھی مذہبی جماعت کے کچھ ہزار پیروکار اپنے مذہبی سرپرست کے حکم پر اسلام آباد میں پارلیمنٹ کے سامنے خصوصی اجتماع کا انعقاد کرلیں گے۔ جس میں اس مسلک کے ماننے والوں پر اس خصوصی اجتماع میں شرکت لازمی قرار دی جائیگی۔

چلتے چلتے اس تصنیف کا لب لباب بھی حاضر ہے ۔ پاکستانی سیاست میں اخلاقیات نام کی کوئی بھی ِصنف پائی ہی نہیں جاتی اور اس ملک کی سیاست میں حصّہ لینے والوں کے لیے لازمی ہے کہ وہ بزریعہ آپریشن اپنے اندر پائے جانے والے اخلاقی جراثیموں کو نکلوا کر اس ملک کی تقدیر کے ساتھ کھیلیں۔ بصورت دیگر انھیں جاوید ہاشمی کی طرح لاہور اور ملتان کے درمیان ذلیل ہونا پڑیگا۔

بلاگرکا تعلق الیکٹرانک میڈیا سے ہے۔ مگر لکھاری اخراجِ جزبات، خیالات و تجزیات کے لئے ذریعہ بلاگ کا استعمال بہتر سمجھتا ہے۔ وہ ٹوئٹر پر navidnasim@ کے نام سے لکھتے ہیں۔

[email protected]

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں